جب دل ہوا شاد

تحر یر دعا اعوان

میری بیاض سے۔۔
آوارہ کالمز۔۔
یا اﷲ تیرا لاکھ لاکھ شکر۔۔آج ایک ماہ اور پندرہ دن بعد وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے میں کامیاب ہوئی تھی۔۔افففف۔۔جسم کا سارا خون سمٹ کر کانوں سمیت منہ پر آن رکا تھا۔۔دل یکبارگی دھڑک اٹھا۔۔انتظار کے لمحے کس قدر جان لیوا ہوتے ہیں نا۔۔کتنی بے چینی رہتی ہے ہر لمحہ ہر وقت ایک تشنگی کا احساس جو اسے ادھورے پن کا احساس دلاتا تھا کیونکہ اس کی آنکھیں جس چہرے کو ڈھونڈتی تھیں وہ تو کسی دوسرے دیس جا بسا تھا۔۔

دل اس کی بدلی بدلی حالت کا بخوبی مشاہدہ کر رہا تھا اور اس کی ہر ہر حرکت نوٹ کر رہا تھا۔۔

وہ سارا وقت بولائی بولائی پھرتی۔۔نظریں گویا اسی کے راستے پر چپک گئی تھیں اور اس کے انگ انگ سے بے چینی چھلکتی تھی۔۔اتنے بڑے گھر میں اس کا ذہن ایڈجسٹ ہو کر پھر سے بے آرام ہو گیا تھا اور وہ اپنے پرانے عیش بھرے لمحات کو تلاشتی اور فرصت بھرے پر سکون پل ڈھونڈا کرتی۔۔

دل اسکی حالت پر دل کھول کر ہنسا کرتا۔۔آتے جاتے اس کی انتظار بھری جھنجھلاہٹ پر چھوٹی سی ایک مسکراہٹ ضرور اچھال دیتا اور وہ جواباً اسے گھور کر رہ جاتی۔۔رات کو جب وہ اسے پہروں سوچا کرتی? گھٹنوں پر سر رکھے گھنٹوں اسے یاد کرتی تو دل چپکے سے اوٹ میں آ کر اسے تنگ کیا کرتا۔۔اور جب وہ بے بس ہو جاتی اور انتظار کی تھکن اس کی پلکوں پر اترنے لگتی تو وہ امید چھوڑنے لگتی اور مایوس ہو جاتی تب دل اسے کسی ہمدرد سہیلی کی طرح ہر نکتہ سمجھاتا اور پھر سے اس کا دوست بن جاتا اسے تسلیاں دیتا تو وہ بھیگی پلکوں کے ساتھ مسکرا دیتی..پتا نہیں دل ساری باتوں سے بے نیاز کیوں ہو گیا تھا؟ دل ساری باتوں سے لاپرواہ ہو کر اس کے پیچھے چل پڑا تھا اور کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کا پلو پکڑ لیا۔۔
اور وہ۔۔۔؟؟
پتا نہیں ان سب باتوں سے واقف بھی تھا یا نہیں؟؟
لیکن اسے یقین تھا کہ اس طویل سفر میں وہ اکیلی نہیں تھی کیونکہ اس کی خامشی اس کی ان کہی باتیں اور اس کی بولتی نگاہیں اس کی محبتوں کی امین تھیں اس کی ہم سفر اور رازداں بھی۔۔
جانے وہ اتنا کیوٹ کیوں تھا کہ دل اس کی راہ پر چپ کر کے کیوں چل پڑا تھا؟؟
دل کی ساری دانائی اور حکمت کہاں گم ہو گئی تھی؟ ساری دلیلیں سارے فلسفے پتا نہیں کہاں جا سوئے تھے۔۔؟
وہ جو کہا کرتا تھا بہت فلاسفی جھاڑتی ہو کسی کو بھی بحث میں جیتنے نہیں دیتی قائل کر کے چھوڑتی ہو تو وہ کیا بتاتی کہ آج جب اپنے دل کا مقدمہ در پیش آیا تو سارے دلائل گڈ بائے کر گئے تھے اور وہ عمر بھر کی فاتح بلآخر پسپا ہوئی کیونکہ جب نظر سے پوچھا تو وہ شرارت سے بولی میرا کیا قصور؟ مجھے تو آنکھیں جس طرف کہیں گی اسی طرف اٹھوں گی نا۔۔
وہ جھنجھلاتے ہوئے آنکھوں کے پاس گئی تو وہ کچھ نہیں بولیں چپ کر کے اس کے چہرے پر ٹک گئیں۔۔
وہ کڑے تیوروں کے ساتھ دماغ کی طرف بڑھی دروازہ کھٹکھٹایا تو نو لفٹ کا سائن ملا آخری منصف دل ہی تھا اس کی طرف گئی دستک دی تو اندر سے آنے والی آواز سن کر اچھل پڑی کیونکہ وہ آواز تو اسی ستمگر کی تھی دل جس کی رفاقت کا متمنی تھا جب دل کے سامنے ساری فریاد پیش کر چکی تو دل بھی اپنی چال چل چکا تھا کیونکہ منصف کوئی اور نہیں بلکہ وہی موصوف تھے جن کی وہ بڑھ چڑھ کر شکایتیں لگا رہی تھی وہ بھرپور شرارت سے ہنس پڑا کیونکہ دل نے اسی کے حق میں فیصلہ جو دیا تھا اس نے خوب احتجاج کیا دل کو میری فریاد پر کان دھرنے پڑے تھے آخر ہماری بچپن کی دوستی تھی۔۔دل بھلا اس کے دو محبت بھرے بولوں میں کیوں آتا جب کہ میں نے ہمیشہ اس کی رائے کو مقدم جانا اور ہر معاملے میں اسے پیش پیش رکھا تھا آخر وہ اجنبی شخص اس کا بھلا لگتا ہی کیا تھا؟؟ ہونہہ۔۔آیا بڑا رعب اور حق جتانے والا۔۔میں یہ سب کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔
آخری فیصلے کی سماعت تک وہ دل ہی دل میں اسے منہ لٹکائےخالی ہاتھ افسردگی سے در دل سے باہر جاتے دیکھتی اور تصور کی آنکھ سے خوب مزے لیتی۔۔افففففف۔۔!!!
دل نے آخری فیصلہ سنانے کے لیے وقت مانگا اس نے ادائے بے نیازی سے دان کر دیا۔۔ہونہہ۔۔بے چارہ مہمان۔۔بڑی سخاوت دلی سے اس نے دو ماہ دے ڈالے۔۔وقت آہستہ آہستہ گزرتا جا رہا تھا مگر وہ اپنی جیت پر پر یقین تھی ہاں کبھی کبھار وہ خیریت اور حال چال معلوم کرنے دل میں جھانکتی تو وہ پوری شان سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مصروف نظر آتا۔۔وہ دروازہ پٹخ دیتی اور خود کئی دن اس کی سوچوں کے بھنور میں ڈوبتی ابھرتی( غصے سے بھئی۔۔)
اور وقت ختم ہو گیا تھا نتیجہ سنانے کی باری آئی تو ایک بار پھر چشم تصور سے وہی منظر جھلکا لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔اسی اثنا میں نتیجہ سنا تو بالکل یہ۔۔
کل رات میں نے دل سے تیرا رشتہ پوچھا۔۔۔
کم بخت کہنے لگا جتنا میں اس کا ہوں تیرا بھی نہیں۔۔
میرے لبوں پر رکی مسکراہٹ نے فوراً پر سمیٹے تھے آن واحد میں پانسہ بدل ڈالا تھا اس نے۔۔مگر کیسے؟؟ ہر طرف بے یقینی سی بے یقینی تھی۔۔
جو تھوڑی بہت جگہ اس کے تسلط سے آزاد اور میری فیور میں تھی اس عرصے میں وہ طوطا چشم بھی اس کی طرف دار ہو گئی تھی اور دل جو میرا بچپن کا ساتھی تھا جب فیصلہ سنانے کا کہا تو دل چپکے سے اٹھا اور پوری رضا مندی سے اس کے جو میرا حریف تھا۔۔اس کے قدموں سے لپٹ گیا۔۔
ہااااااااااا؟؟؟؟

میں نے پھٹی آنکھوں سے شکستہ دل کا یہ منظر دیکھا اور وہیں کی وہیں رہ گئی۔۔وہ دھیمی مسکراہٹ سے چلتا ہوا میرے پاس آن ر کا ا نگشت شہادت میرے دل کے وسط پہ رکھ کر بجاتے ہوئے بولا۔۔
"یہاں رہتا ہوں میں اور تمہیں پتا ہے تمہاری ہر سوچ مجھ سے ہو کر گزرتی ہے اور میں نے اتنے دنوں کی محنت کے بعد بلآخر تمہارے شہر دل کا وہ کونا ڈھونڈ ہی لیا ہے جہاں کسی جگنو کی سی مدہم سی روشنی میں میری محبت ہولے ہولے پھڑپھڑا رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایک نا ایک دن وہ تھوڑی سی روشنی ضرور اتنی بڑھ جائے گی کہ سیاہ بے چاند راتوں میں تمہارے دل کے کونے کونے میں پھیل کر تمہیں راہ دکھائے گی اور تب میری محبت تمہاری خوبصورت غصیلی آنکھوں میں نرم تاثر کی لو دے کر روشنی بن کر پھوٹے گی اور میں اس دن کا انتظار کروں گا۔۔
اور جب وہ دن آجائے تو دل سے مجھے ایک صدا دینا میں فوراً چلا آؤں گا۔۔۔"
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں بلکہ واپس مڑ گیا اور وہ کسی لٹے پٹے جواری کی طرح اپنی متاع دل وہیں چھوڑ کر باہر آ گئی۔۔
دل ابھی بھی بڑے انوکھے انداز میں دھڑک رہا تھا کہ اسکی پوروں کا لمس دل کی دیواروں پر ابھی بھی زندہ تھا۔۔
دماغ کو واضخ واضح شکست ہوئی تھی لہٰذا ٹک کر وہ خود بیٹھا اور نہ اسے بیٹھنے دیا سو یہ طے کر ڈالا کہ اسے چھوڑ دو یا اسے بھلا دو۔۔
نتیجہ کیا نکلا؟؟ یہ۔۔
کم بخت مانتا ہی نہیں اسے بھلانے کو……
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پکڑتا ہے۔۔
بلآخر دماغ نے دل کے ہاتھوں بری طرح شکست کھائی اور فیصلہ اسی مہربان اجنبی کے حق میں دے دیا۔۔ہک ہااااا۔۔۔پینتالیس دن بعد دل دماغ سے جیت گیا۔۔اور آج شہر دل میں جشن بہاراں تھا کہ دل فاتح قرار پایا تھا۔۔ہر طرف خوشی کے شرارے پھوٹ رہے تھے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں ہزاروں چراغ روشن تھے ہر اور قمقمے جل بجھ رہے تھے وہ آہستہ روی سے چلتی ہوئی آگے بڑھی تو دھک رہ گئی کیونکہ دل کی اکلوتی مسند آج خالی پڑی تھی نظریں جس کو دیکھنے کی عادی ہو چکی تھیں وہ ایک دم سے کہاں اور کیوں چلا گیا تھا۔۔؟؟
وہ ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ اچانک بگل بجا اور شہر دل میں ہلچل سی مچ گئی۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی کہ یہ سب کیا کیوں اور کس لیے ہو رہا ہے کہ اسکی توجہ اس طرف بٹ گئی جہاں سب متوجہ تھے اسنے دیکھا کہ ایک طرف سے گرد اڑاتا ایک خوبصورت تیز رفتار سفید گھوڑا نمودار ہوا اور ہاں اس پہ وہی تھا یونانی دیوتاؤں کی سی آن بان رکھنے والا شہزادوں کی مانند اٹھی گردن والا سدا کا فاتح جادوگر قابض۔۔یہ وہی ستمگر جس کے بارے میں وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے پریشان تھی وہ ایک شان بے نیازی سے نیچے اترا اس پہ پھولوں کی بارش کر دی گئی نگارے بجا بجا کر خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ ایک تمکنت سے چلتا ہوا میرے سامنے آ رکا ایک نرم مسکراھٹ میری طرف اچھالی ہر طرف روشنی پھیل گئی اور بولا
"مان لو پاگل لڑکی۔۔۔
یہی حقیقت ہے۔۔اٹل حقیقت۔۔!!
اور وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے سر جھکا گئی کہ کہیں آنکھیں راز دل ظاہر نہ کر دیں کیونکہ اس کی آنکھوں میں چھپی داستان اس نے پڑھ لی تھی۔۔
وہ مسکراتا ہوا کرسی پر جا بیٹھا اور اپنی مطلوبہ نشست سنبھال لی اس نے دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ ان چند دنوں میں اس کے ہونے نا ہونے کا اندازہ وہ بخوبی لگا چکی تھی۔۔
تبھی بستء دل کے سبھی ارکان اس شہزادے کو تحفے پیش کرنے لگے تو اسے بھی خیال آیا کہ ایک عدد تحفہ تو اسے بھی دینا ہے سو اتنے سارے لوگوں کے درمیان سے چلتی راستہ بناتی اس کی نشست کے عین سامنے جا پہنچی آن واحد میں ہر طرف سناٹا چھا گیا سب خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگے وہ گھٹنوں کے بل نیچے جھکی اور اس مغرور شہزادے کے قدموں میں بیٹھ گئی اور پہلو میں رکھا تحفہ نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دیا۔۔
شہزادے نے ازحد حیرانی سے اسے دیکھا مگر اس کی نظریں بدستور شہزادے کے قدموں سے لپٹی تھیں۔۔
خوشی کا نگارا اتنی زور سے بجا کہ ساری خاموشی ٹوٹ گئی اور ہر طرف رقص شروع ہو گیا شہزادہ بہت حیرانی سے کبھی اسے اور کبھی اس کے تحفے کو دیکھتا وہ اپنا کام کر چکی تھی سو ایک دم سے اٹھی اور اتنے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوتی چلی گئی۔۔
داخلی دروازے پر پہنچ کر اس نے لمبی لمبی سانسیں لیں مگر بے چینی کم نہیں ہوئی۔۔
مادام۔۔کیا ہوا۔۔؟؟ آپ کا دل نہیں لگا وہاں۔۔۔؟؟
دروازے پر کھڑے دربان نے جھک کر تمیز سے پوچھا اور جواباً وہ آسودگی سے مسکرا دی کیونکہ دل تو وہ خوبصورت مغلئی آنکھوں والے یونانی شہزادے کو تحفتاً پیش کر آئی تھی سو وہ وہیں پڑا تھا۔۔اس کے قدموں میں۔۔۔
 
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.