ان سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم پاکستان
اوپن ہارٹ سرجری کے مراحل سے بخیر وخوبی بچ نکلے ہیں،اور اﷲ کے فضل و کرم
اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے اپنے خیرخواہوں کی دعاؤں سے
ہسپتال سے گھر منتقل ہوچکے ہیں پاکستانی عوام صحتیابی کے بعد انکی ایک جھلک
دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں اور ان کی دعائیں ہیں کہ وزیر اعظم جلد سے جلد
پاک سرزمین پر قدم رکھیں اور پاکستان میں فیصلہ سازی میں پائے جانے والے
تعطل اور فقدان کا ازالہ ہوسکے، عمومی تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ اس وقت
اسلام آباد میں فیصلہ سازی کا بحران موجود ہے۔حکومت کے ناقدین کے مطابق اسی
بحران کے باعث ہی اہم ترین اجلاس جی ایچ کیو میں ہورہے ہیں اور انکی صدارت
پاک فوج کے چیف جنرل راحیل شریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور منتخب سیاسی
قیادت بشمول وزیر دفاع و خزانہ ’’اچھے بچوں ‘‘ کی طرح کلاس روم میں تشریف
فرما ہیں۔امریکہ سے آنے والے اہم وفد کو بھی جی ایچ کیو سے مذاکرات کرنے
پڑے ہیں۔ اب اطلاع آئی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف لندن سے پاکستان آنے کی
بجائے سیدھے سعودی عرب جائیں گے اور وہاں ماہ مقدس کا آخری عشرہ مسجد نبوی
میں بسر کرنے کے آرزومند ہیں، اگر ڈاکٹرز نے اجازت دی اور صحت نے ساتھ دیا
تو نواز شریف عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی سعی کریں گے اﷲ انہیں اس نیک مقصد
میں کامیاب ی عطا فرمائے۔
پاکستان میں روزانہ درجنوں بائی پاس ہوتے ہیں اور مریض بخریت گھروں کو لوٹ
آتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہمارے سیاستدان معمولی سے معمولی مرض کا علاج
بیرون ملک مہنگے ترین ہسپتالوں میں کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مہناز یوسف
کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران لندن اور یورپ کے دیگر ہسپتالوں جیسی سہولیات
سے مزین ہسپتال پاکستان میں کیوں نہیں بناتے؟ خیر اس سوال کا جواب تو
حکمران خاندان یا حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اور انکے خاندان کے خیرخواہ صحافیوں ،دانشوروں، کالم
نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات ہضم نہیں
ہورہے اور وہ بلاول بھٹو سے لیکر عمران خاں تک کی جانب سے نواز شریف کی
صحتیابی کے لیے دعا گو ہونے کے باوجود اپوزیشن کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں
مصروف عمل ہیں۔اور حزب اختلاف کو کوس رہے ہیں جیسا وزیر اعظم پاکستان کے
عارضہ قلب میں مبتلا ہونے میں حزب اختلاف کا ہاتھ ہو۔اپنے جگری یار
اصغرعبداﷲ وزیر اعظم کے لندن میں علاج معالجے کے منظر ہو کچھ مختلف انداز
میں دیکھتے ہیں انکا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو اوپن ہارٹ سرجری کے
مراحل سے گزرنے سے پہلے لندن کے ان فلیٹس کے بارے میں قوم کو سچ بتادینا
چاہیے جن میں وہ آجکل لندن میں قیام پذیر ہیں ، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ
اس سے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔لیکن اگر وزیر اعظم ایسا کرنے کا
سوچنا بھی چاہئیں تو اقتدار کے رسیا ان کے متوالے انہیں ایسا کرنے سے باز
رکھنے کی ہزار کوشش کریں گے اور انہیں باآور کرایا جائیگا کہ ایسا کرنے سے
حزب اختلاف انہیں کمزور تصور کریگی لہذا میاں صاحب ’’ بھٹو بن جائیں ‘‘
پانامہ لیکس کے ہنگامے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے اور راستہ بھی
بنتا جائے گا پانامہ لیکس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں جتنی بھی
تاخیر کی جائے گی، اس ہنگامے میں شدت کا باعث بنے گی بہتر یہی ہے کہ وزیر
اعظم نواز شریف مذید خفت اٹھانے کی بجائے عوامی موڈ کے آگے سر تسلیم خم
کرکے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے ان کے اس طرز عمل سے جمہوریت بھی ڈی ریل
ہونے سے محفوظ رہ جائے گی اور مخالفین کے منہ بھی بند ہوں گے۔اور اگر اس
معاملہ کو کسی منصوبہ سازی کے تحت طوالت کی طرف دھکیلا گیا تو پھر بقول
خورشید شاہ’’ دما دم مست قلندر‘‘ ہوگا اور ہمیشہ کی مانند اس دمادم مست
قلندر کا فائدہ غیر مرئی قوتیں ہی اٹھائیں گی۔قیام پاکستان سے آج تک جتنے
بھی بحران پیدا ہوئے اور ان کے نتیجہ میں پاکستان پر غیر جمہوری قوتیں
برسراقتدار آئی ہیں انکا الزام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر ہی لگا اور
ساری ذمہ داری سیاستدانوں کے سرتھونپ دی گئی، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے
ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ سب
سے زیادہ ذمہ داری ان کے ہی کندھوں پر ہے کیونکہ حکومت ان کی ہے اپوزیشن کی
کچھ جماعتیں ہو سکتا ہے کسی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں اور انہیں حالات کی
سنگینی کا ادراک نہ ہو لیکن چونکہ تمام صورتحال جو دکھائی دے رہی ہے وہ بھی
اور جو دکھائی نہیں دے رہی وہ بھی وزیر اعظم
کی آنکھوں کے سامنے ہے اس لیے اس صورتحال سے باہر نکلنے کی تمام تر ذمہ
داری ان کی بنتی ہے۔اور اگر اسکے باوجود وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز
سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے ملک کو ،جمہوریت اور آئین کو محفوظ
رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گی تو سو بسم اﷲ جو جی میں آئے کیجیے۔
بات ہو رہی تھی جون جولائی اور اگست کے مہینوں کی تو اس بارے سیاسی پنڈتوں
کا خیال ہے کہ یہ تین مہینے حکومت خصوصا نواز شریف کے لیے بہت اہمیت کے
حامل ہیں، ان مہینوں میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا نے کے امکانات ہیں، ایسا
ہی ماہرین علم نجوم بھی سوچتے ہیں، ابھی جون کا آغاز ہونے والا ہے لیکن
نواز شریف کی صحت کا معاملہ بن گیا ہے ،پانامہ ہنگامہ الگ اژدھا بنا ہوا ہے
علم نجوم کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انہونی کو بہترین حکمت عملی
اختیار کرکے اور صدقہ خیرات کرکے ٹالا جا سکتا ہے، شائد یہی وجہ تھی کہ
سابق صدر زرداری نے ایوان صدر میں مختلف مذاہب اور عقائد کے پیر قیام پذیر
رکھے ہوئے تھے جو انہیں روزانہ کی بنیاد پر وظائف،صدقات بتاتے تھے۔ زرداری
کے پیر اعجاز کا کہنا ہے کہ انہوں نے زرداری صاحب سے ایوان صدر میں پانچ
سال مکمل کروانے کا ٹھیکہ یا وعدہ کیا ہوا تھا سو انہوں نے یہ وعدہ پورا کر
دکھایا ہے۔ البتہ نواز شریف کے بارے میں ایسا سننے میں نہیں آیا۔لیکن یہ
بھی ممکن نہیں ہے کہ اتنے بڑے بحران سے دوچار ہونے کے باوجود نواز شریف اﷲ
توبہ نہ کروائیں۔
بعض ذرائع یہ خبریں بھی پھیلاتے ہیں کہ نواز شریف کی پریشانیوں میں فوج کے
سربراہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے خصوصی طور پر پانامہ ہنگامہ فوری طور پر
نمٹانے کی ہدایت نے کافی کام دکھایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ لندن روانگی
سے قبل وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر داخلہ چودہری نثار علی خان کی
آرمی چیف سے ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ادھر پارلیمنٹ کی پانامہ کمیٹی ٹی
او آرز کی الجھی گتھی سلجھانے میں ابھی تک ناکام جا رہی ہے اس کے اجلاس
نشستا گفتا برخاستا تک محدود ہیں یہ کمیٹی پارلیمنٹ کی جانب سے دی گئی مدت
یونہی گذارتی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف خیبر پختونخواہ حکومت اور پاکستان
تحریک انصاف کو کمزور کرنے کی وفاقی حکومت کی پس پردہ کوششوں نے رنگ دکھانا
شروع کردیا ہے، جس کے تحت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان نے عمران خاں
کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر جمہوری اقدار کو کمزور نہ ہونے دیا گیا تو جمہوریت
اور وفاقی حکومت کو کوئی طاقت ڈی ریل نہیں کر سکے گی۔ جمہوری قوتوں کے
اتحاد کی بدولت جمہوریت کے خلاف کی جانے والی ہر سازش ناکامی سے دوچار ہوتی
رہے گی۔ آجکل جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حوالے سے پلان اے اور بی کے تذکرے
زبان زد عام ہیں۔ آف شور کے شور میں قوم کو بعض کالم نگاروں ،تجزیہ نگاروں
کی جانب سے خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ جمہوریت کے خلاٖف پلان اے ناکامی سے
دوچار ہو چکا ہے اورپلان بی کی کامیابی کے امکانات بھی مخدوش دکھائی دے رہے
ہیں۔ اﷲ کرے ایسا کہنے والے صدق دل سے ایسا سچ کہہ رہے ہوں کیونکہ جمہوریت
ہی پاکستان کی بہترین محافط ہے۔ غیر جمہوری حکومتیں ہر لحاظ سے ملک و قوم
کے لیے نقصاب دہ ہیں۔ جون ،جولائی اور اگست یقیننا حکومت اور نواز شریف
خاندان کے لیے آزمائش کے مہینے ہیں یہ بات سچ ثابت ہو چکی ہے ،
|