جموں وکشمیر کے حوالہ سے نیشنل میڈیا کا رویہ متعصبانہ ویکطرفہ

بہت سارے ممالک میں ہندوستان کی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن عملی طور دیکھاجائے تو اس کے اندرونی حالات تشویش کن ہیں۔ بھارت میں جنوب وشمال، مغرب تا مشرق ریاستوں میں کہیں نہ کہیں آگ جھلستی ہی رہتی ہے۔ مختلف اکناف سے اٹھنے والی آوازوں کو سننے، ان کو سمجھنے اور ان کا دائمی حل نکالنے کے بجائے یہاں پر طاقت کے ذریعہ انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں تک جموں وکشمیر ریاست کا سوال ہے تو یہاں کی عوام کی اکثر یہ شکایت رہی ہے کہ لکھن پور پار کرتے ہی ہندوستان کی جمہوریت دم توڑ دیتی ہے
حب الوطنی کی آڑ میں صحافتی اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کہاں تک جائز ہے؟

ہندوستان کودنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک تصورکیاجاتاہے جہاں مختلف مذاہب، نسلوں، ذات پات، رنگ ونسل اور زبانیں بولنے والے لوگ ایکساتھ رہتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ اس ملک میں ہر طرح کے موسم، جغرافیائی صورتحال، فصلیں، نباتیات، مویشی، چرند وپرند وغیرہ میں بھی تنوع ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم ہندوستان کو حیاتیات ونباتیات،مذاہب ولسانیات اور جغرفیائی خصوصیات کے حوالہ سے ویکی پیڈیا کہیں تومبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ اسی لئے کہاجاتا ہے اگر کسی کو پوری دنیا کو جاننا ہے تو وہ ہندوستان بھر کا تفصیلی دورہ کرے تو اس کو دنیا کا ایک خاکہ سامنے آجائے گا۔ یہی کچھ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کی نظریں اس ملک پر مرکوز رہتی ہیں، بہت سارے ممالک میں ہندوستان کی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ لیکن عملی طور دیکھاجائے تو اس کے اندرونی حالات تشویش کن ہیں۔ بھارت میں جنوب وشمال، مغرب تا مشرق ریاستوں میں کہیں نہ کہیں آگ جھلستی ہی رہتی ہے۔ مختلف اکناف سے اٹھنے والی آوازوں کو سننے، ان کو سمجھنے اور ان کا دائمی حل نکالنے کے بجائے یہاں پر طاقت کے ذریعہ انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں تک جموں وکشمیر ریاست کا سوال ہے تو یہاں کی عوام کی اکثر یہ شکایت رہی ہے کہ لکھن پور پار کرتے ہی ہندوستان کی جمہوریت دم توڑ دیتی ہے ۔ اس پر متعددعلاقائی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، تبصرہ نگار، تجزیہ نگار اور صحافی حضرات کی بھی تحریریں وبیانات آئے روز آتے رہتے ہیں۔’میڈیا‘جوکہ جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، کا بھی جموں وکشمیر کے اندر رویہ جانبدارانہ ہے۔ قومی الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا نے جموں وکشمیر کو ہمیشہ دفاعی نقطہ نگاہ سے ہی دیکھا ہے ۔یہاںتعمیر وترقی، سماجی، اقتصادی، سیاسی، تعلیمی طور لوگوں کو کیا مشکلات ہیں، انہیں کن مصائب سے گذرنا پڑتاہے، بے روزگاری کی کیا صورتحال ہے، تعلیم،صحت، بجلی، پانی ، رابطہ سڑکیں اور سماجی بہبود شعبہ جات کی کارکردگی کیا ہے، اس سے قومی میڈیا بالخصوص الیکٹراانک میڈیا کا کچھ لینا دینا نہیں رہتا بلکہ ان کے لئے سرحدپر فائرنگ ، دراندازی کی کوشش ،زیر زمین سرنگ برآمد، دفعہ370پر کسی کا بیان، آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ(افسپا)کی منسوخی، بھارت مخالف نعرہ بازی ،کسی نے جھنڈا لہرایا تو کسی نہ نہیں لہرایاوغیرہ ہی خبروں کے موضوع ہوتے ہیں۔ جموں وکشمیر ریاست کے حوالہ سے نیشنل میڈیا نے متذکرہ بالا امور تک ہی خود کو محدود رکھا ہے ، قومی الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے نامہ نگاروں، کیمرہ مین اور فوٹو گرافرز کو اس حوالہ سے خصوصی ہدایات بھی ہیں کہ وہ اپنی صحافت کو صرف انہیں معاملات تک محدود رہیں۔ کشمیر کے اندر سیکورٹی فورسز لوگوں پر کتنا ظلم وستم کرتی ہے، کتنے معصوموں کو موت کی ابدی نیند سلایاجاتاہے، کتنی خواتین جوانی میں ہی بیوہ ہورہی ہیں، لخت جگر کی جدائی میں کتنی ماو ¿ں کی آنکھوں سے بینائی چلی گئی ہے ، کتنی اپنا دماغی توازن کھوبیٹھی ہیں، وغیرہ مسائل پر کبھی توجہ نہ دی گئی۔صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے اندر نیشنل الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہاں کوئی بھی معاملہ ہو، کسی بھی نوعیت کا ہونیشنل میڈیا اس کو صرف دفاعی، سیکورٹی، ملکی سالمیت ویکجہتی نقطہ نظر سے دیکھ کر اس میں سے کچھ نہ کچھ خبر نکالنے کی کوشش میں ہی رہتی ہے تاکہ سنسنی پھیلائی جائے۔31مارچ کو ٹی ٹونٹی عالمی کپ کے سیمی فائنل میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر سرینگر کے NITمیں چندطلبہ نے جشن منایا توبیرون ریاستی طلبہ اور ان کے درمیان معمولی نوک جھونک ہوئی جوکہ تعلیمی اداروں کے اندر کوئی نئی بات نہ تھی۔بیرون ریاستی طلبہ نے مقامی طلبہ پر بھار ت کی ہار پر جشن منانے کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کیا جس کو نیشنل میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لے کر بڑی خبر کے طور پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے این آئی ٹی سرینگر کا معاملہ ہندوستان کے تمام سرکردہ نجی ٹی وی چینلوں کی ہیڈ لائن بنا، اس کو اتنابڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ جیسے کوئی طوفان بپا ہوگیا ہو لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میڈیا کی طرف سے غیر معمولی کوریج ملنے پراین آئی ٹی سرینگر میں زیر تعلیم بیرون ریاستی طلبہ کے حوصلے اور بلند ہوگئے اور انہوں نے مقامی طلبہ وطالبات کے خلاف طرح طرح کا پروپگنڈہ شروع کردیا۔بجائے اس کے، کہ نیشنل میڈیا حقائق کو سامنے لاتی، قومی یکجہتی/سلامتی/ حب ولوطنی کی آڑ میں صحافت کے بنیادی اصولوں کو درکنار رکھ کر یکطرفہ خبریں چلا کر ملک بھر میں غلط پیغام پیش کیاگیا۔ ایک انتظامی معاملہ جس کو ادارہ کے اندر ہی سلجھا یاجاسکتا تھا کو اتنی زیادہ ہوا دی گئی کہ مرکز سے اعلیٰ سطحی افسران کی خصوصی ٹیم وادی وارد ہوئی اور یہ معاملہ ابھی بھی چل رہا ہے۔این آئی ٹی سرینگر کا معاملہ کوئی اعلیحدہ واقعہ نہیں بلکہ یہ اس مہم کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جوکہ ملکی سطح پر بھاجپا قیادت والی این ڈی آئی سرکار نے تعلیمی اداروں پر آر ایس ایس نظریہ مسلط کر نے کے لئے چھیڑ رکھی ہے۔ حیدر آباد یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی واقعات اور اب این آئی ٹی معاملہ کو ’رائی کا پہاڑ‘بنا کر پیش کرنا اسی مشن کا حصہ ہے۔ اصل میں ملک بھر میں ان اداروں، جہاں آر ایس ایس نظریہ کے حامی کم اور ناقدین زیادہ ہیں، کے خلاف مرکزی سرکار کی طرف سے مہم شروع کی گئی ہے۔ایسے اداروں میں چھوٹے سے معاملہ کو بھی زر خریدنیشنل میڈیا کا سہارا لیکر اچھالاجارہاہے جوکہ افسوس کن ہے۔ ضلع رام بن کے داڑم (گول)علاقہ میں 18جولائی 2013کو دیر رات ایک مقامی بی ایس ایف کیمپ میں تعینات اہلکاروں کی طرف سے مقامی مسجد میں داخل ہو کر مبینہ طور پر بے حرمتی اور امام کے ساتھ غیر مہذب برتاﺅ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فورسز کی فائرنگ میں آدھا درجن لوگ اور3درجن سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔ اس واقعہ کے بعدنہ صرف ضلع رام بن بلکہ پورے خطہ چناب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ نیشنل میڈیا نے اس کو بھی سیکورٹی کی رنگت دی۔ اس واقعہ کے بعد جموں میں بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک پریس کانفرنس دی جس میں راقم السطور بھی موجود تھا، دوران پریس کانفرنس نیشنل میڈیا سے وابستہ صحافی نے ڈی جی سے یہ سوال کیاکہ ”سننے میں آیا ہے کہ لوگ بی ایس ایف کیمپ پر دوا بولنے جارہے تھے ، جہاں اسلحہ وبارود تھا، تو کیا یہ فائرنگ دفاع میں کی گئی“۔ جس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ڈی جی نے کہاکہ اس امکانات کو انکار نہیں جاسکتا کیونکہ لوگ ہجوم کی صورت میں کیمپ کی طرف بڑھ رہے تھے، اس لئے فائرنگ کی گئی۔ دوسرے روز زمینی حقائق کو یکطرفہ رکھ کر تمام نیشنل پرنٹ والیکٹرانک میڈیا نے یہ خبر چلائی کہ رام بن کے گول (داڑم )علاقہ میں لوگوں نے بی ایس ایف کیمپ سے اسلحہ وباردو چرانے کی کوشش کی، دفاع میں چلائی گئی فائرنگ میں لوگ زخمی ہوئے۔ یہ صرف اکا دکامثالیں ہیں، بلکہ آئے روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں نیشنل میڈیا ہمیشہ اپنے ہی رنگ میں رنگ پر پیش کرتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کی اصلی حقیقت سے متعلق ہندوستان کی اکثریتی آبادی لاعلم ہے جن کے ذہنوں میں نیشنل میڈیا نے غلط پروپگنڈہ کر کے جموں وکشمیر ریاست کے حوالہ سے ایک اعلیحدہ ہی نظریہ قائم کر رکھا ہے اور ان کے ذہنوں میں زہر بھر رکھا ہے اور بھرا جارہاہے۔کوئی بھی شخص شعبہ صحافت سے جڑا ہے ،اس کو اپنے ملک سے محبت، حب والوطنی کا جذبہ کا ہونا چاہئے لیکن سرکار کی طرف سے ’میڈیا‘کو قومی یکجہتی، سالمیت کی آڑ میں اپنا گروی بنا لینا کسی بھی زوایہ سے ٹھیک نہیں۔ قومی یکجہتی، سالمیت کو ملحوظ نظر رکھ کر بھی صحافتی اصولوںپر کھرا اُتر ا جاسکتا ہے لیکن اگر اس آڑ میں ہم یکطرفہ اور جانبداری کا مظاہرہ کریں تو پھر یہ ہندوستان جیسے ملک میں توازن برقر ارکھنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ این آئی ٹی معاملہ کو جس طرح نیشنل میڈیا نے ہوا دی، اس سے تو عالمی سطح پر بھی غلط پیغام گیا ہے اور وہاں بھی یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ بھارت کو شکست ہوئی تو مایوسی ہونے کے بجائے کشمیر کے اند رطلبہ ولوگوں نے ویسٹ انڈیز کے حق میں جشن کیوں منایا۔ کیوںکشمیر کے اندر کرکٹ میچ میں بھارت کی فتح پرمایوسی اور ہار پر جشن منایاجاتاہے۔اس معاملہ کے تئیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، کشمیر کے اندر جتنے بھی ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات کو ہوا دی جائے گی ، اعلیحدگی پسند رحجان اتنا ہی زیادہ بڑے گا اور اس سے عالمی سطح پر بھارت جوکہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، کے لئے بھی اچھاپیغام نہیں جاتا۔ نیشنل پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے کووہ اپنی جھوٹی حب الوطنی کے جذبات میں بہہ کر کہیںنقصان ہی تو نہیں کر رہے۔کیا آپ کو کبھی اپنا ضمیر نہیں جھنجوڑتا کہ قلم اور کیمرہ/فوٹوکا منصفانہ استعمال نہیں ہورہا............؟
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52945 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.