نصیر قوی کے قلم سے لکھے گئے جذبات سے
لبریز یہ الفاظ ،، تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا،،تاریخ کے
اوراق پر ہمیشہ سنہری حروف بن کر جگمگاتے رہے گے یہ کسی نے سُوچا بھی نہیں
تھااس طرح لاہور گورنر ہاوس میں ایک جیالے کے منہ سے جذبات کی رو میں بہہ
کر نکلنے والے الفاظ،، ایک زرداری سب پہ بھاری،، کی صداقت پر آنے والا وقت
مہر تصدیق ثبت کر دے گامیرے جیسے لوگوں کی نظروں میں ایک مذاق تھالیکن اگر
سیاست صرف حکمرانی ،جوڑ توڑ ،شاطرانہ چالوں یا سیاست کے میدان میں بے لگام
گھوڑوں کو لگام ڈالنے کا نا م ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر اور
موجودہ کو چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری اس میدن کے سب سے
باکمال اور نڈر شہسوار ہے آپ آصف علی زرداری کی زندگی پر نظر ڈالیں آپ بھی
اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کی زندگی انہونیوں سے بھری پڑی ہے ان کی
زندگی کی سب سے بڑی انہونی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے شادی کیونکہ محترمہ
بے نظیر بھٹو سے شادی سے پہلے نہ تو آصف علی زرداری کوئی بہت بڑئے بزنس
ٹائیکون تھے نہ ہی کوئی بہت بڑئے جاگیر دارنہ ہی کوئی سیاستدان اور نہ ہی
اس طرح کی کوئی شخصیت کہ جن کا اندرون ملک یا بیرون ملک میں طوطی
بولتاہولیکن ان پر قسمت کی دیوی مہربان جو محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت
ان کی شریک حیات ٹھہری اُن کی زندگی اور اُن کے دور حکومت میں آصف علی
زرداری پر بے شمار کرپشن اور اختیارات کے نا جائز استعمال کے الزامات لگے
مسٹر ٹین پرسنٹ جیسے القابات ملے کرپشن کے الزامات میں آٹھ سال جیل کی
صعوبتیں برداشت کی ا ور مرد حُر کا خطاب اپنے سر پر سجایا ان تمام وجوہات
کی وجہ سے محترمہ کی زندگی میں اُن کو سیاست سے دور ہونا پڑامحترمہ کی
زندگی میں سُوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ آصف علی زرداری اس ملک کی سیاست
کے بے تاج بادشاہ ہو گے اور صدارت کا ہما بھی اُن کی سر پر بیٹھے گامحترمہ
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدجس وقت ملک میں بے یقینی کی فضا تھی آصف علی
زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ایک مثبت کردار ادا کیا محترمہ بے
نظیر کی شہادت سے پاکستان پیپلز پارٹی ایک بلند قامت لیڈر سے مرحوم ہو گئی
مخدوم امین فیہم اور ناہید خان جیسے لیڈروں کے ہوتے ہوئے پاکستان پیپلز
پارٹی پر گرفت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھاپارٹی میں نئے چہروں کو سامنے لے
کر آنا اور پارٹی کو اپنی سُوچ،پالیسی کے مطابق چلانا ان تمام باتوں نے
ثابت کیا کہ آصف علی زرداری ایک زیرک سیاستدان ہے آصف علی زرداری کے دور
حکومت کی مثبت باتوں پر نظر ڈالیں تو وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر
حکومت بنانے کا فیصلہ آصف علی زرداری کے سیاسی شعور کا آئینہ دار تھاجنرل
پرویز مشرف کو قصر صدارت سے رخصت کرنا اور باہر جانے کا باعزت راستہ دینا
ان کی سیاسی بصیرت کا عکاس تھادونوں دفعہ وزارت عظمی پنجاب میں دیناآصف علی
زرداری کی سیاسی پختگی کا مظہر تھاخیبر پختونخواہ میں اے این پی کے ساتھ ،سندھ
میں ایم کیو ایم کے ساتھ، بلوچستان میں جے یو آئی (ف) ،وفا ق میں مسلم لیگ
(ق) کے ساتھ پانچ سال برسر اقتدار رہناسیاسی تدبر کی ایک اعلی مثال تھی
اپنی دور صدارت میں آئین میں متفقہ ترامیم اور صدارتی اختیارات کی منتخب
پارلیمنٹ کو واپسی اس طرح کی سیاسی بردباری کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی آپ
آصف علی زرداری کے دور اقتدار پر نظر ڈالیں عدلیہ اور میڈیا جیسی اپوزیشن
ہر روز ایک نیا سوموٹو ایکشن انتظامیہ کی ہر روز چیف جسٹس کے سامنے حاضری،
وزرا اور وزیراعظم کی پیشیاں اور کچھ اینکر پرسن کا روز رات کو حکومت کو
گرا کر سونے کا خواب ،ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ اور میمو گیٹ جیسے اسکینڈل
پھر بھی پانچ سال پورئے کر جانایہ اگر کمال نہیں تو اور کیا تھاپاکستان
پیپلز پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف واضع موقف،ایران کے ساتھ پائپ لائن
منصوبہ، چین کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جعت دینا کیا یہ پاکستان پیپلز
پارٹی کی حکومت کے مثبت پہلو تھے یا نہیں اور آصف علی زرداری کی جمہوریت کے
بارئے میں یہ سُوچ کہ ندی کا پانی چلتے رہنا چاہیے کھڑا پانی گندا ہو جاتا
ہے اور چلتا پانی خود بخود صاف کیا یہ سُوچ غلط تھی کیا ہم سُوچ سکتے تھے
کہ کرپشن کے الزامات کی بنا پر پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ، اے این
پی کا خیبر پختونخواہ میں الیکشن میں صفایا ہو سکتا ہے یا پانامہ لیک کی
وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں سورج غروب ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے
یہ سب جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جس کا سہرا تھوڑا بہت آصف
علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے بھی سر ہے اُس مفاہمتی پالیسی اور آصف علی
زرداری کی دوستی کی وجہ سے جو گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے بلکہ شنان کرتے رہے
وہ آج آصف علی زرداری پرالزامات کی بارش کرنے میں پیش پیش ہیں اور کچھ اہل
قلم پاکستان پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری کی پالیسیوں کی وجہ سے مرحومہ
کے عہدہ پر بھی فاہز کر چکے ہے لیکن آصف علی زرداری وہ شخصیت ہے جو کچھ بھی
کر سکتے ہے آپ ملاحضہ کریں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں کے دنوں میں
پاکستان پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) یا جمہوریت کو سپورٹ کرنااور چوہدری
اعتزاز احسن کا مسلم لیگ (ن)کوپارلیمنٹ کے اندر جمہوریت کا درس دینا ،
پانامہ لیکس اسکینڈل کے بعد پاکستان پیپلز پار ٹی کا پاکستان تحریک انصاف
کو اسٹیرنگ سیٹ سے ہٹا کر خود براجمان ہوناخورشید شاہ کا دھیمہ پن ، بلاول
اور چوہدری اعتزاز احسن کا حکومت کو للکارنہ خود پردہ سکرین سے غائب ہونا
بلاول اور آصفہ کوفرنٹ فٹ پر کھیلنے دینا یہ سب آصف علی زرداری کے دماغ کا
کمال ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا ختم ہونااس ملک اور اس ملک کی جمہوریت
دونوں کے لیے نقصان دہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت
ہے جس کی جڑیں ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں اور ویسے بھی اگر آپ پاکستان
میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا موازنہ کریں تو اس وقت بھی آصف علی زرداری
کے ترکش میں وہ تیر ہیں جو کسی اور سیاسی جماعت کے پاس نہیں جیسے رضا ربانی،
چوہدری اعتزاز احسن،تاج حیدر، ندیم افصل چن،قمر زمان کائرہ،شیریں رحمان،
شہلا رضا، آصف علی زرداری کے دماغ اور ان لوگوں کے ہوتے ہوئے پاکستان پیپلز
پارٹی کے ختم ہونے کا سُوچنا صرف ایک خواب ہی ہو سکتا ہے صرف خواب۔ |