ہرکے خدمت کرداومخدوم شد

سادہ سے کپڑے اور2۔کمروں پر مشتمل مختصر رہائش۔اب انکی عمر خدمت کرتے کرتے 88۔سال۔اب وہ ہسپتال میں ہیں۔کروڑوں پاکستانیوں کے دل سے انکے لئے دعائیں ہی دعائیں۔کئی سال پہلے یہ بتایاگیا تھا کہ ان کے گردے خراب ہوچکے ہیں۔یہ گردے بھی اچھے جو 85۔سال صحیح کام کرتے رہے۔1951ء میں میٹھا درکراچی سے شروع ہونے والا ایک ننھا سا ادارہ اب ایک عالمی فلاحی ادارہ بن چکا ہے۔انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کیاایک شخص کی کوششیں اتنے بڑے عالمی سطح کے ادارے کی شکل اختیار کرلیں گی؟۔بس خلوص شرط ہے۔اس سادہ سے انسان نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی۔چند دہائیوں میں ایدھی فاؤنڈیشن کی برانچیں پورے پاکستان میں پھیل گئیں۔کام5 ۔ہزار روپے سے شروع ہوا اور اب سالانہ بجٹ75۔کروڑروپے کے برابر ۔فنڈنگ نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں سے آتی ہیں۔تمام رقومات صرف ادارے کے فلاحی کاموں میں استعمال ہوتی ہیں۔ادارے کے13000ملازمین پر بہت ہی معمولی رقم خرچ ہوتی ہے۔بے شمار لوگوں نے اپنی خدمات مفت میں دی ہوئی ہیں۔عبدالستار ایدھی صاحب کا پورا خاندان بس اسی کام میں لگاہوا ہے۔بیگم،بیٹے اور بیٹیاں بس اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔پورے ملک میں330ایدھی سنٹرز24گھنٹے فلاحی کاموں میں مـصروف۔اب لندن ،نیویارک اور دبئی تک میں شاخیں کھل چکی ہیں۔دنیا کے اور بہت سے ملکوں میں شاخیں کھولنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔پورے پاکستان میں1800ایمبولنسز ہروقت انسانیت کی خدمت کے لئے تیار رہتی ہیں۔سیلاب ہو یا زلزلہ ،یا دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتیں۔ایدھی کی گاڑیاں فوراً بھاگتی نظر آتی ہیں۔اورکارکن بھی بے لوث خدمت کے لئے تیار۔اب ایمبولینس سسٹم گاڑیوں سے آگے بڑھ کر جہازوں اور ہیلی کاپٹر تک پھیل چکا ہے۔ایک شخص کے خلوص اور سادہ زندگی نے اتنا اعتبار کمایا کہ دنیا بھر سے لوگ مالی اعانت کے لئے تیار رہتے ہیں۔پاکستان تو فلاحی ریاست سرکاری کوششوں سے نہیں بن سکا۔لیکن سادہ سے شخص نے ایک بڑا اور عالمی ادارہ فلاحی بنیادوں پر کھڑا کردیا۔اور اب سمندروں اور دریاؤں میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں کے نقصانات سے انسانوں کو بچانے کے لئے28بڑی کشتیوں کا انتظام بھی ہوگیا ہے۔ان کا تمام عملہ ضروری اشیاء سے لیس اور ٹریننگ کامل۔اب شاید ہی فلاح انسان کا کوئی گوشہ رہ گیا ہو جہاں ایدھی سنٹر والے کام نہ کرتے نظر آتے ہوں۔ابتداء میں یہ کام لاوارث لاشوں کے سنبھالنے سے شروع ہوا تھا۔اب یتیموں،بیواؤں اور لاوارث بچوں کو سنبھالنے تک اعلیٰ درجے کے انتظامات ہوچکے ہیں۔سب سے بڑا یتیموں کا گھر کراچی میں65۔ایکٹر پر مشتمل۔پورے ملک میں جی۔ٹی۔روڈ پر ہر 50کلومیٹر کے بعد ایک ایدھی سنٹر قائم ہے۔جہاں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے ہر دس منٹ بعد ایمبولینس موجود ہوتی ہے۔سندھ کے دیہاتوں میں غریبوں کے لئے سکول بھی قائم کئے گئے۔جہاں چٹائیاں۔بلیک بورڈ اور چاک فراہم کئے جاتے ہیں۔کہیں ایدھی کے تحت باقاعدہ پرائمری سکول بھی قائم کردیئے گئے ہیں۔مخدوم ایدھی نے خدمات کرتے وقت مذاہب کو درمیان میں آنے نہیں دیا۔مدد کا حقدار چاہے ہندوہو یاسکھ،عیسائی ہویا مسلم سہولیات ہر کے لئے ہیں۔اور اگر دیکھا جائے تو یہی پیغام اسلام کا ہے۔انتظام چلانے والے بتاتے ہیں کہ صرف کراچی سنٹر میں ہر روز6000کالز مدد کے لئے موصول ہوتی ہیں۔اور ٹھیک10منٹ بعد موقع پر گاڑی اور کارکن موجود۔پورے ملک میں ہسپتال اور بلڈ بنک بھی چلائے جارہے ہیں۔انسان سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کیا ایک شخص کی کوششیں ایسے بڑے نتائج پیدا کرسکتی ہیں؟۔بس کوشش کے ساتھ کوشش کرنے والی شخصیت کاخلوص اور سادہ لائف سٹائل۔صلے اور ستائش کی تمنا نہ ہونے کے برابر۔بس جدوجہد کرتے رہو۔میں سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان میں100۔آدمی بھی اتنے مخلص ہوں اور متحد ہوکر ملک کو فلاحی اور خوشحال ریاست بنانا شروع کردیں تو چند سالوں میں یہاں سے بے روزگاری اور غربت جیسی بیماریاں ختم ہوجائیں گی۔ہمارے ملک میں اگرچہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اور بھی بہت سے ادارے کام کررہے ہیں۔ان کے نتائج سے بھی قوم آگاہ ہے۔لیکن عبدالستار ایدھی ان سب سے آگے ہیں۔اب تک انہیں بے شمار قومی اور عالمی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔لینن امن ایوارڈ انہیں1988ء میں دیا گیا اور حکومت پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز1989ء میں عطاء ہوا۔اور بیڈ فورڈشائر یونیورسٹی نے2010ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دیکر عالمی سطح پر انکی خدمات کو تسلیم کیاگیا۔سینکڑوں دوسرے اداروں نے بھی انہیں اعزازات سے نوازا۔ہماری دعا ہے کہ عبدالستار ایدھی ایک لمبے عرصے تک انسانیت کی خدمت کے لئے زندہ رہیں۔فیصل ایدھی اور بلقیس ایدھی کی خدمات بھی ہروقت جاری ہیں۔اب تک کی کوششیں صرف ایک شخص عبدالستار ایدھی کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔اب ضرورت اس کی ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کو باقاعدہ ایک ادارہ بنا دیا جائے۔پھیلتے ہوئے کام کے لئے ادارے کے لئے اصول وقوانین ہونا ضروری ہوتے ہیں۔خادم اعلیٰ اور بھی بہت سے لوگ کہلاتے ہیں۔لیکن جب ہم کام کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہیں تو ہمیں پورے ملک میں عبدالستار ایدھی ہی نظر آتے ہیں۔مخدوم بھی بہت سے لوگ کہلاتے ہیں۔کچھ پیرزادوں اور زمینداروں کے ساتھ یہ سابقہ عجیب سامحسوس ہوتا ہے۔قوم انکی فلاحی خدمات سے واقف بھی نہیں ہوتی۔لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ یہ"سابقہ"لگانا بھولتے نہیں ہیں۔یہاں ہم کسی کانام لینا درست نہیں سمجھتے۔لیکن پاکستان میں عبدالستار ایدھی کے نام کے ساتھ مخدوم کا لفظ خوبصورت نظر آتاہے۔کسی اور کے ساتھ بات بنتی نہیں ہے۔انسان اگر کوئی فلاحی کام کرنا چاہے تووسائل کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وسائل کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔خلوص سے شروع کئے گئے کام پھیلتے پھیلتے پہلے قومی اور پھر بین الاقوامی بن جاتے ہیں۔اﷲ سے دعاہے کہ وہ پاکستان کے مخدوم کو صحت عطاء کرے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.