ماہ رمضان میں شہباز شریف کی پھرتیاں

جونہی رمضان شریف کے بابرکت مہینہ کی آمد ہوتی ہے تو وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کی پھرتیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گذشتہ روز میاں شہبازشریف پروٹوکول کے سائبان کو تاتار کرتے قصور جا پہنچے جہاں انہوں نے ایک رمضان بازار کا دورہ کیا اور آٹے دال کا بھاو معلوم کیا تو ان کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیاکیونکہ ان کی گڈگورننس کا تو یہاں طوطی بول رہا تھا۔ بنیادی ضروریات زندگی کی ہر چیزسستے نرخوں پر عوام کی دسترس میں تھی ۔چنایچہ وہاں سے سب اچھا کی رپورٹ ملنے کے بعد متحرک اور فعال وزیر اعلٰی اچانک ایک ہسپتال جا پہنچے ۔ ہسپتال کی صورتحال بھی تسلی بخش تھی ۔ مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور عملہ نہایت جانفشانی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں مشغول تھا ۔ بس کمی تھی تو صرف یہ کہ اس ہسپتال کے اے سی کام نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ سے خادم اعلٰی کچھ خفا بھی ہوے لیکن مجموعی طور پر جو صورتحال تھی اس نے میاں صاحب کے طرزحکمرانی پر سب اچھا کی مہر تصدیق ثبت کر دی ۔میاں صاحب یہاں قومی صحت کے حوالے سے بڑے متفکر دکھائی دئیے شاید سوچ رہے ہوں کہ قوم صحت مند ہو گی تو ترقی کے دروازے خود ہی کھول لے گی ۔بعد ازاں میاں شہباز شریف کے دل میں چائلڈلیبر کا بھی درد جاگا اور ان کی سواری اینٹوں کے ایک بھٹہ پر جا پہنچی جہاں انہوں نے اپنے جوش خطابت کے ذوق کی بھی تسکین کی اور حسب معمول ایک دھواں دارتقریر کر ڈالی جس میں میاں صاحب نے اپنے عزم کو دہرایا کہ وہ ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کر کے دم لیں گے ۔ میاں صاحب نے اپنے اس غیر اعلانیہ دورے میں حسب عادت حاتم طائی کا بھی کردار ادا کیا اور کچھ مستحقین کو مالی امداد اور وظیفوں سے بھی نوازا۔ اس موقع پر گویا میاں صاحب کے دل میں عوامی درد کی لہروں کا سمندر موجزن تھا ۔ اس دورے میں اگر کوئی کسر رہ گئی تو وہ یہ تھی کہ کوئی سرکاری اہلکار سستی اور کاہلی کے جرم میں معطل نہ ہو سکا ۔ ایسا کیوں نہ ہو ا اس کا جواب تو میاں صاحب ہی دے سکتے ہیں ۔آپ جانتے ہوں گے میاں صاحب کی پھرتیوں کی وجہ سے چین نے موصوف کو مین آف ایکشن کے خطاب سے بھی نواز رکھا ہے ۔لیکن ایک سوال ایسا ہے جو میں میاں صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ صرف رمضان میں ہی بازاروں کا دورہ کیوں کرتے ہیں ۔ انہیں صرف رمضان میں ہی غریبوں کا خیال کیوں ستاتا ہے ۔سارا سال ذخیرہ اندوزوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہوتی ہے اس کی طرف میاں صاحب آپ کا دھیان کیوں نہیں جاتا۔ ایک مہینہ آٹا گھی دالیں پانچ دس روپے سستی حاصل کر کے غریب کو کیا فرق پڑے گا ۔ کہیں تاجروں سے یہ ڈیل تو نہیں کر رکھی کہ گیارہ مہینے تہاڈے تے اک مہینہ ساڈا ۔مطلب یہ کہ گیارہ مہینے تو آپ بے شک مہنگائی کا طوفان برپا کر دیں بس رمضان میں ہاتھ کچھ ہولا رکھیں۔ویسے لگتا ہے کہ میاں صاحب کی یہ پھرتیاں ماند پڑنے والی ہیں کیونکہ عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری صاحب کنیڈاسے تشریف لا چکے ہیں اور مال روڈ پر ایک زبردست دھرنے کا ٹریلر بھی حکومت کو دکھا چکے ہیں ۔اگرچہ رمضان کی وجہ سے قادری صاحب کا یہ دھرنا طوالت تو اختیا نہ کر سکا لیکن عید کے بعد برسات کی رم جھم میں دھرنوں کا طوفان برپا ہونے کی بھی امید کی جارہی ہے ۔طاہر القادری جو سانحہ ماڈل ٹاون کے سوگواران کو انصاف دلانے کے لیے ان دھرنوں کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اس مرتبہ بھی گرما گرم احتجاج ریکارڈکروانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ طاہرالقادری جو شعلہ بیانی اور جملہ فراستی میں عالمی شہرت رکھتے ہیں تروتازہ دکھائے دیتے ہیں اور انہوں نے خلاف معمول اپنے کارکنوں سے کھڑے ہو کر خطاب کیا ۔ گویا انہوں نے اس عمل سے حکمرانوں کو یہ عندیہ دیا ہے ۔ ہوشیار باش ابھی تو میں جوان ہوں ۔اس سارے کھیل میں تشویشناک بات یہ ہے کہ ان دھرنوں سے ملکی حالات مذید خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ طاہر القادری جس قسم کے انصاف کا حصول چاہتے ہیں وہ تو پاکستانی معاشرے کے لیے ایک خواب کا درجہ رکھتا ہے ۔ یہ تو روایت چلی آ رہی ہے پاکستانی معاشرے میں کہ جس کے ساتھ ظلم ہو اہو اول تو وہ ثابت کرنے میں ہی ناکام رہتا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہو بھی جائے کہ ظلم ہوا تھا تو اس عمل میں اتنی تاخیر ہو چکی ہوتی ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والا تب تک خاک بسر ہو چکا ہوتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں سستا انصاف،قانون کی حکمرانی ،آئین کی بالا دستی،غریبوں کے حقوق،قانون سب کے لیے برابر،پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی جیسے پرکشش الفاظ متروک ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے محاورے زور پکڑ چکے ہیں ۔ اداروں کا وجود تو ملک میں برائے نام ہے ۔ پولیس جس سے غریب کا واسطہ ہمہ وقت رہتا ہے ۔ جو انصاف کے حصول کی خاطر غریبوں کے لیے پہلا دروازہ ہے لیکن جب غریب اس دروازے پر دستک دیتے ہیں تو یہ دروازہ ان کے لیے ہمیشہ بند ہی رہتا ہے ۔اسی طرح عدالتی نظام میں مقدمات کے فیصلوں کا طوالت اختیارکر جانا بھی معاشرے میں بے چینی کا سبب ہے ۔حساس دل پاکستانی پولیس کے رویے اور عدالتی رسہ کشی سے اس قدر عاجز آ چکے ہیں کہ وہ کیفیت بیان کرنا قلم کے بس میں نہیں ہے لیکن بے بس عوام دعا کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔اللہ کر ے پاکستان کو کوئی ایسا حکمران نصیب ہو جس کا دامن اس قدر صاف ہو کہ وہ نہ نیب کو مطلوب ہو نہ عدالت میں اس کا کوئی مقدمہ ایساہو کہ اسے طول دینے کے لیے اسے قانون سے کھیلنا پڑے اور نہ ہی وہ دولت کے مینار استوار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو تبھی جا کر ان احتجاجی دھرنوں اور جلوسوں سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔ اور اگر ہم ایسے ہی حکمرانوں کے لیے مسند اقتدارکی راہ ہموار کرتے رہے جو دولت کے انبار لگانے کے شوقین ہیں جو اپنے معمولی سے مفاد کے لیے قانون کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں جو آئین کا احترام کرتے ہیں نہ انہیں عدالتوں کا کوئی خوف ہوتا ہے تو نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو اس سے پہلے برآمد ہوتا رہا ہے ۔اب فرض کریں طاہر القادری انصاف کے حصول کے نام پر دھرنوں کا اعلان کر دیتے ہیں جس کی توقع بھی کی جا رہی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔طاہرالقادری کو شاید ان دھرنوں کا کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہ ہو لیکن شہباز شریف کی پھرتیوں کو ضرور بریک لگ جائے گی ۔شہباز شریف کی توجہ فلاحی منصوبوں سے ہٹ جائے گی اور ان جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی دیکھ بھال میں لگ جائیں گے ۔ وطن عزیز کو ان دنوں جس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے اس صورتحال میں پاکستان کے سبھی خیرخواہوں کو اور بالخصوص سیاستدانوں کو تحمل ،تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طاہرالقادری صاحب کا حق ہے کہ وہ جلوس نکالیں یا دھرنادیں لیکن اس عمل کے دوران ان کواس بات کا بخوبی احساس رہنا چاہیے کہ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں ۔ کہیں وہ قوتیں آپ کے ان دھرنوں کی آ ڑ میں فائدہ نہ اٹھا لیں۔اگر ملک قائم ہے تو آپ ہیں، شہباز شریف ہے ، ہم ہیں یہ ریلیاں ،جلسہ اور دھرنے ہیں ۔ لہٰذا احتیاط لازم ہے ۔
abdul razzaq choudhri
About the Author: abdul razzaq choudhri Read More Articles by abdul razzaq choudhri: 96 Articles with 66476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.