پاکستان کے تحفظات دور کرنے کیلئے
ایک بار پھرامریکی سفارتی گروپ پاکستان پہنچ گیا ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ
پاکستان نے جب بھی اپنی اہمیت کا حساس دلایا ہے ، ہمیں اس خوف سے باہر نکل
جانا چاہے کہ امریکہ پاکستان کا کچھ بگاڑ سکتا ۔ پاکستان کی فوجی سربراہ کی
جانب سے ڈرون حملے گرائے جانے اور سخت بیان کے بعد امریکی ایوانوں میں ہل
چل مچا جانا ، پہلی دفعہ نہیں ہے ۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ عسکری قوت نے
جب بھی سخت موقف اختیار کیا تو امریکہ کے اوسان خطا ہوگئے ، ہماری اور
امریکہ کی سیاسی قیادت نہ جانے اس بات کو کب سمجھے گی کہ پاکستان کو ناکام
ریاست نہیں ہے کہ کوئی ، ہمیں پتھروں کے دور میں جانے کی دھمکی دے گا، تو
ہم اس کے سامنے فوراََ گھٹنے ٹیک دیں گے۔
ماضی میں جو کچھ ہوا ، سو ہوا ، ہمیں مستقبل کی جانب نظر رکھنی ہے ، خطے
میں ہمارا کوئی دوست نہیں ہے ، افغانستان ، ہمارا اسلامی برادر ملک تھا ،
لیکن اب نہیں ہے ، ہمیں بھارت نے چالیس سال انتہا پسندی میں الجھا کر اپنا
الو سیدھا کرلیا ہے ۔ایران ہمارا دوست تھا ،لیکن اب نہیں ہے ، گوادر
بندرگاہ اور اقتصادی راہدری کا معاملہ ہماری ملکی معیشت کیلئے اہم ہوگیا ہے
، ایران نے بھارت کے ساتھ ملکر بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسند
تحریکوں کی پشت پناہی کرکے اپنا اعتماد بھی پاکستان سے ختم کردیا ہے۔چین کے
مفادات ، پاکستان سے اپنی معیشت مضبوط بنانے کیلئے ، وابستہ ہیں ، جب اس کی
ضرورت پوری ہوگی، تو وہ بھی نظریں بدلنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا
پاکستان ادارے اندرونی خوف کا شکار ہیں۔ بلاشبہ چین خطے کا سپر پاور بننے
کیلئے اب آخری حد تک جا پہنچا ہے ، جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ۔ اگر
ایران پر عالمی پابندیاں نہ ہوتی تو یہ ایران ، چائنا اقتصادی راہدری
کہلاتا۔ایران پر عالمی پابندیوں کے سبب چین پاکستان کی جانب راغب ہوا ،
کیونکہ اسے سپر پاور بننے کیلئے مشرق وسطی اور سنیٹرل ایشیا میں رسائی
درکار تھی ، عالمی پابندیاں کا کشف چین کونہیں تھا کہ ایران ، امریکہ کو
یار غار بنا لے گا ، ورنہ چین ایک قدم آگے بڑھ کر ایران کو امریکہ کے بجائے
اپنا ہمنوا بنا لیتا ۔
چین کا سرکاری مذہب لادینیت ہے تو کیا اس مطلب یہ ہے کہ وہ دس ملین مسلم
آبادی والے صوبے میں اسلامی شعائر کے خلاف جبری احکامات جاری کرے گا ۔ اور
یہ سلسلہ ابھی سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری ہے۔سنکیانگ کے درالحکومت میں
تعلیمی بیورو کی جانب سے چلائی جانے والی ایک ویب سائٹ پر پوسٹ کئے گئے
نوٹس میں رمضان کے دوران تمام اسکولوں کی جانب سے طلبا ء اور اساتذہ کے
مذہبی سرگرمیوں کیلئے مساجد میں داخلے پر پابندی کا کہا گیا ہے ۔ جلاوطن
گروپ ورلڈ اویغور کانگریس کا کہنا ہے کہ" چین کو لگتا ہے کہ اویغور کے
مذہبی عقائد بیجنگ قیادت کیلئے خطرہ ہیں۔" گزشتہ کئی سالوں میں سیکڑوں
مسلمان ہلاک کئے جاچکے ہیں ۔یہی رویئے تو ہوتے ہیں جو ردعمل کی صورت اختیار
کرجاتے ہیں اور انھیں پھر شدت پسندی قرار دیاجاتا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم
دنیا چین کے اس اقدام پر مذمت کیوں نہیں کرتی، کیا پاکستان کو اپنے معاشی
مفادات اسلام سے زیادہ اہم ہیں ۔ مسلم دنیا کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ،
وہ چین سے مسلم اکثریتی صوبے سنکیا نگ میں اسلامی شعائر پر پابندی کے خلاف
احتجاج کیوں نہیں کرتے۔
افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دیکر کیا حاصل کیا ؟۔ بھارت کے ساتھ دوستی
اور امن کی آشا کی کتھائیں سنا کرکیا حاصل کیا ، اب تو بھارت میں رہنے والے
مسلمانوں کے بارے میں واضح کہا جارہا ہے ، انھیں انڈیا سے نکالنے کا وقت
آچکا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دو قومی نظریئے کے بنیاد پر بننے والے مشرقی
پاکستان نے ، پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر پھانسی پر چڑھانے کا
سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے ، چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں
پاکستانیوں کی طرح عام آزادی دینے سے کیا نتائج نکلے ، ۔امریکہ نے ہمیشہ
پاکستان کو دھوکہ دیا، اب تو پاکستانی اعلی سفارت کار ببانگ دہل کہہ رہے
ہیں کہ امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پاکستان سے رجوع کرتا
ہے ، ورنہ چھوڑ دیتا ہے ۔15 سالوں میں امریکہ بیالیس ممالک کی افواج کے
ساتھ ملکر افغانستان میں اپنی حکومت قائم نہیں کرسکا ، اربوں ڈالرز جنگ میں
جھونکنے کے باوجود امن قائم نہیں کرسکا۔تو پاکستان سے کس منہ سے مطالبہ
کرتا ہے کہ تین دن کے اندر افغانستان امن مذاکرات کو کامیاب بناؤ۔
پاکستان کا ماضی میں جو کردار بھی رہا ، اس میں خارجہ پالیسیوں کی غلطی کی
سزا ابھی تک پاکستانی بھگت رہے ہیں ۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ صورتحال
پاکستان کے قابو میں ہے ، وہ اپنے قبلے کو درست کرسکتا ہے ۔ دو رخی پالیسی
چھوڑ کر واضح موقف اپنائے ۔ خود کو عالمی ہاتھیوں کی جنگ سے الگ کرکے تماش
بین بن جائے۔دوبئی امارات کیا گوادر پورٹ اور پاک ،چائنا اقتصادی راہدری سے
خوش ہیں؟ ، ہمیں اس غلط فہمی کو ختم کردینا چاہیے کہ ، پاک ، چائنا اقتصادی
راہدری سے صرف ، بھارت کو کھجلی ہے ، ایران سب بڑا مخفی اور ظاہراََ مخالف
ہے ۔ پھر اس کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا گوادر پورٹ بن جانے سے دوبئی اور
شارجہ کی حیثیت ، ہانگ کانگ ، بنکاک کے قبحہ خانوں اور کیسنو سے زیادہ نہیں
رہے گی۔تجارت کیلئے فری پورٹ اور دیگر ممالک کو ترسیل کیلئے دوبئی جیسے
مہنگے شہر کے بجائے تاجر ، گوادرفری سی پورٹ و ڈرائی پورٹ کو اہمیت دیں گے
، کیونکہ یہاں انھیں تمام لاجسٹک سہولیات کم ترین معاوضے پر میسر آئیں گی
دبئی و شارجہ، تیل کیساتھ ساتھ صرف عیاشی کیلئے بنائے گئے ہوٹلز ، سمندری
جزیرے ، کیسنواور انڈر ورلڈ کے بیس پوائنٹ کے علاوہ کسی کام کا نہیں رہے گا
۔ہم اس حقیقت کو کیوں بیان نہیں کرتے ۔
امریکا صرف ایک سخت بیان پر حواس باختہ ہوچکا ہے ، ذرا سیاسی قیادت بھی ہمت
پکڑے ، اور امریکہ کو قبلہ اول سمجھنے کے بجائے اپنی خود داری ، اور اپنے
تشخص کی بقاکیلئے صف آرا ہوجائے۔ پاکستان اس وقت بھی قائم تھا ، جب بھارت
نے آزادی کے بعد جنگیں چھڑیں ، پاکستان اس وقت بھی قائم تھا ، جب بھارت نے
ایٹمی دھماکے کئے ، پاکستان اس وقت بھی قائم تھا ، جب پاکستان کو ایٹمی
دھماکوں کی پاداش میں عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ، پاکستان اس وقت
بھی قائم تھا ، جب دنیا کی عالمی سپر پاور نے پاکستان کو جنگ اکھاڑا بنایا
ہوا تھا ۔ پاکستان امریکہ کے بغیر بھی آباد تھا اور رہت گا ، بھارت کے بغیر
بھی آباد تھا اور رہے گا ، افغانستان کے بغیر بھی آباد تھا اور رہے گا ۔
انشا اﷲ۔
چین سمیت تمام ممالک کو پاکستان کی ضرورت ہے ۔پاکستان خطہ قدر ت نے بنایا
ہی ایسا ہے کہ کوئی بھی دنیاوی پاور ہو ، وہ پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے
میں چودھری نہیں بن سکتا ۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کریم کے اس حکم
کو سمجھ کر اپنے پالیسیاں بنائیں کہ یہود ونصاری کبھی تمھارے دوست نہیں
ہوسکتے ، پھر ہنود ، کیمونسٹ ممالک ہمارے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں اور نہ
ہی ایسے مسلم جنھیں دیکھ کر شرمائیں ہنود۔امریکہ، چین ، بھارت ، ایران ،
دوبئی ، افغانستان سمیت ہمیں اپنی خارجہ پالیسی قرآن کریم کے حکم و اصول
اور قانون کے مطابق بنانی ہوگی ،پھر ہی ہم سود ، خانہ جنگی ، فرقہ واریت ،
مسالک ، لسانیت ، صوبائیت ، وطینت کے سحر سے باہر نکل سکیں گے ۔ بس قرآن
حکیم کو جز دانوں سے آزادکریں اورمخمل میں لپٹے، طاقوں میں رکھے قرآنی حکام
کو نافذ کردیں۔یا ہمارے دلوں میں قفل پڑے ہوئے ہیں ؟؟ |