ماہ رمضان ، نیکیوں کے ساتھ کاروباریوں کا بھی موسم بہار
(Hafeez Khattak, Karachi)
شہر قائد سمیت پور ے ملک کی عوام اور اس سے
بھی بڑھ کر دنیا بھر کے مسلمان رمضان کی آمدکا سال بھر انتظار کرتے ہیں۔
ماہ رمضان کے آغاز سے اختتام تک نیکیاں کرنے میں مگن ہوجاتے ہیں اور یہ
سلسلہ پورا ماہ رہتا ہے۔ اﷲ رب العزت اس ماہ میں نیک اعمال کا اجر عام ایام
کی نسبت کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ جس کا بھرپور فائدہ ہر مسلمان اٹھانے کی
کوشش کرتا ہے۔ سحر ی کرانے کیلئے نئے انداز اختیار کر لئے جاتے ہیں ، مساجد
میں جہاں عام ایام میں نمازیوں کی تعداد کم ہوتی ہے ماہ رمضان میں ان کی
تعداد مسجد میں موجود اخاطے کو بھر دیتی ہے۔ دن کے اوقات میں ہوٹل و
ریسٹورنٹ سمیت دیگر اشیائے خوردونوش کا کاروبار قدرے بند رہتا ہے ، ہاں پھل
دن بھر کے ساتھ رات بھر بھی فروخت ہوتے ہیں اور ان کی مانگ میں اس قدر
اضافہ ہوجاتا ہے کہ جس کا اندازہ پھل فروش عام ایام میں نہیں لگاپاتا۔
افطار کا اہتمام بھی سماجی اور سیاسی تنظیموں کے ساتھ محلے کی سطح پر عام
افراد کرتے ہیں ۔ مسافروں کو گاڑیوں میں افطار کے پیکٹ مہیا کرنے کے ساتھ
پانی پہنچایا جاتا ہے یہ جذبہ نہایت قابل تعریف ہے۔ نیکیوں کے ان کاموں میں
ہر شخص پورا مہینہ سرگرم عمل رہتا ہے۔ شہر قائد کے باسیوں کے متعلق تو ویسے
بھی یہ بات ایک کہاوت بن چکی ہے کہ اس شہرکے باسی ہر تہوار کو خواہ وہ کسی
بھی مذہب کا ہو اسے بھرپور انداز میں جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ عیدیں
ہوں، قومی ایام ہوں ، ہندووں کے تہوار ہوں یا عیسائیوں کے کرسمس ، شہر قائد
کا ہر شہر ی بڑھ چڑھ کر ان میں کسی حد تک شامل ہوتا ہے ۔
رمضان المبارک میں جہاں نیکیوں کاموسم بہار لگ جاتا ہے اور اس موسم سے روزہ
دار بھرپور انداز میں مستفید ہوتے ہیں وہیں پر کاروبار کرنے والوں کیلئے
بھی یہ ماہ موسم بہار کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھل و سبزی فروشوں کے ساتھ کپڑوں
کے کاروباری، انہی کپڑوں کو سینے والے ٹیلرز پورے سال میں اس قدر مصروف
نہیں ہوتے جس قدر ان ایام میں ہوجاتے ہیں۔ ان ہی کے ساتھ دیگر کاروبار کرنے
والے ، کاروباری مراکز بھی دن کے ساتھ رات بھر کھلتے ہیں اور جم کر کاروبار
کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کاروبار کے ساتھ اس ماہ میں مذہب کو بے پناہ اختیار کر
کے ایک عالم کا ایک مولوی کا روپ اختیار کرنے والوں کا بھی یہ ماہ موسم
بہار بن جاتا ہے۔ وہ حفاظ جن میں بعض سارا سال مساجد میں بھی کم نظر آتے
ہیں وہ تراویح کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور پورا مہینہ یا پھر چند روز
تراویح پڑھانے کا انتظام کرتے ہیں ۔ قرآن سنا کر انعام و اکرام وصول کرتے
ہیں ۔ تراویح کیلئے تو بڑے بڑے پارکوں اور دیگر جہگوں پر چند روز کیلئے
خصوصی انتظام کر لیا جاتا ہے۔ تین دن سے لیکر نو دنوں تک میں پورے قرآن کو
امام صاحب سے پڑھانے کی فرمائش ہوتی ہے اور امام صاحب اس پر عملدرآمد کرتے
ہیں۔ ان چند دنوں کی تراویح میں کاروباری حضرات ہی وافر مقدار میں شرکت
کرتے ہیں اور قرآن ختم ہوجانے کے بعد وہ تراویح نہیں پڑھتے تمام تر توجہ
کاروبار پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس ماہ کی آمد کے ساتھ آغازسے اختتام اور
عیدکے کئی ایام تک شہر قائد میں بھیک مانگنے والوں کی بڑی تعداد نظر آنے
لگتی ہے ۔ اندرون شہر سمیت بیرون شہر سے بھکاری کراچی میں امڈ آتے ہیں اور
شہریوں سے زکوۃ ، خیرات ، عطیات و امداد وصول کرتے ہیں۔ شہر کی چوراہوں پر
بازاروں میں یہ ڈھیرے ڈال دیتے ہیں اور صبح سے شام تک اور افطار سے سحری تک
وصولیوں کے موسم بہار سے فائدے حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔
ٹی وی چینلز ، اخبارات سوشل میڈیا پر بھی اس ماہ کا موسم بہار خاص نوعیت کا
آجاتا ہے۔ اخبارا ت میں جہاں کام کا آغاز سہ پہر چار بجے سے رات تین بجے تک
رہتا ہے وہاں بیشتر انتظامیہ اپنے ملازمین کو سحری و افطاری کروانے کا
اہتمام کرتی ہے۔ یہی حال ٹی وی چینلز کا بھی ہوتا ہے ، ٹی وی چینل جہاں
چوبیس گھنٹے کام جاری رہتا ہے اس کے ملازمین کو سحری و افطاری کرانے کے
ساتھ کھانے تک کا بھی بعض چینل انتظامیہ ، انتظام کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ٹی
وی چینل پر ماہ رمضان میں خاص نوعیت کے افطاری و سخری شوز کا آغاز ہوجاتا
ہے جو کہ پورا مہینہ جاری رہتا ہے ۔ ٹی چینل کی انتظامیہ عالم دین سمیت
اداکاروں ، گلوکاروں تک سے معاہدے کر کے شوز کو کامیاب کرنے کا اہتمام کرتے
ہیں ۔ قابل توجہ اس ضمن میں یہ بات ہے کہ ان شوز کا آغاز افطار ی کا سہ پہر
2بجے سے اور سحری کا رات 2بجے سے ہوتا ہے اور اس اس طرح کئی گھنٹے یہ
ناظرین کے سامنے رمضان کو اپنے انداز میں پربہار بنانے کی کاوشیں کرتے ہیں۔
یہاں یہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ یہ پروگرامات کرنے والے کچھ مخصوص عزائم
کے ساتھ پروگرامات کرتے ہیں ، جن پر بسا اوقات ناطرین کی جانب سے اعتراضات
بھی سامنے آجاتے ہیں اور اگر اس جانب انتظامیہ توجہ نہیں دیتی تو وہ پھر
مذہبی جماعتیں احتجاج کا راستہ اپنا لیتی ہیں۔ حالیہ ٹی وی چینلز میں کئی
ایسے مناظر سامنے آئے جن پر عوام نے اول سوشل میڈیا پر ، اس کے بعد اخبارات
میں اور اب تو مذہبی جماعتیں باقاعدہ اختجاجی راستہ پر گامزن ہونے کو ہیں۔
اس جانب پیمرا کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس ماہ رمضان میں ٹی
وی چینلز کی انتظامیہ کو پہلے سے ایسے کسی بھی پروگرام سے منع کرئے کہ جس
سے کسی بھی قسم کا غیر مذہبی وقوعہ رونما ہو۔ اس اقدام پر عملدرآمد کے
نتیجے میں ٹی چینل کیلئے ماہ رمضان ایک حقیقی ماہ بہار بن سکتا ہے۔
شہر کے شاہراہوں پر ، بڑے چوراہوں و عمارات پر بڑے سائز کے سائن بورڈز پائے
جاتے ہیں ۔ شہر قائد میں جس قدر سائن بورڈ ز لگے ہوئے ہیں اس قدر سائن
بورڈز شاید ہی ملک کے کسی اور شہر میں نصب ہوں ۔ رمضان کے مہینے میں ان
کیلئے موسم بہار کا سا شروع ہوجاتا ہے ، ان کی قیمتیں جو کہ عام ایام میں
ہوتی ہیں ماہ رمضان میں قدرے بڑھ جاتی ہیں ، یعنی ان سائن بورڈز کا کاروبار
کرنے والوں کیلئے بھی یہ ماہ اپنی نوعیت کا ایک ماہ بہار بن جاتا ہے۔ اس
کاروبار کرنے والوں سے یہ معلومات بھی سامنے آئی ہے کہ اس ماہ میں ایسی این
جی اووز جو کہ سارا سال نہیں بلاتے وہ ہمارے پیچھے پڑجاتے ہیں اور ہم سے
پورا مہینہ ہمارا بورڈ کرائے پر حاصل کرلیتے ہیں، اس بورڈ پر یہ حضرات
صدقات ، عطیات اور خیرات تک کی اپیلیں کرتے ہیں اور اس انداز میں اپنے لئے
فنڈز جمع کرتے ہیں ۔ ایسی این جی اووز جنہیں عام ایام میں پورے سال کے
دوران کہیں بھی کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ہوتا وہ تک ان سائن بورڈز کے
ذریعے سامنے آجاتے ہیں اور عوام سے وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے صدقہ ،
عطیہ جمع کرتے ہیں۔ کچھ بڑی اور شہرت یافتہ تنظیمیں تو پہلے ہی یہ کام کر
رہی ہوتی ہیں انہیں عوام سال بھر اپنے امداد کے ذریعے نواز رہے ہوتے ہیں ان
کی انتظامیہ کو اس ماہ رمضان کو اپنے لئے ماہ بہار بنانے کی فکر نہیں ہوتی
وہ سال کے بقیہ گیارہ ماہ کی طرح اس ایک ماہ میں اپنے کام کر جاری رکھے
ہوئے ہوتے ہیں ۔ تاہم سنجیدہ عوام یہ جان جاتی ہے کہ اس شہر قائد سمیت پورے
ملک کون سی این جی اووز ہیں جو کہ معاشرے کیلئے فلاح و بہود کا کام کررہی
ہیں ان کی امداد عوام سال بھر کرتی ہیں ان کیلئے سال بھر ماہ بہار ہی رہتا
ہے۔
رمضان کا مہینہ ، اپنی تمام برکتوں ، رحمتوں کے ساتھ عید تحفے کی صورت میں
گذر جاتا ہے ، دیکھنا یہ ہر فرد کو چاہئے کہ اس نے ماہ رمضان کو نیکیوں کا
ماہ رمضان سمجھ کر منایا یا پھر اس ماہ کو کاروبار کا ماہ بہار سمجھ کر
گذارا۔ سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ عوام کو ازخود کرنا ہے۔ کیونکہ رمضان کا
پہلا عشرہ گذر گیا اور باقی دو عشرے بھی گذر ہی جائیں گے۔ |
|