حکمرانوں وسیاستدانوں سے توجیسے اساسِ مُلک و ملت ناپید ہوگیاہے ،اے حیلہ پرورں... ؟

حکومت کا کام توبس بجٹ پیش کرناتھاسواِس نے بجٹ میں مہنگائی اور ٹیکسوں کی دودھاری چھری سے غریب اور مزدورپیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادکی ہلاکتوں کا سامان کرکے بجٹ2016-17 پیش کردیاہے یقینی طورپر یہ بجٹ مراعات یافتہ طبقے اور ٹیکس چوری کرکے آف شورکمپنیاں بنانے والوں کے لئے تو سونے کی کان مگرمُلک کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادکے لئے قبرکی آغوش ضرورثابت ہوگا ایسے میں ہمیں ن لیگ کے تیسرے دورِ حکومت میں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ حکمرانوں اورسیاستدانوں سے توجیسے اساسِ مُلک و ملت ناپیدہوگیاہے؟؟ تب ہی اِس حکومت کے وزراء اور اراکین قوم کی ناؤ کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے طوفانی سمندر کی تیز لہروں کی نظرکرکے’’ دال مہنگی ہے تو مرغی کھاؤ‘‘کا مشورہ دے کر خود بھاگ نکلنا چاہتے ہیں اگرابھی اِنہوں نے ایسانہ کیاتو پھر آنے والے دوایک ماہ میں کوئی خفیہ ہاتھ اِن کی اپنی دال دلیہ چھین لے گا اور اِن کی زندگیوں کوخطرات لا حق ہوجائیں گے ، ایسالگتاہے کہ جیسے ن لیگ کی موجودہ حکومت اپنے تیسرے دورِ اقتدارمیں اپنے سارے پلانٹڈ ذاتی فوائد کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اَب ایسے میں اگر اِسے کوئی فکر لاحق ہے تو بس ایک یہی فکر ہے کہ کسی بھی طرح سے اپنی آف شور کمپنیوں کو تباہ ہونے سے بچاکر خود بھی بچ نکلا جائے اَب ایسے میں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے تو کرگزراجائے ۔

کچھ حیا ء ہوتی ہے؟؟ کچھ شرم ہوتی ہے؟؟اِن دِنوں میرے مُلک میں ایوانوں سے لے کر مُلک کی گلیوں ، بازاروں اور چوک اور چوراہوں اور یہاں سے لے کر وہاں تک الغرض یہ کہ مسجد ودرسگاہوں سے لے کر قبرستانوں اور قبرستانوں سے لے کر ارواح تک میں اِن سوال نما جملوں کی بازگشت با کثرت سُنائی دے رہی ہے ایسے میں اگر یہ سوچاجائے کہ ایساکیوں ؟ اور کس لئے ہورہاہے ؟؟اور پہلے پہل یہ جملے کس کی زبان سے کب؟؟ اور کیوں؟؟اور کس کے لئے اداہوئے تھے ؟؟ اور اِن جملوں کو اداکرنے والاخود کتنامعتبراور قابلِ اعتبار ہے؟؟ ۔بہرکیف ،ایسے میں یہاں سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ یہ الفاظ اور جملے اُن پر کتنے ا ثراندازہوتے ہیں جن کے پاس یہ دونوں(حیاء اور شرم) یا اِن میں سے کوئی ایک شئے ہوتی ہے مگر جن کے پاس اِن میں سے ایک یا دونوں ہی شئے نہ ہوں تو پھر سوچیں اُن کا کیا بنے گا؟؟؟۔

آج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حالات اور واقعات میں میرے دیس پاکستان میں حیاء اور شرم کی بات وہی لوگ سب سے زیادہ کررہے ہیں معاف کیجئے گا کہ حُسنِ اتفاق سے جن کے پاس حیاء اور شرم نام کی کوئی شئے نہیں ہے یقینی طور پر اُنہوں نے اِن دونوں کو رکھنا کبھی بھی گوارانہیں کیا ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ یہ دونوں شئے اپنے پاس رکھتے تو یہ کبھی بھی سیاست سے حکمرانی تک کا سفر یوں طے نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ وہ طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ چکے ہیں آج جہاں یہ نظر آرہے ہیں کیونکہ ایسے لگتاہے کہ جیسے مُلکِ پاکستان کی سیاست اور حکمرانی حیاء اور شرم سے پاک ہے، جس کے پاس یہ دونوں شئے (حیاء اور شرم )ہے کم ازکم وہ مُلکِ پاکستان میں نہ تو کامیاب سیاستدان ثابت ہوسکتاہے اور نہ کبھی حکمران بن سکتاہے، یعنی کہ آج جن کے پاس حیاء اور شرم کا زیورہے وہ سیاست اور حکمرانی کے عذاب سے پاک ہیں اور جن کے پاس حیاء اور شرم نہیں ہے آج وہی پاکستان کے سیاستدان اور حکمران بنے دکھائی دے رہے ہیں موجودہ صووتِ حال میں یہ واضح ہواکہ پاکستانی سیاست میں وہی افراد ، گروہ اورٹولہ اور مجمع سیاست سے حکرانی تک کامیاب ہے جس کے پاس ذراسی بھی حیاء اور شرم نہیں ہے آج اِسے سرزمینِ پاکستان کی بدنصیبی کہہ لیں کہ مُلک میں حیاء اور شرم کی وہی لوگ (سیاستدان او رحکمران ) بات کررہے ہیں جن کااِن سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے،گویا کہ حیاء اور شرم سے عاری افراد ہی باحیاء قوم کو حیاء اور شرم کا احساس دلاکر اپنی بے حیائی اور بے شرمی کا کھلامظاہرہ کررہے ہیں کیونکہ اِن میں قومی حمیت اور اساس مُلک وملت ناپیدہوگیاہے اور ایسانہیں ہے تو پھر کوئی بھی سیاستدان قوم کی ایک باشعور سیاستدان بیٹی کو ایوان میں’’ ٹریکٹرٹرالی‘‘ نہ کہتااورکوئی کھلے عام ڈھٹائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قوم کو’’ دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں‘‘ کا مشورہ نہ دیتا ۔

تاہم ایسے میں قوم اِس تذذب کا شکار ہے کہ آج وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے عوامی کی خوشحالی کے جتنے بھی دعوے کئے ہیں یہ سب سوائے ایک سیراب کے کچھ نہیں ہیں بیشک نوازحکومت نے قوم کو سبز اور حسین خواب دیکھاکرقومی خزانے کو اِدھراُدھر استعمال کرنے کا ایک عظیم ریکارڈ قائم کیا ہے اِس حکومت کے سوائے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے کوئی ایک بھی ایسا منصوبہ مُلک اور قوم کے حق میں نہیں ہے جس سے قوم کو یہ اُمیدہوکہ کسی منصوبے کی تکمیل سے مُلک کسی بحران سے نکل سکے گااور جس سے مُلک و قوم کی تقدیر اور نصیب بدل جائے گااوراِن کی خستہ خالی کے بادل چھٹ جائیں گے اوراِن کی زندگیوں میں کچھ بہتری کے امکانات روشن ہوسکیں گے ایسے میں شاعر کے یہ اشعارپیش کرکے اجازت چاہوں گاکہ :۔
غریب شہر امیر کبیر ہو جائے
الٰہی قوم مری بے نظیر ہو جائے
ضمیر بیج رہے ہیں جو مال وزرکے لئے
خُدا یا اِن کا بھی زندہ ضمیر ہوجائے
جس بِنا پر ہم نے پاکستان تھا حاصل کیا
وہ بنائے مُلک وملّت ہم سے لیڈر لے گئے
تھا اساس مُلک وملّت قوم کا،جوایک لفظ
وہ بھی ہم سے چھن کر کچھ حیلہ پرورلے گئے
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971324 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.