ہے نہ کی قیامت

بعض باتیں معمولی اور اکثر لایعنی سی ہوتی ہیں‘ لیکن جانتے ہوئے بھی کہ عملی زندگی سے خارج ہیں‘ دھائی کا دکھ دیتی ہیں۔ ہم یہ امر جانتے ہوئے بھی کہ مقتدرہ طبقے‘ کہنے اور کرنے کو‘ دو الگ الگ خانوں میں رکھتے ہیں‘ ان کے کہے پر آس کے دیپ جلا لیتے ہیں۔ جب کچھ نہیں ہوتا‘ بے صبرے بل کہ بڑے ہی بے صبرے ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو کہا جائے‘ وہ کیا بھی جائے۔ مقتدرہ طبقے‘ بعض باتیں محض ردعمل دیکھنے کے لیے کرتے ہیں۔

لیاقا‘ نمبردار پچھلے دنوں میلے پر گیا۔ جوتا پرانا تھا‘ الله رکھے کا نیا پہن کر چلا گیا۔ واپسی پر کہنے لگا: اس بار میلے پر جوتے بہت گم ہوئے ہیں۔
پوچھا گیا: تم اپنے جوتوں کا کہو۔
ہنس کر کہنے لگا : وہ تو پہلے ہلے میں گیے۔

شادی کے ابتدائی دنوں میں‘ سالیاں جوتے چھپاتی ہیں‘ اب مسجدوں میں یہ رسم سالے انجام دینے لگے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں نقصان ہوا ہوتا ہے‘ لامحالہ متاثرین کو‘ دکھ اور رنج ہوتا ہے۔ تاہم سننے والے‘ بلادام انجوائے کرتے ہیں۔ انجوائے کرنا‘ ہر کسی کا آئینی حق ہے۔

اب دوسری طرف دیکھیے‘ جب بجلی جاتی ہے زوجہ ماجدہ‘ خوب گرجتی برستی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بجلی میں بند کرتا ہوں یا میرے حکم سے بند ہوتی ہے۔ یعنی اس ذیل میں میں ہولی سولی بااختیار ہوں۔ بڑی قلبی تشفی سی ہوتی ہے۔ پسینے میں غرق ہوتے ہوئے بھی‘ فخروناز سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتا ہوں۔ یہ بات قطعی الگ سے ہے کہ واپڈا والے‘ سنتے ہی نہیں ہیں۔ کہیں کوئی تار ٹوٹ جائے‘ تو پورا محلہ اندھیروں میں ڈوبا ہوتا ہے۔ جو مرضی کر لو‘ وہاں کوئی سنتا ہی نہیں۔ محلے کے جوان لڑکوں کا بھلا ہو‘ بچارے جھولی پھیر کر چندہ اکٹھا کرتے ہیں‘ مٹھی گرم ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد‘ یعنی دو چار گھنٹے میں بلبوں اور پنکھوں کی جان میں جان آتی ہے۔

مجھ سے بہت سے بےقیمت مرد حضرات‘ بجلی والوں پر کانوں تک خوش ہوتے ہیں‘ بجلی کا بل تو انہیں دینا پڑتا ہے۔ اگر زوجہ حضور کے‘ فضول بجلی نہ جلانے کی درخواست گزارو‘ تو کھری کھری سننا پڑتی ہیں۔ لمبے چوڑے قصے لے بیٹھتی ہے کہ دیکھو فلاں کے گھر‘ دو اے سی لگے ہوئے ہیں۔ وہ ہر ماہ میٹر ریڈر کی خدمت کر دیتے ہیں۔ تم تو ہو ہی نکمے‘ زندگی بھر تم سے کوئی ڈھنگ کام نہیں ہوا۔ چند ساعتوں کی گرمی کے مداوے کے عوض‘ قیامت کی گرمی برداشت کروں‘ یہ سودا بڑا ہی مہنگا ہے۔ میں ایسی سہولت پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں۔ کچھ لوگوں کے اندر حرام کھا کھا کر جہنم فٹ ہو گیا ہوتا ہے‘ اسی لیے مصنوعی ٹھنڈک کا سہارا لیتے ہیں۔

اس قسم کی کی چخ چخ ‘ کسی پٹھان یا سردار سے متعلق لطیفے کی ضرورت سے‘ بےنیاز کر دیتی ہے۔ یہاں ایسی لطف افروزی کا کوئی ایک واقعہ ہو تو ذکر بھی کیا جائے۔ مرغی کے انڈے چھوٹے ہوں‘ تب بھی رولا پڑ جاتا ہے۔ گمان گزرنے لگتا کہ یہ انڈے میں نے دیے ہیں۔ اس قسم کی باتیں سن کر‘ مہینے بعد کڑک بیٹھنے کی حاجت محسوس ہونے لگتی ہے۔ مجھ سے پنشنر اور بڈھے حضرات آدھ مہینہ بعد ہی کڑک بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر والے اسے بیماری کا نام دے دیتے ہیں۔

سبڑی سباڑی کے لیے پیسے نہیں ہوتے‘ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے ہاں یاترا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سرکاری ہسپتال‘ جو ہسپتال کم‘ کانجی ہاؤس زیادہ ہیں‘ وہاں کے باسی صم بکم ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی دیا یہ ٹھہرتی ہے کہ لاہور لے جاؤ۔ مقامی کے لیے گرہ میں مال نہیں‘ لاہور کیسے لے جائیں۔ ناچار گھر لے آتے ہیں۔ پھر کسی عطائی کے سپرد کرکے‘ قسمت پر ڈوری چھوڑ دی جاتی ہے۔ ہزار بار کہہ چکا ہوں‘ فکر نہ کیا کرو‘ میں مہینے بعد کڑک بیٹھتا ہوں۔

وہ اپنی جگہ سچے ہیں‘ چھوٹے سہی‘ انڈے تو کھا چکے ہوتے ہیں۔ انڈوں کے نہ ہونے کے سبب‘ میرے کڑک بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ میں تو آرام سے کڑک بیٹھ جاتا ہوں‘ خجل اور ذلیل وخوار وہ وچارے ہوتے ہیں۔ خیر اس امر کی انہیں تسلی رہی ہے کہ انڈے لمبڑ کے ڈیرے یا کسی غیر کے ہاں نہیں‘ اپنے ہاں دیتا ہوں۔ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ دیتا تو ہوں۔ سارا مہینہ نہیں‘ بس دو چار بار ہی ہے نہ پڑتی ہے۔ دو چار بار کی ہے نہ کی قیامت‘ میں ہی بھتگتا ہوں۔ اگر کڑک بیٹھنے کی مجبوری ختم ہو جائے اور مرغیاں مرد حضرات کی مجبوری پر ترس کھاتے ہوئے‘ انڈے بڑے دیا کریں‘ تو دس فیصد بڑھوتی کے تکلف کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔
 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.