این جی اوز،ٹرسٹ اور سوسائٹی یہ ہمارے
معاشرے کے وہ دلکش اور دلفریب نام ہیں،جن کا غربا ومساکین کی خدمت ونصرت کے
نام پر آج پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں جال بچھا ہواہے، مگر طرفہ کی
بات یہ ہے کہ، جو تنگ حالی وتنگ دستی،لاچارگی وبے چارگی اورجہالت پہلے سے
تھی، ان رفاہی اداروں کے ملک میں جا بجا کھلنے کے با وجود ان میں کسی قسم
کی کوئی تبدیلی نہیں آئی،حالانکہ یہ تمام رفاہی ادارے اپنے منشور اور احوال
وکوائف میں یہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے پیشِ نظر ملک میں تعلیم کو پروان
چڑھانا، غریبی کو ماربھگانا، بیماروں کے لیے اچھے ڈاکٹروں کی خدمات مہیا
کرانا اور یتیموں اوربیواؤں کی مالی امداد کرنا ہے،مگر زبانی جمع خرچ کے
علاوہ خارج میں ان کا وجود خال خال ہی نظر آتاہے، چنانچہ 1 اگست، 2015 کو ’
دَ انڈین ایکسپریس‘ میں (India has 31 lakh NGOs, more than double the
number of schools) کے عنوان سے ’ اتکرش آنند‘کا مضمون شائع ہواتھا، جس میں
سی بی آئی کے حوالہ سے انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں موجودہ غیر
سرکاری رجسٹرڈ تنظیموں کی تعداد 31 لاکھ سے زائد ہیں، جو ملک کے تمام
اسکولوں کی تعداد سے دوگنا زیادہیں، بلکہ سرکاری ہاسپیٹلس سے250 مرتبہ
زیادہ !اور 2011 کے اعدادو شمار کے مطابق ملک کے تقریباً 709 لوگوں کے
مقابلے میں ایک پولیس اہلکار ہوتاتھا، جبکہ اس وقت 400 لوگوں کے مقابلے میں
ایک این جی او تھا، مگر 23 فروری، 2014 کو’ ٹائمس آف انڈیا‘ نے مرکزی وزارت
داخلہ کے اعداد و شمار کے حوالہ سے یہ رپورٹ شائع کیا کہ ملک میں ہر 943
لوگوں کے بالمقابل ایک پولیس اہلکارہے، جبکہ ایک این جی او 600 لوگوں کے
مقابلے میں رجسٹرڈ ہے !
بحر کیف یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی، جب سی بی آئی نے سپرم کورٹ کی ہدایت پر
سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت تمام ریاستوں اور یونین ٹیری ٹوریز سے رجسٹرڈ
این جی اوز کی فہرست طلب کی اور ان کو بشمول بیلنس شیٹ،آمدنی واخراجات کی
ساری تفاصیل جمع کرنے کے بارے میں نوٹس بھیجا،چنانچہ سپریم کورٹ میں سی بی
آئی کی طرف سے دائر حلف نامے کے مطابق ملک کی 26 ریاستوں میں غیر سرکاری
تنظیموں کی کل تعداد 31 لاکھ سے زیادہ تھیں،جن میں82,000 سے زائد این جی
اوزتو صرف سات قومی علاقے (Union Territories) میں رجسٹرڈ تھے اور2011 کے
(Planning Commission of India)کے مرتب ڈیٹا کے مطابق ملک میں اسکولوں کی
کل تعداد تقریباً 15 لاکھ تھی،جن میں پرائمری، اَپر پرائمری، سیکنڈری،
لووَر اور ہائر سیکنڈری کے سارے اسکول شامل تھے اور سرکاری ہسپتالوں کی کل
تعداد 7.84 لاکھ بستروں کے ساتھ11,993 تھی،جن میں 7.347 ہاسپیٹلس بشمول
1.60 لاکھ بستروں کے دیہی علاقوں میں تھے، جبکہ 6.18 لاکھ بستروں کے ساتھ
شہری علاقوں میں 4,146 ہاسپیٹلس تھے، آپ کو تعجب ہوگا کہ ان رفاہی اداروں
کی تعداد نہ صرف پولیس اہلکاروں کی تعداد سے زیادہ ہے،بلکہ پولیس اہلکاروں
کی تعداد کے ساتھ 13 لاکھ مسلح افواج کی مشترکہ تعداد سے بھی ان غیر سرکاری
تنظیموں کی مجموعی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اگر ریاستی سطح پر ان کے
اعدادوشمارکا جائزہ لیا جائے، تو ’ٹائمس آف انڈیا‘(23 فروری ،2014) کی
رپورٹ کے مطابق 5,48,194 غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ اتر پردیش ملک کی تمام
ریاستوں میں سر فہرست تھا،تو وہیں 5.18 لاکھ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ
مہاراشٹرا کو دوسرا مقام حاصل تھا، کیرل میں ان رفاہی اداروں کی تعداد
3,69,137 تھی، تو 2.34 لاکھ مغربی بنگال میں این جی اوز رجسٹرڈ تھے، مدھ
پردیش میں 1,40,000 ، گجرات میں75,729، تو دہلی میں 76,000 سے زائد این جی
اوزرجسٹرڈ تھے اور ہرسال قوم وملت کی خدمت ونصرت کے نام پر کتنی رفاہی
تنظیمیں رجسٹرڈ کرائی جاتی ہیں، ان کی تعداد کاصحیح اندازہ تو شاید حکومت
بھی نہ لگاسکے،تاہم رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھاکہ ملک کی کئی
ریاستیں بشمول آندھرا پردیش، بہار، ہریانہ، کرناٹک، راجستھان، اڑیسہ، تمل
ناڈو، چھتیس گڑھ اور ہماچل پردیش نے اس تعلق سے سی بی آئی کو اپنا کوئی
ڈیٹا جمع نہیں کیاتھا،بلکہ سپرم کورٹ کے آرڈر کے باوجود دان 31 لاکھ رفاہی
اداروں میں سے صرف دس فیصد این جی اوز نے ہی مطلوبہ تفاصیل سی بی آئی کے
سپرد کیا تھا، جبکہ صرف 2.9 فیصد این جی اوز نے اپنی آمدنی کے ذرائع کاذکر
کیا تھا، کیرل کی کسی تنظیم نے کوئی تفصیل نہیں بتائی، جبکہ مہاراشٹرا اور
مغربی بنگال کی صرف سات فیصد تنظیموں نے اپنی تفصیل درج کروائی تھیں۔
یہ تو ان مملکتِ خداداد کی صرف تعداد کی بات تھی، ورنہ تو اگر ان کی آمدنی
واخرات کا بھی سرسری جائزہ لیا جائے، توآپ حواس باختہ ہوجائیں گے کہ اس قدر
فنڈنگ کے باوجود ملک میں سیکڑوں علاقے کے لوگ خطِ افلاس سے نیچے کی زندگی
بسر کرنے پر مجبور ہیں، لاکھوں مریض ڈاکٹر وں کی فیس اور دواؤں کی قیمت
ادانہ کر پانے کی پاداش میں لقمۂ اجل بن رہے ہیں،اسکول ویران ہیں، بچے غربت
کے مارے مزدوری اور کوڑے کرکٹ چننے پر مجبور ہیں، قتل وغارت گری اورچوری
چماری کا بازارگرم تر ہے، چنانچہ تنظیم ’حقوقِ انسانی برائے مرکزی ایشیا
‘(Human Rights For Asian Centre)کی تحقیقات کے مطابق 2002-2009 کے درمیان
یونین اسٹیٹس او ر ریاستی حکومتوں نے مختلف این جی اوز کے لیے 6654 کروڑ
روپے کا فنڈزجاری کیا تھا، یعنی فی سال اوسطاً 950 کروڑ روپے کا امداد تو
صرف حکومتوں نے ان رفاہی اداروں کی کی تھیں اور2010-2011کے دستیاب مالی
اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تقریباً 22,000 این جی اوز نے بیرون ملک سے
دوبلین ڈالر سے زائد روپیے وصول کیے تھے، جن میں 650 ملین ڈالر تو صرف
امریکہ نے فنڈ کیا تھا۔اس کے علاوہ عوام الناس کے جو مالی امداد ہیں ، وہ
تو شمار سے باہر ہیں،البتہ (All-India Council of Muslim Economic
Upliftment)کی تحقیق کے مطابق 2010 میں صرف ممبئی میں زکات میں حاصل ہونے
والے روپیوں کی مقدارتقریباً 170ملین تھی، جبکہ پورے ملک کی زکات کی مقدار
2.5بلین تھی اور سن 2013 میں حیدرآباد نے بھی زکات میں تقریباً 170ملین
کافنڈ کیا تھا، تاہم’ اے آئی سی ایم سی یو‘ کے صدر ڈاکٹر رحمت اللہ کے بقول:’
ابھی ملک میں پورے سال میں کتنے ملین زکات میں حاصل ہوتے ہیں اس کی کوئی
بھی حالیہ تحقیق سامنے نہیں آئی ہے‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہزاروں کوشش
کے باوجود کوئی بھی زکات کی رقم کا صحیح اندازہ لگا ہی نہیں سکتا۔
یہاں میری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال گردش کرتا ہوگا، کہ ہر سال ترقی
کے نام پر حکومتیں بھی رنگ برنگ کے بجٹ پاس کرتی ہیں، بلکہ انتخابات کے
موقعہ پر یہی سبز باغ دکھاکر تو لوگوں کو لبھایا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان
31 لاکھ این جی اوز کا اپنا الگ فنڈز اور عوامی چندے؛آخر اتنے سارے پیسے
جاتے کہاں ہیں؟ ملک میں ترقی کیوں نہیں ہوتی؟ بے روزگاری پر قابو کیوں نہیں
پایا جاتا؟ بے علاج مریض گھٹ گھٹ کر کیوں دم توڑ دیتا ہے ؟ بن پڑھے بچہ
جوان کیسے ہوجاتا ہے؟ لوگوں کی جان مال اور عزت وآبرو کیوں محفوظ نہیں؟
سوال تو یقیناًمبنی بر صواب ہے، لیکن آپ کی طرح میرے پاس بھی اس کا کوئی
جواب نہیں، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ رفاہی ادارے صرف اس لیے معرضِ وجود
میں لائے جاتے ہیں کہ اس کی آڑ میں حکومتی بے جاٹیکس سے بچا جاسکے،بلکہ کچھ
لوگ تو اس کو ذریعۂ معاش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے ،چونکہ بہت ساری
تنظیمیں اور ادارے ایسے بھی ہیں کہ کاغذ کے علاوہ خارج میں ان کا اپنا کوئی
وجود نہیں ہوتا،زیادہ تر سیاست داں ان کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھی
استعمال کرتے ہیں اور یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ کہہ لیجیے کہ ملک کے
تقریباً سبھی سیاست دانوں نے اپنا خود کاکوئی نہ کوئی رفاہی ادارہ ضرور
رجسٹر کر وارکھا ہے،جن سے وہ غریب عوام کی تو کم ،اپنی نصرت زیادہ کرتے ہیں
، تاہم کچھ این جی اوز ایسے بھی ہیں، جو بالکل امانت ودیانت داری کے ساتھ
اپنے مشن کی طرف گامزن ہیں اور ان میں سے بعض کے کارنامے تو ایسے ہیں کہ
واقعی ان کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے، لیکن ان کی تعداد آنٹے میں نمک
برابر ہے، اگر حقیقت میں ساری تنظیمیں مکمل امانت ودیانت داری کے ساتھ اپنے
فریضے کو انجام دیتیں، تو شاید ہمارا یہ ملک آج ترقی پذیر سے زوال پذیر
نہیں ہوتا!!! |