روزانہ شام میں چہل قدمی کیلئے تنہا نکل
جاتے،تقریباً ایک کلو میٹرکا چکر لگاتے ،آخری منزل کلو میاں کی پان دوکان
ہوتی جہاں بہترین مسالہ پان منہ میں دباتے اور گھر تشریف لاتے۔گذشتہ ایک
دہائی سے محمّد شریف میاں المعروف حاجی صاحب کا یہی معمول تھا۔تینوں بیٹوں
نے کاروبار بخوبی سنبھال رکھا تھا ایک ہی بیٹی تھی جس کے ہاتھ گذشتہ برس ہی
پیلے کردئے تھے۔اب بیٹے چاہتے تھے ابّا صرف آرام کریں۔حاجی صاحب ہمیشہ کی
طرح چہل قدمی سے واپس گھر پہنچنے کو تھے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اچانک
اندھیرا سا چھا گیا،سر چکرانے لگااور غش کھا کر سڑک پر گر پڑے۔چونکہ گھر
نزدیک تھا۔ہر کوئی انھیں جانتا تھا۔فوراً چار پانچ خدمت خلق کے شوقین
نوجوانان نے اٹھایا اور گھر لے آئے۔لڑکوں کو معلوم ہوا توفیکٹری دوکان سب
چھوڑ کر بھاگے ہوئے آئے،شہر کے درجن بھر ڈاکٹروں کو گھر بلا لیا۔ڈاکٹروں نے
باہم مشورے سے فوراً انجکشن لگایااور گلوکوز کی سلائن بائیں ہاتھ میں لگائی۔
چند ادویات تجویز کیں اور کہا عمر کا تقاضہ ہے کمزوری بھی ہے ۔گھبرانے کی
کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔ حاجی صاحب نے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔۔ارد گرد نظریں
گھمائیں تو دیکھا بیٹی کی شادی پر جتنے رشتہ دار آئے تھے ابھی پھر سے آگئے۔۔۔۔گھبرا
گئے۔۔۔۔اور اپنا احتساب کرنے لگے۔۔۔۔ کس کس کو کتنا کتنا دینا ہے؟۔۔۔کون سی
زمین کی خریدی کروانی ہے جس کا علم بچوں کو نہیں؟کہاں کہاں اپنی املاک ہیں
وغیرہ سوالات ذہن میں سر ابھارنے لگے۔بیٹوں کو اپنے پاس بٹھایا اور چھوٹی
بڑی ساری باتیں انکے گوش گذار کردیں۔دودن کے بعد حاجی صاحب تندرست و توانا
معمول کے مطابق شام میں چہل قدمی کیلئے نکل پڑے۔کلو میانں کے پاس ٹھہرے
بیڑا منہ میں دبایا ہی تھا کہ کلو میاں نے پوچھا۔’’ حاجی صاحب! کل کہاں چلے
گئے تھے نظر نہیں آئے؟۔‘‘حاجی صاحب نے کہا۔’’ذرا اﷲ نے احتساب کا موقع دے
دیا تھا بھئی،طبیعت ناساز تھی۔‘‘کلو میاں نے کہا۔’’ارے ہاں حاجی صاحب!پرسوں
ذرا گڑ بڑ ہوگئی تھی،مجھے بعد میں دھیان آیا ،میں نے غلطی سے آپ کے پان میں
تمباکو چھڑک دیا تھا۔‘‘حاجی صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو کلو میاں نے
اپنی بات کو بدستور جاری رکھا۔کچھ تکلیف تو نہیں ہوئی نا؟ حاجی صاحب وہیں
اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔‘‘کچھ دیر بعد کہا ۔’’نہیں تکلیف تو کچھ
نہیں،البتہ اپنا احتساب ہوگیا۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |