سینک، پنڈت بستیاں ،47ء طرز پر نسل کشی دھمکیاں۔۔۔۔۔1

امریکہ کے ساتھ بنتے اور پاکستان سے بگڑتے تعلقات کی آڑ میں بھارت 1947ء جیسی مسلم نسل کشی منصوبے تشکیل دے رہا ہے۔ بھارتی حکمران اب کھل کر نصف صدی قبل کے قتل عام کی یادیں تازہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کشمیر میں ان بھارتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے فوجیوں کے لئے الگ رہائشی کالونیاں تعمیر کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پنڈت ہندو کشمیریوں کے لئے بھی الگ کالونیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔

1947ء میں مقبوضہ ریاست کے جموں خطے میں پانچ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت شہید کر دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کے خلاف جموں کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے آج بھی ہم شہداء جموں کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہر سال 6نومبر کو یوم شہدای جموں منایا جاتا ہے۔ اس دن لاکھوں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جا تا ہے۔ 47ء کو ہندو شر پسندوں نے نہیں بلکہ بھارتی حکومت نے ڈوگرہ راج کے ساتھ مل کر جموں خطے سے مسلمانوں کا صفا کر دیا تھا۔ آج پھر ان ہی ہندو دہشت گردوں کی باقیات میدان میں آگئی ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت کی ہدایت پر وہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے بھارتی فوج لاکھوں کی تعداد میں تعینات ہے۔ اس کی مدد کے لئے ہندو آبادی کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا گیا ہے۔ جموں کے شہروں اور دیہاتوں میں ہندو دہشتگرد وں کے جتھے تیار کئے گئے ہیں۔ ہندو خواتین کو بھی اسلحہ سے لیس کیا گیا ہے۔ ان کے ٹریننگ کیمپوں کی تصاویر خود ہندو گروپ فخر سے جاری کرتے ہیں ۔ ہندو آبادی کی پرائیویٹ فوج ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی)کے نام سے تشکیل دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حکومت اس پرائیویٹ ملیشیا کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں ادا کرتی ہے۔ بھارتی فوجی کیمپوں میں انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے۔

اگر چہ مسلم کش فسادات کے لئے بھارتی حکومت ہندو آبادی کو مسلسل مشتعل کر رہی ہے ، تا ہم انہیں ان منصوبوں کی تکمیل کا ابھی تو مسلم آبادی نے کوئی بڑا موقع نہیں دیا ہے۔ مگر ہندو شر پسند جواز تلاش کررہے ہیں۔ ان کی مسلم آبادی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری ہے۔ یہاں تک کے جموں کے مندروں میں توڑ پھوڑ کر کے سارا الزام مسلمانوں پر عائد کر دیا گیا۔ ہندو طبقے کو گمراہ کر لے اسے مسلم آبادی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر تیار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی حکومت، لاکھوں کی تعداد میں بھارت فوج اور نیم فوجی دستے ان کو کمک پہنچانے کے لئے تیار ہیں۔

قتل عام کے منصوبے کا انکشاف مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت کے وزیر جنگلات لال سنگھ نے کر دیا ہے۔ لال سنگھ نے کسانوں کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت کے دوران تکراراور تلخ کلامی کے موقع پراس منصوبے کا اعلان کیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ جموں کے مسلم 1947ء کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس لئے اس کی یاد تازہ کی جائے گی۔ انہیں اندازہ ہو گا کہ ہندو کتنے طاقتور ہیں۔ کہتے ہیں یہ بیان دیتے وقت کابینہ وزیر نشے میں نہ تھا۔ بلکہ ان کے ہوش و حواس درست تھے۔ کسانوں کے وفد میں جموں کے بھلوال علاقے شیوہ رنجن کا سر پنچ ممتاز احمد بھی شامل تھا۔وزیر نے جموں ے گاندھی نگر علاقے میں سرکاری رہائش گاہ پر یہ بات چیت کی تھی۔ ممتاز احمد کے مطابق وزیر کا خیال تھا کہ ان کے وفد میں صرف مسلمان کسان ہی شامل ہیں ۔ جب کہ ان کے ساتھ ہندو کسان بھی موجود تھے۔ جس کے بعد انھوں نے گاندھی نگر پولیس سٹیشن میں ہمت کر کے بی جے پی وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔

لال سنگھ ہندو ڈوگرہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مفتی سعید حکومت میں وزیر صحت تھے۔ ان کی وفات کے بعد محبوبہ حکومت میں وزیر جنگلات مقرر ہوئے۔ بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے لال سنگھ کانگریس کے ساتھ تھے۔ و ہ کانگریس کے ٹکٹ پر تین بار مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن اور دو بار بھارتی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ یہاں تک لال سنگھ نے 2014کے لوک سبھا انتخابات میں جب نریندر مودی کو’’ کتا‘‘جیسا قرار دیا جب مودی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ لال سنگھ نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے منصوبے کا انکشاف کر کے کانگریس کی پرانی وفاداری کی یاد تازہ کی ہے۔ تا ہم سچ جو بھی ہو ، یہ درست ہے کہ بھارت کشمیریوں کی جدو جہد سے بری طرح پریشان ہے۔ خاص کر جموں کی مسلم آبادی کی تحریک دوستی اور بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں سرگرم کردار بھارت کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ کیوں کہ دہلی سرکار نے سرتوڑ کوشش کی کہ کم از کم گوجر اور پہاڑی آبادی کو تحریک سے جدا رکھا جائے۔ مگر پہاڑی اور گوجر سب سے بڑھ ر تحریک پسند ثابت ہوئے۔ بلکہ انھوں نے بہت زیادہ قربانیاں بھی پیش کیں۔ یہی نہیں بلکہ جموں خطے کی ہندو آبادی کا ایک باشعور طبقہ بھی مسلح جدوجہد کا حامی ہے۔ لاتعداد ہندو نوجوان بھی حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہوئے ،کئی نے بھارتی فورسز پر زوردار حملے کئے اور آزادی کے لئے لڑتے لڑتے جان بھی دے دی۔

جولائی2011کے آخری ہفتہ کو جموں خطہ کے کشتواڑ علاقے میں جب ایک جنگجو کا بھارتی فوج کے ساتھ زبردست معرکہ ہوا۔ اس نے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دے دی، مگر ہتھیار نہ ڈالے۔ اسے بھارتی فوج نے رضوان کا نام دے کر غیر ملکی قرار دیا۔ لیکن پھر جموں میں بھارتی فوج کی 16ویں کور کے بریگیڈیئر جے ایس چیمہ نے اعتراف کیا کہ مارا گیا جنگجو رضوان نہیں بلکہ جیون لال شان کا بیٹاسبھاش تھا اور وہ عرصہ دراز سے حزب المجاہدین میں شامل ہو کر بھارتی فوج پر حملے کر رہا تھا۔ پیر پنچال ریجن میں اس نے زوردار عسکری کارروائیاں کی تھیں۔ وہ دس سال سے مسلح جدوجہد میں مصروف تھا۔ سبھاش کمار شان کا کوڈ نام کامران تھا۔ وہ کشتواڑ ضلع کے گوکنڈ رینئی نالہ کا رہائشی تھا۔ وہ حزب المجاہدین کا ڈپٹی ڈویژنل کمانڈر تھا۔یہی نہیں بلکہ وہ ایک سابق بھارتی فوجی کا بیٹا تھا۔ کشتواڑ میں ہی ایک ہندو جنگجو انار سنگھ بھارتی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ وہ سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او)تھا اور اپنی رائفل سمیت مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوا۔ اگست 2005میں وہ جھڑپ میں مارا گیا۔ حزب المجاہدین کے ساتھ شامل ایک ہندو جنگجو 2006میں بھارتی فوج کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ اس کا نام کلدیپ کمار شرما تھا اور وہ تنظیم کا ڈپٹی ڈسٹرک کمانڈر تھا۔ اسی طرح ایک ہندو جنگجو اتم سنگھ2005ء اور دوسرا بیپن کمار2008میں بھارتی فوج کے ساتھ معرکے میں لقمہ اجل بنے۔

یہ صورتحال بھارت کے لئے تباہ کن تھی۔ اس نے اسی وجہ سے ہندوؤں کا قتل عام کیا۔ بھارتی فورسز نے کئی ہندوؤں کا اجتماعی قتل کیا اور الزام مجاہدین پر لگایا تا کہ ہندو جنگجو آزادی کی تحریک سے الگ ہو جائیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔

مسلمانوں کا 47ء طرز پر قتل عام کرنے کے منصوبے پر عمل در آمد کیسے ہو گا، یہ حقائق بھی اب منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے لئے سینک رہائشی کالونیاں تعمیر کرنے کے لئے اراضی حاصل کیا جا رہی ہے۔ جبکہ ہندو پنڈتوں کو بھی لاگ کالونیوں میں بسانے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے۔ جاری۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555176 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More