کشمیر انتخابات اور سوشل میڈیا کے رجحانات
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
شازیہ کیانی اور ثاقب راٹھور تحریک انصاف
آزاد کشمیر کے سرگرم کارکنان ہیں۔ سوشل میڈیا اور ریاستی اخبارات میں شائع
ہونے والی خبروں کے ذریعے ان کی سرگرمیوں سے واقف رہتا ہوں ۔ آزاد کشمیر
میں انتخابات کے اعلان ہوتے ہیں موسم برسات کے مینڈکوں کی مانند نئے نئے
ناموں سے امیدواران میدان عمل میں آگئے ہیں ، اس سلسلے میں بھانت بھانت کی
بولیاں اور رنگ برنگے تجزئیے پڑھنے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں ،ان
سیاسیدانوں کی طرح ان کی حمایتی اور مخالفین بھی اپنی زبانوں اور قلم کے
استرے لے کر معرکہ سر انجام دینے کو تیار بیٹھے ہیں اور نت نئے جدید جھگڑے
سننے کو مل رہے ہیں مگر اس موقع پر ریاستی اخبارات کے کردار کو داد دینا
ہوگی جو سراسر غیر جانبدارانہ اور صحافتی اصولوں کے مطابق تجزئیے اور خبریں
شائع کر رہے ہیں۔ کشمیر میں پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا ہی رائے سازی کا
کردار ادا کر رہے ہیں الیکٹرانک میڈیا اس سلسلے میں کشمیرکے انتخابات کو
گھاس تک ڈالنے کو تیار نہیں۔ ریاست کے اخبارات کا تجزیہ اور معیار صحافت
قابل داد ہے مگر دوسری جانب سوشل میڈیا شتر بے مہار کی مانند ریاست کی
سیاست کو داغ دار کرنے میں مگن ہے اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم
کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہ ہونا اور افراد میں اخلاقیات کا فقدان
ہی ہے۔اس وقت سوشل میڈیا میں تین قسم کے افراد اپنا منجن بیچنے میں مصروف
ہیں ایک قسم سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی حمایت کنندگان ، دوسری
قسم ان کے مخالف امیدواران اور تیسری قسم جو نہ تو کسی کے حمایت کنندہ ہیں
اور نہ ہی مخالف ان کا مقصد صرف انتشار کو فروغ دینا، سیاست دانوں کی پگڑیا
ں اچھالنا اور اس بنیاد پر اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں کی ریٹنگ حاصل کرنا ہے۔
ان انتخابات میں سب سے زیادہ نفرت اور بغض زدہ پوسٹیں مسلم لیگ (ن) اور
پیپلز پارٹی کے ورکرز کی جانب سے کی جارہی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے کارکنان
کا کردار پاکستان کی نسبت آزاد کشمیر میں ایک سو اسی درجے مخالف ہے، کیوں
کہ ان کی جانب سے نہ ہی منفی پروپیگنڈا اور نہ ہی کسی کی کردار کشی کے
حوالے سے کوئی پوسٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ا س کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے
کارکنان کا پڑھا لکھا ہونا ہے، کیوں کہ یہ نوجوان ریاست میں موجود کرپشن،
برادری ازم اور میرٹ کی پامالی کے خلاف اُٹھے ہیں ، وہ گالی کا جواب دلیل
سے دے رہے ہیں وہ ’’کشمیر کے فیصلے کشمیر میں ‘‘ کا نعرہ لے کر نکلے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا جانتے ہیں ، عوام
کے دلوں میں گھر کرنے کا ہنر انہیں بہ خوبی آتا ہے۔ جماعت اسلامی آزادکشمیر
نے ویسے ریاست میں تو ن لیگ کے ساتھ اتحاد کیا ہے مگر اس کے کارکنان ن لیگ
کے کارکنان سے بالکل مختلف ہیں ان کی سوشل میڈیا پوسٹیں بیس کیمپ میں نصف
صدی سے رائج برادری ازم ، اقربا پروری اور میرٹ کے قتل عام کے خلاف ہیں، ان
کا نعرہ بیس کیمپ کو حقیقی بیس کیمپ بنانا ہے۔جماعت اسلامی کے کارکنان محض
سیاسی بنیادوں پر سوشل میڈیا استعمال نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنے نظریات کو
ریاستی عوام تک پہنچانے کے لئے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر
منفی اور کردار کشی کی پوسٹیں کرنے کے حوالے سے آزاد کشمیر کے نوجوان طالب
علم رہنما راجہ آفتاب احمد سے پوچھا گیا تو ان کا بھی ماننا تھا کہ ’’جس
طرح کشمیر کے عوام میں میدان سیاست میں کردار کشی کا کلچر اور عدم برداشت
بتدریج پروان چڑھ رہی ہے ، اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی اسی قسم کا مواد آرہا
ہے‘‘۔ بہرحال سوشل میڈیا کو بالغ ہونے میں ایک وقت درکار ہے۔ لیکن کیا اس
پر مانیٹرنگ کا مؤثر نظام لاگو کرکے اس کوبے لگام گھوڑا بننے سے روکا نہیں
جا سکتا؟ گذشتہ دنوں اخبارات میں شائع ہونے والے میرے ایک کالم کے جواب میں
سوشل میڈیا پر مجھے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اس کی توقع آزاد کشمیر کے
تعلیم یافتہ او ر باشعور لوگوں سے قطعاََ نہیں کر رہا تھا، اختلاف رائے کا
حق ہر انسان کو ہوتا ہے مگر دلیل اور مؤثر جوابات کی بنیاد پر اپنے مؤقف کا
دفاع کیا جاتا ہے جبکہ اپنی رائے کے دفاع کے لئے لغویات اور گالی گلوچ کسی
بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتی۔جماعت اسلامی کی مرکزی سوشل میڈیا ٹیم
میں آزادکشمیر کے ضلع پلندری سے نوجوان سعد مقصود خاصے جذباتی ہیں، ان کی
تحریک کے خلاف کسی بھی پوسٹ پر شدید اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں ، اسی طرح
آزاد کشمیر جماعت اسلامی کے نوجوان سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سہیل حسن بھی
جذباتی ہیں مگر ان دونوں احباب کی پوسٹس بھی دلیل اور منطق کی بنیاد پر
ہیں۔شازیہ کیانی، ثاقب راٹھور، سعد مقصود اور سہیل حسن جیسے نوجوان کشمیر
میں سوشل میڈیا کے صارفین کے لئے مثال ہیں، تنقید تہذیب کے دائرے میں کرنے
سے آپ کے مخالفین بھی آپ کی قدر کرتے ہیں ۔ مسلم کانفرنس، ن لیگ اور پیپلز
پارٹی کی قیادت کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ بظاہر ان کے حمایت کرنے
والے کارکنان کہیں ان کی جڑیں تو کھوکھلا نہیں کر رہے۔اپنے کارکنان کی
اخلاقی تربیت کریں اور انہیں پارٹی منشور اور پالیسیوں کی ترویج کرنے کا
پابند کریں ، بہرحال ریاست کے باشعور لوگ اپنے شعور کی عکاسی اپنی فیس بک
پوسٹس سے کریں کیوں کہ انسان جو تحریر کرتا ہے یا جو الفاظ وہ بولتا ہے یہی
اس کے حقیقی چہرے کی نقاب الٹ رہا ہوتاہے، میری قوم کے مستقبل ان نوجوانوں
سے درمندانہ گذارش ہے کہ خدارا خبث باطن ظاہر کرنے کی بجائے اپنی تعلیم ،
شعور اور برداشت کوسامنے لائیں الیکشن محض ایک ماہ کا ڈرامہ ہیں مگر آپ کے
اعمال اور رویہ آپ کی ساری زندگی کی بنیاد ہے اس لئے اس میں کسی کے خلاف
نفرت، رنجش اور کسی کی کردار کشی کا اپنا شعار بنانے کی بجائے دلیل اور
منطق کے ذریعے اپنے پیغام کو پھیلائیں اور ساری دنیا کو دکھائیں کہ کشمیر
کے لوگ کس قدر پر امن اور نفرتوں کے کانٹوں کی بجائے پیار ومحبت اور اخوت و
بھائی چارے کے پھول اگاتے ہیں۔ |
|