ایک بھیڑئیے کے حلق میں ہڈی پھنس
گئی تو اسے جان کے لالے پڑ گئے۔ جنگل میں بے چینی کے ساتھ بھاگتا پھر رہا
تھا۔ جان بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اتفاق سے اس کی نظر ایک سارس
پر پڑی۔ بے تحاشہ اس کی طرف بھاگا اور کہنے لگا۔”بھیا سارس! میرے حلق میں
ہڈی پھنس گئی ہے۔ تمہاری چونچ بڑی لمبی ہے۔ میرے حلق میں پھنسی ہڈی نکال دو۔
میں اس کے صلے میں تمہیں بڑی اجرت دوں گا۔“ سارس کو بھیڑئیے کی حالت پر بڑا
رحم آیا تو اس نے اپنی چونچ فوراً اس کے گلے میں ڈال دی۔ چونچ سے ہڈی کو
پکڑ کر ایک جھٹکا دیا تو ہڈی باہر آگئی۔ پھنسی ہڈی نکلتے ہی بھیڑئیے نے
سکون کی سانس لی۔ جب سارس نے بھیڑئیے سے مزدوری مانگی تو اس نے خونخوار
دانت باہر نکال کر غراتے ہوئے کہا! ”کیا یہ مزدوری کم ہے کہ تیری پوری چونچ
میرے جبڑوں کے شکنجے میں آگئی تھی اور میں نے اسے چبایا نہیں۔ چبا دیتا تو
مجھ سے مزدوری نہ مانگتا۔“
بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں زندگیاں اور اربوں ڈالر کی
قربانیاں دینے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا پاکستان کے ساتھ
رویّہ نا قابلِ فہم ہے۔ اتحادی ان احسانات کے جواب میں القاعدہ اور طالبان
کی پشت پناہی اور طالبان کیٰ اعلی قیادت کا پاکستان میں موجودگی کا مستقل
الزام لگاتے رہتے ہیں۔ امریکی حکام، ادارے اور مغربی و بھارتی میڈیا (نیویارک
ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی، ٹائمز آف انڈیا) طے شدہ منصوبے کے تحت پاک
فوج، سکیورٹی اداروں اور جوہری ہتھیاروں کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت
افواہوں اور جھوٹے الزامات کی ناکام مہم میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ تازہ
ترین حملہ لندن سکول آف اکنامکس کی مرتب کردہ رپورٹ ہے جس میں الزام عائد
کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی نہ صرف طالبان کو وسائل، تربیت اور پناگاہیں
فراہم کرتی ہے بلکہ اس کے اہلکار طالبان شوریٰ کے اجلاسوں میں بھی شریک
ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں صدر زرداری سمیت آئی ایس آئی کو ایک ہی تیر سے نشانہ
بنایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کا سر پاؤں نہیں ہوتا بالکل اسی طرح تحقیق
کاروں نے جن 54 افراد کا انٹرویو کیا ان کا حدود اربعہ اور شناخت تک ظاہر
نہیں کی۔ رپورٹ کا موضوع پاکستان کی سیاسی قیادت اور آئی ایس آئی کا کردار
ہے لیکن سترہ کروڑ پاکستانیوں میں سے کسی ایک کو بھی اس قابل نہ سمجھا کہ
ان کی رائے بھی لی جاتی۔ پاکستان نے اس رپورٹ کو بدنیتی اور قیاس آرائیوں
پر مبنی قرار دیا ہے اور پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ الزامات ملک کی
سکیورٹی ایجنسیوں اور فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ ہم فوج اور خفیہ
اداروں کی کارکردگی کی بدولت حالات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح
کی بے بنیاد اور شرانگیز رپورٹوں کے پیچھے ان ممالک کا ہاتھ ہے جو پاکستان
کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے امریکی
سینٹ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سن دو ہزار دو میں
افغانستان کی تورا بورا کی پہاڑیوں پر ہونے والی بمباری میں اسامہ بن لادن
پھنس گئے تھے۔ اور اگر مزید امریکی فوج وہاں بھیج دی جاتی تو اسامہ بن لادن
کو وہاں سے بچ نکل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غائب ہوجانے کا موقع نہ
ملتا۔ سابق برطانوی وزیراعظم گارڈن براؤن نے رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے
بعد بیان دیا تھا کہ پاکستان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ القاعدہ سے مقابلہ
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زبان درازیاں، ذلت
اور موت سے بچنے، شکست چھپانے اور جان چھڑانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اپنی
ناکامی کی کالک ہمارے منہ ملنے کی ناکام کوششیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔
زمانہ اس حقیقت سے آشکار ہے کہ روس کے افغانستان کے نکلنے کے بعد جب طالبان
نے حکومت سنبھالی تو امریکہ اور نیٹو کی یلغار تک عموماً پاکستان اور خصوصاً
افغانستان میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی نہ تھی اور نہ ہی خودکش حملے تھے۔
افغانستان میں امریکی یلغار کے مقابلے میں شروع ہونے والی تحریک دراصل جہاد
فی سبیل اللہ ہے۔ جب کوئی دشمن مقابلے کے لیے صف آراء ہو جیسے افغانستان و
عراق میں ہوا تو مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ ایسی تحریکوں پر
دہشتگردی کا لیبل لگا کر بدنام کرنے کا مقصد مسلم علاقوں میں ہونے والے
مظالم اور بے انصافیوں کو چھپانا اور امریکہ کی خود ساختہ اور منظم
دہشتگردی پر پردہ ڈالنا ہے۔
امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ہر طرح کا تباہ کن اسلحہ استعمال کرنے کے
باوجود دہشتگردی کی جنگ میں جیت سے کوسوں دور ہیں۔ امریکی فوج کشی کے نو
سال گزر جانے کے باجود وہاں آج بھی 72فیصد علاقوں پر طالبان قابض ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ ایک طرف امریکہ2011ء میں افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کے
بارے میں سوچ رہا ہے تو دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا شور ہے کہ افغانستان
امریکہ کے لیے دلدل بن چکا ہے۔ اس وقت افغانستان میں اڑسٹھ ہزارامریکی فوجی
ہیں(امریکی صدر کے اضافی 30 ہزار فوجی اس کے علاوہ ہیں) جو دیگر ممالک کی
طرف سے بھیجی گئی بین الاقوامی فوج کے ساتھ طالبان سے نبرد آزما ہیں یوں
افغانستان میں بین الاقوامی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ اتنی
بھاری فوج کی موجودگی کے باوجود کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔ جبکہ دوسری
جانب بہت ہی قلیل عرصہ میں پاک افواج نے سوات کے بعد جنوبی وزیرستان کو بھی
دہشت گردوں سے مکمل طور پر خالی کرالیا ہے۔ پاک فوج کی پوری توجہ دہشت گردی
کے مکمل خاتمے اور سدباب پر مرکوز ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ پاکستان کے
کردار سے مطمئین نہیں۔ اس جنگ میں ہم نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ اتنی
قربانیوں کے باوجود دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو مشکوک
قرار دینا اور” ڈومور“کی گردان ہماری خدمات اور کاوشوں کو پسِ پشت ڈالنے کے
مترادف ہے۔
استعماری طاقتوں کے سرخیل امریکہ کی پاکستان نے کب مدد نہیں کی؟ سوویت
یونین کی افغانستان میں پسپائی سمیت امریکہ کا افغانستان میں برسربیکار جنگ
میں اتحادی ہونا مددگار ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ ہمارا پہلا احسان سوویت
یونین کو افغانستان سے نکالنا تھا۔ پاکستان ہی نے طالبان کے ساتھ مل کر اس
وقت کی عالمی طاقت سوویت یونین کو پسپائی پر مجبور کیا۔ اس کی شکست و ریخت
کے بعد امریکہ بنا سپر پاور اور ہمیں انعام کیا دیا؟ بے وفائی اور دہشتگردی
کا عذاب و القابات۔ ان سب کے باوجود دوسرا احسان گزشتہ نو سالوں سے پاکستان
امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے جانی نقصانات جتنے ہوئے اور ہو رہے ہیں اس
کا نصف بھی امریکہ کا نہیں ہوا۔
اتحادیوں کو علم ہونا چاہیے کہ جدید ترین ہتھیاروں اور ماہر افواج کی
موجودگی کے باوجود افغانستان سے با عزت انخلاء میں ممکنہ مددگار پاکستان ہی
ہو سکتا ہے ایسے میں حلق میں پھنسی ہڈی نکالنے کے لیے لمبی چونچ والی سارس
کی ضرورت ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس جب امریکہ کو ڈو مور ڈو مور کا راگ الاپنے
سے فرصت ملے گی تو معلوم ہوگا کہ حلق میں پھنسی ہڈی نکالنے والی لمبی چونچ
بھی ہڈی کے ساتھ حلق میں پھنس چکی ہے۔ |