ان دنوں پاکستان اور افغانستان کے مابین
طورخم کے مقام پر سرحدی تنازع عروج پر ہے۔ پاکستان یہاں سرحدی گیٹ تعمیر کر
کے اپنے اور افغانستان کے مابین عالمی قوانین و ضوابط کے تحت نقل و حرکت کا
نظام قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ افغانستان کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے ملک
میں آنے جانے والے کسی افغان شہری کو پہلے کی طرح بالکل نہ روکے، نہ ٹوکے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے اس کے ملک میں دہشت گردی
کروا رہا ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس غیر قانونی اور لامحدود
آزادانہ نقل و حرکت کو روک کر قانونی حیثیت دی جائے۔ پاکستان نے جب سے یہاں
قانونی راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے، تب سے افغانستان کی جانب سے فائرنگ اور
گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے تو افغان فورسز نے اپنی اس شیطانی
روش کی انتہا کرتے ہوئے پاک فوج کے ایک افسر کو شہید جبکہ متعدد کو زخمی کر
دیا۔ اس کے جواب میں پاکستانی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی اور ان کی
چوکیوں کوتباہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس قلعے پر بھی قبضہ کیا، جہاں سے پاکستان
پر گولہ باری اور فائرنگ کی جا رہی تھی۔ پاک فوج نے اس ساری کارروائی میں
کوشش یہی کی کہ کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہ ہو، تاکہ کشیدگی اور لڑائی
مزید آگے نہ بڑھے۔ اس صبر اور حوصلے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مغربی سرحد کے
اس پار افغانستان کو اپنا دشمن نہیں بلکہ سب سے بہترین ہمسایہ اور دوست
سمجھتا ہے۔ افغانستان کے سابقہ حکمرانوں کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہے
کہ ان کا ملک پاکستان کے بغیر ایک دن نہیں چل سکتا۔ 1979ء میں جب روس نے
افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت 30لاکھ افغان شہری پاکستان میں آئے
تھے اور انہوں نے یہاں پناہ حاصل کی تھی۔ یہ 30لاکھ افغان اب دوگنا کے قریب
ہو چکے ہیں۔ اگر ان میں سے چند لاکھ واپس اپنے وطن نہ جاتے تو ان کی آبادی
ایک کروڑ سے بڑھ چکی ہوتی۔ یوں افغان قوم اگر اپنے ملک افغانستان کے بعد
کسی دوسرے خطے میں آباد ہے تو وہ پاکستان ہے۔ افغانستان کیلئے سارا سامان
خوراک اور روزمرہ کی اشیائے ضروریہ اول دن سے پاکستان ہی سے پوری ہوتی ہیں۔
افغان قوم پاکستان میں تجارت اور کاروبار کے بڑے حصے میں پوری طرح حصہ دار
ہیں۔ ان حالات میں امریکی کٹھ پتلی اور بھارتی اشاروں پر ناچنے والے جبری
افغان حکمرانوں کو افغانستان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ
ہی جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو امریکہ اور بھارت نے مل
کر جو سپاری دینا شروع کی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کھل کر میدان میں آئیں
تو ان کے سارے مسئلے آسان ہو جائیں گے، یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ بات اپنی
جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر بسنے والے لوگوں کیلئے
ویزا اور پاسپورٹ وغیرہ کی وہ مکمل اور ساری پابندیاں عائد کرنا ممکن نہیں،
جو بین الاقوامی اصول و ضوابط میں طے ہیں لیکن آنے جانے والوں کے پاس
شناختی کارڈ اور سفری دستاویزات ہونا تو ایک لازمی امر ہے۔ جب یہ بات بارہا
ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان میں بپا ہونے والی کٹھ پتلی دہشت گردی میں
افغانستان سے آنے والے عناصر ہی ملوث ہیں تو پاکستان کیسے اس معاملے کو یوں
کھلا چھوڑ سکتا ہے، جیسا افغانستان چاہتا ہے۔ افغانستان کے حکمران امریکی
اور بھارتی شہ پر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ جیسے چاہیں گے پاکستان سے اپنے
مطالبات تسلیم کروا لیں گے اور پاکستان کو دبا لیں گے حالانکہ وہ بھی جانتے
ہیں کہ یہ سب خام خیالی ہے۔ افغانستان کے ان حکمرانوں کو دوسروں کے اشاروں
پر ناچنے کے بجائے حقائق کا ادراک کرنا ہو گا اور ڈیورنڈ لائن کے اس کھیل
سے اب نکلنا ہو گا، جسے وہ اب تک بھولنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ پاکستان
ہی ہے جس نے ان کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے
جس کے ساتھ ان کے دین، ملت، تہذیب و تمدن اور علاقائیت و ثقافت بلکہ رنگ و
نسل کے بھی رشتے جڑتے ہیں۔ بھارت کے ہندوؤں کے ساتھ افغان حکمرانوں کا ابھی
تک پالا نہیں پڑا وگرنہ وہ ایسی حرکتیں ہرگز نہ کرتے۔ افغانستان کے موجودہ
کٹھ پتلی حکمرانوں کو اس بارے میں عمل کی شہ چاہ بہار کی بندرگاہ کے منصوبے
سے بھی ملی ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ بندرگاہ ان کے لئے کراچی
کا متبادل ثابت ہو سکتی ہے اور یہاں سے بھارت ان کے لئے ساری دنیا کے رابطے،
تجارت اور فراہمی خوراک کا کام کرے گا۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ مل کر
افغانستان کے طول و عرض میں کئی سڑکوں کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی لے رکھا ہے جس
پر اشرف غنی اینڈ کمپنی کے لئے حالات سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ بھارت کے
ذریعے سے عالمی روابط اور تجارت ایک خواب تو ہو سکتا ہے اس کی کوئی حقیقت
نہیں ہے۔ افغانستان کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر پاکستان نے محض افغان مہاجرین
ہی کو ملک سے نکالنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا تو کیا وہ اتنے بڑے بوجھ
کو اٹھا پائیں گے اور کیا وہ آمدن اور زرمبادلہ جو انہیں پاکستان میں اپنی
قوم کی تجارت سے حاصل ہوتا ہے اس کا ازالہ کیا امریکہ اور بھارت کریں گے؟
امریکہ نے افغان جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کئے ہیں لیکن اس نے افغان قوم کو
خوشحال بنانے کے لئے چند ارب ڈالربھی خرچ نہیں کئے۔ سارا افغانستان اب بھی
ملبے کا ڈھیر اور پتھر کے دور کی ایک یادگار ہے۔ 15سال کا عرصہ کوئی کم
عرصہ نہیں تھا کہ امریکہ افغانستان میں تعمیراتی و ترقیاقی کاموں کا جال
بچھا کر وہاں کے لوگوں کے دل جیتنے کی کچھ نہ کچھ کوشش تو کرتا لیکن اس نے
اب تک ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ یہ سب اس کے اہداف و مقاصد میں شامل ہی
نہیں ہے۔ آج ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر قبضے کے بعد
وہاں سے انتہائی قیمتی دھاتیں بڑے پیمانے پر چرائی ہیں۔ چوریوں کے ٹھیکے کا
بڑا حصہ بھی بھارت کے پاس ہے۔ سو افغان نیتاؤں کو پہلے اپنے اصل دشمن کا
صحیح طور پر ادراک کرنا ہو گا۔ افغان فوج کی انتہائی بزدلانہ اور مذموم
حرکتوں کی وجہ سے افغان قوم کے خلاف پاکستان میں بھی نفرت کی فضا بڑھ رہی
ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اگر اس نفرت اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو
لامحالہ دونوں طرف سے تصادم کا شکار ہونے اور مرنے مارنے والے صرف اور صرف
مسلمان ہی ہوں گے اور یہی ہمارے دشمنوں کی اصل کوشش اور ہدف ہے۔ اگر دشمن
ہمیں لڑانا چاہتا ہے تو ہمیں لازمی طور پر آنکھیں کھولنا ہوں گی۔ یہ بات
بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افغانستان کے موجودہ کٹھ پتلی حکمران ہوں یا اس
سے پچھلے چغہ بردار، ان کا افغان عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک مخصوص
گروہ اور ٹولہ ہے جو امریکی مرضی اور حکم سے آن دھمکتا ہے اور انہی کے ڈور
میں ہلانے پر ان کی مرضی کی حرکتیں کرتا ہے۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ
امریکہ ایک طرف حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پر دباؤ
ڈالتا ہے لیکن دوسری طرف وہ افغانستان کی سرحد پر پاکستان کے حوالے سے
کنٹرول قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔ امریکہ اس سارے جھگڑے
پر مکمل خاموش ہے کیونکہ وہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان و افغانستان باہم الجھ
کر جنگ شروع کر دیں اور وہ دنیا بھر میں جلتے مرتے مسلمانوں کی طرح یہاں
بھی وہی تماشہ دیکھے، بھارت جس نے طے شدہ سیز فائر لائن کو جسے اب کشمیر کی
کنٹرول لائن کہا جاتا ہے، ساری دنیا کے اصول و ضوابط کو روند کر دنیا کے
سخت اور مضبوط ترین حفاظتی حصار میں بدل لیا ہے، لیکن پاکستان سے کہا جاتا
ہے کہ وہ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد کو مکمل طور پر کھلا چھوڑ دے۔
جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک میں ہونے والی ساری دہشت گردی اسی راستے
سے ہوتی ہے اور اس میں بھارت ہی ملوث ہے تو ہمیں مزید کسی پس و پیش سے کام
لینے کے بجائے اپناکام جاری رکھنا ہو گا۔ لیکن اس میں افغان قوم یا سرحد کے
آر پار بسنے والے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی سے بھی بچانے کی سبیل نکالنا
ہو گی۔ انہیں متنفر ہونے سے بچانا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری کسی
معمولی غلطی سے ہماری دہائیوں کی وہ محنت اکارت چلی جائے جو ہم افغان قوم
کو اپنے پاس رکھ کر آج تک کرتے آ رہے ہیں۔
|