بر طانیہ کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک
کی فہرست میں آتا ہے لیکن ترقی کی بلندیوں کو چھونے اور دنیا کے مختلف
ممالک پر حکمرانی کرنے کے با وجود اس کا تحریری طور پر کوئی آئین یا دستور
نہیں ہے لیکن ہر ادارے کے اپنے قوانین اور ضابطہ اخلاق ہیں جس میں رہتے
ہوئے وہ کام کرتے ہیں حکومتوں کے آنے جانے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
کیو نکہ برطانوی نظام جمہوریت شاہی خاندان کے ارد گرد گھومتا ہے اس لئے اس
میں زیادہ تر قوانین بھی ان کی مرضی سے بنائے گئے ہیں ، روائتی طور پر
برطانیہ کے پہلے وزیر اعظم کا اعزاز سر روبرٹ والپولِ کو دیا جاتا ہے لیکن
یہ باقاعدہ وزیر اعظم نہیں تھے 1720 میں ,, دی سا وُ تھ سی “کمپنی بنائی
گئی جس کا مقصد کاٹن ، زرعی اجناس اور غلاموں کی تجارت تھا لیکن ہزاروں
کاروباری لوگوں کو اس میں نقصان اٹھانا پڑا اس میں شاہی خاندان کے کچھ لوگ
بھی شامل تھے ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے کنگ جورج نے روبرٹ والپول کو
ذمہ داری سونپی جو کہ نہ صرف سیاسی طور پر سر گرم تھا بلکہ مالی امور کو
بھی اچھی طرح سمجھتا تھا والپول نے اپنی مہارت اور محنت سے لوگو ں کا
اعتماد بحال کرتے ہوئے ملک کو بحران سے نکالا ،تقریبا ایک سال میں بادشاہ
نے نہ صرف روبرٹ والپول کو خزانچی اور لیڈر آف دی ہاوُ س آف کامن بنایا
بلکہ اسے حکومت کا سب سے طاقتور وزیر بھی بنایا ۔یہ کاروبار ی مہارت رکھتا
تھا آئندہ بیس سال میں اس نے ملک کا محفوظ او ر خوشحال خزانہ بنایا ،والپول
نے عملی طور پر کر کے دکھایا کہ کس طرح ریاست کا سربراہ بادشاہت کے نیچے
لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکتا ہے جو کہ براہ راست بادشاہ کے
لئے ممکن نہیں یہ وہ دن تھا یہاں سے برطانیہ میں جمہوریت کا آغاز تصور کیا
جاتا ہے اور پھر اس نے سیاسی جماعت وگز کی سربراہی کی اور پارٹی عہدداروں
کے اصرار پر اس نے استعفی دے کر دوبارہ الیکشن لڑا جو کہ وہ صرف تین ووٹ سے
جیتا اور اسطرح اس نے برطانیہ میں پہلے وزیر اعظم کی مثال قائم کی ۔
اُس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک ٹوریز جو بعد میں کنزرویٹو میں تبدیل
ہوئی اور دوسری وگز پارٹی تھی جو بعد میں دی لبرل پارٹی میں تبدیل ہوئی اُن
دنوں سیاسی جماعتوں میں کوئی نظم و ضبط نہیں تھا اور دھڑے بندی عروج پر تھی
لیکن پھر بھی یہ دونوں جماعتیں تقریبا ڈیڑھ سو سال تک بر سر اقتدار رہیں
پھر 1920 کی دہائی کے اختتام پر لیبر پارٹی ابھر کر سامنے آئے اور ٹوریز کی
مد مقابل سمجھی جانے لگی اسکے بعد لبرل پارٹی آج تک چند نشستوں سے زیادہ
حاصل نہ کر سکی،
برطانوی تاریخ میں سپینسر پرسیوال ایک ہی وزیراعظم ہے جس کو قتل کیا گیا
اور یہ 1809میں وزیر اعظم منتخب ہوئے اور 11مئی 1812 میں انکو قتل کیا گیا
اور یہ سلسلہ یہاں سے شروع ہو کر 30 جولائی 1990 کو اختتام پذیر ہوا جب
آئرش نسل پرستوں نے کار بم دھماکے سے پارلیمنٹ ممبر لین گوکو قتل کیا اس کے
بعد 90 سے لیکر آج تک ” جو کاکس ” پہلی ممبر پارلیمنٹ ہیں جن کو بے دردی سے
قتل کیا گیا ۔دنیا میں کہیں بھی چلیں جائیں نسل پرستی ایسی مہلک بیماری ہے
کہ مہذب معاشرے اس سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ اس سے تعصب اور نفرت کو ایندھن
ملتا ہے نتیجہ پھر گجرات کے مسلمانوں کا دیکھ لیں ، آئیرش نسل پرت ہی تھے
جنہوں نے کئی منتخب نمائندوں کو قتل کیا، افریقہ میں نیلسن مینڈیلا کی
جدوجہد کے اختتام پر ذرا غور کریں آپ کو نسل پرستی کے نقصانات سمجھ میں آ
جائے گے اتنی لمبی اور ازیت ناک جدوجہد کے باوجود مینڈیلا نے نہ صرف گوروں
کو گلے لگایا بلکہ اقتدار میں بھی شریک کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ آگ
ایسے ہی ٹھنڈی ہو سکتی ہے دنیا اب گلوبل ویلج ہے جس میں زندہ رہنے کے لئے
آپ کو اتحاد اور اچھے ساتھی چاہئے نہیں تو آپ تن تنہا رہ جائے گے اور دنیا
کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ امریکا کے بعد برطانیہ کو ترقی یافتہ اور
پالیسی میکنگ میں اہم سمجھا جاتا ہے اور اکثر اوقات بین الااقوامی امور پر
یورپ سے مدد حاصل کرنے کے لئے بر طانیہ کا ہی سہارا لیا جاتا ہے اگر آج
برطانیہ یورپی یونین سے باہر ہو گیا تو معاشی نقصانات جو کہ اپنے گزشتہ
کالم میں بیان کر چکا ہو ں کے ساتھ اسے اور بھی بہت سے سنگین مسائل کا
سامنا کرنا پڑے گا جس کا اہم اور خطرناک پہلو نسل پرست بھی ہیں کیونکہ جو
لوگ اپنے منتخب نمائندوں اور نسل کے لوگوں کو سرعام قتل کر سکتے ہیں آنے
والے دنوں میں اگر یورپی یونین سے نکل جاتے ہیں تو یہ ایسے لوگو ں کے لئے
ایندھن کا کام کرے گی پھر انکا مطالبہ ہو گا کہ جو کہ کسی حد تک ابھی بھی
ہے کہ برطانیہ سے تمام غیر ملکی اور غیر مذاہب کے لوگو ں کو باہر نکا ل
پھینکا جائے۔یہاں تک بات ہے یورپی یونین پر کئے جانے والے اخراجات کی تو
فقط اتنا ہی کہ سربراہی اور لیڈر شپ مفت میں نہیں ملتی- |