جون 1992ء ۔۔۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا پس منظر
(Prof. Mohsin Vehdani, Karachi)
19جون1992ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد
سیاہ ترین تصور کیا جاتا ہے جب کرپٹ سیاستدان اشرافیہ نے اس وقت کے فوج کے
اعلیٰ ترین افسران کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے شہر
کراچی اور حیدرآباد سے امڈتے ہوئے پرامن جمہوری انقلاب کا راستہ روکنے کی
غرض سے نہ صرف ان شہروں کے تمام طبقات کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے
خلاف مسلح فوجی دستوں اور پولیس کو اتنہائی قوت سے استعمال کیا بلکہ عمومی
طور پر تمام اردو بولنے والے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔
کراچی اور حیدرآباد میں جماعت اسلامی کے زوال بلکہ مکمل صفایا کے بعد ایم
کیوا یم ایک عظیم سیاسی قوت کے طور پر اپنا وجود منوا چکی تھی اور قالطاف
حسین نے شہریوں کو ایک نئی سوچ دی تھی کہ 98فی صد عوام پر 2فی صد خواص کی
حکمرانی قبول نہیں کی جاسکتی۔ عوام اس سوچ کے طفیل تیزی سے پرامن عوامی
انقلابی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لہذا سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بڑے
زمینداروں کے ساتھ ساتھ سول، ملٹری، بیوروکریسی اور دیگر مفاد یافتہ طبقات
کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں۔ ان حالات میں بڑے ایوانوں میں یہ
فیصلہ ہوا کہ چونکہ سندھ کی شہری آبادی کی اکثریت اردو اسپیکنگ ہے اور اردو
اسپیکنگ قوم ملک کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، باشعور، متحرک اور قائدانہ
صلاحیت رکھنے والی قوم ہے جس کے لیڈر نے ملک کے 98فی صد بے نوا مظلوم عوام
کو ان کا حق دلوانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ لہذا اگراس قوم کو اور اسے زبان عطا
کرنے والی جماعت کو کچل دیا جائے تو ان شہروں سے دیہاتوں کی طرف بڑھتا ہوا
عوامی انقلاب کی سوچ کا سیلاب رک جائے گا یا اس کی سمت تبدیل ہوجائے گی۔قبل
ازیں ایم کیوا یم 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں عوام کے بھاری
مینڈیٹ حاصل کرلینے کے باعث مفاد یافتہ اشرافیہ کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔
ایم کیوا یم 1980ء سے کراچی میں ڈرگ مافیا اور ناجائز اسلحہ ڈیلروں کے خلاف
ایک مہم چلارہی تھی جس کے باعث منشیات فروش اور ناجائز اسلحہ کا کاروبار
کرکے کروڑوں اربوں کمانے والے ہوس کار بھی ایم کیوا یم کے خلاف تھے۔ ان
مافیاز نے باہم طور پر ایک سازش کے ذریعے معصوم اور بھولے بھالے پختونوں کو
اردو قوم کے خلاف استعمال کر کے مہاجر آبادیوں پر حملے شروع کروادیئے تھے۔
جرائم پیشہ افراد کو تھانوں اور چھاؤنیوں میں پناہ دی جارہی تھی اور انہیں
اردو مہاجرین کی نسل کشی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔ مگر یہ سب کافی نہ
سمجھتے ہوئے مہاجر وں کو مہاجروں سے لڑوانے کی سازش کی گئی اور ایم کیوا یم
کے باغی عناصر کو جمع کرکے مہاجروں کو قوت کو تقسیم کرکے کمزور کرنے کی
کوشش کی جانے لگیں۔
جب لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کراچی کے کور کمانڈر تھے توایم کیو ایم
کے قائد جناب الطاف حسین نے فوجی سرپرستی میں کی جانے والی اس سازش کی
بوسونگھ کراپنی پارٹی سے 19افراد کو خارج کردیاتھا جن کے خفیہ ایجنسیوں سے
مراسم تھے اور وہ ان کے اشارے پر بہت سی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث تھے۔
بعد ازاں الطاف حسین نے صدر پاکستان سے شکایت کی کہ ایک فوجی ایجنسی ایم
کیوا یم کو تقسیم کرنے کی سازش کررہی ہے۔جب جنرل آصف نواز جنجوعہ چیف آف
آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے تو وہ پہلے ہی سے ایم کیو ایم کے خلاف تھے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی حکومت تھی جو
مہاجروں کے متعلق ایک خاص نقطہ نظر رکھتی تھی کیوں کہ آل انڈیا مسلم لیگ
دراصل اردو اور بنگالی زبانیں بولنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی قائم کردہ
جماعت تھی جب کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت پنجابی زمینداروں اور
جاگیرداروں کی جماعت یو نینسٹ پارٹی کے حامی رہے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے
پنجاب میں مسلم لیگ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی مگر تقسیم کے بعد
پنجاب کے چالاک جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں نے انتہائی ہوشیاری سے مسلم
لیگ پر قبضہ کرلیا اور بنگالیوں کے علاوہ اردو قوم کے رہنما کو بھی مسلم
لیگ کے اعلیٰ عہدوں ہٹا دیا گیا ۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت
ہوا جس میں جنرل ایوب خان اور اس زمانے کی ملٹری بیوروکریسی شامل تھی۔
اس پس منظر کے ساتھ 19جون 1992ء کو پاکستان نے دھوکہ دہی اور اپنے ہی عوام
پر فوجی لشکر کشی کی ایک بد صورت تصویر دیکھی جب بظاہر جرائم پیشہ افراد کے
خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے نام پر اردو قوم کی مقبول ترین جماعت ایم
کیوا یم کے رہنماؤں عہدیداروں اور ووٹروں کے خلاف چڑھائی کی گئی۔ قانون
نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیوا یم کے دفاتر میں گھس گھس کر ہزاروں
کارکنوں اور عہدیداروں کو گرفتار کیا۔ ان کے دفتروں کو سیل کیا ۔ ایم کیوا
یم کے کارکنوں اور عہدیداروں نیز ایم کیو ایم سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں
کو دباؤ اوردھمکی کے ذریعے ایم کیو ایم سے توڑے گئے ایک باغی گروپ کے لوگوں
کی خودساختہ پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔
حکومتی اور ملٹری کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اس گروہ نے بھی ایم کیو
ایم کے عہدیداروں، کارکنوں اور ہمدردوں پر ظلم و ستم کے پہاڑتوڑے۔ کراچی
اور حیدرآباد میں ایم کیوا یم کے تقریباً 15000کارکن فوجی ایجنسیوں، باغی
گروپ اور پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس آپریشن میں مسلم لیگ (نواز) کی
حمایت میں جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، پنجابی پختون اتحاد، اے این پی اور
دیگر چھوٹے چھوٹے گروپس بھی شامل تھے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی تمام
سیاسی قیادت، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور مخلص اور بے لوث
کارکنوں کو روپوش ہونے پر مجبور کردیا گیا، انہیں ان کے گھر میں زندگی
گزارنے سے روک دیا گیا۔ روزانہ بے شمار کارکن شہید کیے جاتے تھے اور ان کے
اہل خانہ کو ایف آئی آرتک درج کروانے نہیں دی جاتی تھی۔ اردو قوم سے بالکل
اس طرح کا سلوک کیا جارہا تھا جیسے یہ لوگ پاکستانی نہ ہوں بلکہ انسان بھی
نہ ہوں۔ بے شمار ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر ملتی تھیں۔
بوریوں میں بند لاشیں ویران علاقوں سے ملنا معمول بن گیا تھا۔ کچھ لاشوں کی
ناک، کان کٹے ہوئے ہوتے تھے اور کئی ایک کی آنکھیں نکالی ہوئی ہوتی تھیں۔
جسم پر جابجا ڈرل مشینوں سے سوراخ کئے ہوتے تھے۔ آفرین ہے اردو قوم پر کہ
ظلم وستم کے بھیانک دور میں بھی اور آج تک بھی پاکستان کا پرچم تھامے سب سے
آگے کھڑی ہے اور آج اپنے لیے ایک الگ صوبے کا مطالبہ کررہی ہے مگر آج بھی
محض اس مطالبے پر اسے غدار سمجھا جارہا اور آج بھی اس کے خلاف پہلے سے ذرا
مختلف قسم کا آپریشن جاری ہے۔ |
|