جنوبی ایشا کے مسلمانوں کا الگ وطن کا
مطالبے کا بنیادی مقصد تھا کہ یہاں اسلامی اقدار اور اسلامی روایات کو نافذ
کیاجاسکے اور اسلامی نظام کے مطابق ملک کو چلایا جائے لیکن بد قسمتی سے
اسلام نظاکو نافذ کرنے کی بجائے یہاں پر ایک منحصوص نظام لانے کااعلان کیا
گیا جس کو آجکل جمہوریت کہا جاتا ہے اپنے قارئین کو بتاتا چلوں جمہوریت کا
معنی ہوتا ہے عوامی حکمرانی لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں آپکا اس ملک کے اس
نام نہاد جمہوری نظام میں کتنا کردار ہے میں جانتا ہوں آپ کا جواب ہو گا
کوئی بھی نہیں میں یوں کہوں گا اس ملک کے 98% پر اس ملک کی2%طبقہ جمہوریت
کے نام پر مسلط ہیں یہ لوگ پچھلے 68سالوں سے عوام کو اپنی درندگی کا نشانہ
بنا رہے ہیں عوام دو وقت کے کھانے کو ترس رہی ہے لوگوں کے پاس پینے کا صاف
پانی نہیں رہنے کو گھر نہیں عوام دربدر زلیل ہو رہی ہے لوگ معاشی ننگدستی
کا شکار ہیں امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب مزید غریب ہو رہے ہیں
اربوں روپے ہر سال بچٹ میں تعلیم صحت ترقیاتی کاموں پینے کے صاف پانی کی
فرہمی اور عوام کا معیار زندگی کے نام پہ رکھے جاتے لیکن کیا کوئی بتا سکتا
ہے وہ پیسے کہاں جاتے ہیں کوئی پوچھنے والہ نہیں سچ کہو ں تو یہ بچٹ والی
رسم ہر سال پوری کرنا حکومت کے لیے لازمی ہوتا ہے کیونکہ یہ آ ئینی ذومہ
داری ہے جسکو پورا کرنا حکومت کی مجبوری ہے لیکن عوام کی بہتری ہورہی ہے یہ
نہیں حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اب چونکہ حکومت پانچ سال کئے لیے
منتحب ہو چکی ہے اب عوام جائے باڑ میں ۔عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں اور
دعائیں مانگ رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہی ہو جس سے اس کرپٹ ٹولے سے جان چھوٹ
سکے لیکن اس بھولی بھالی عوام کو کون بتائے کہ یہ آپ کے ہی منتحب کردہ لوگ
ہیں جن کے لیے آپ انتحابی دنوں میں نعرے لگایا کرتے تھے جن کے لیے آپ نے
اپنے ہی لوگوں سے لڑئے تھے اور حوشی کے شادیانے بجائے تھے کہ اب اپکا لیڈر
منتحب ہو چکا ہے اب تمام مسائل حل ہوں گے لیکن بہت ہی کمزور یاداشت کی حامل
عوام کو کیا پتہ اس با ر پھر ان سے ہاتھ ہی ہوگا جیسے ماضی میں ہوتاآیا ہے
جس جمہوریت کے نام پہ پچھلے68 سالوں سے ہورہا ہے کیونکہ یہی جمہوریت کی
حوبصورتی ہے یہ جموریت کی حوبصورتی ہی ہے کہ اس ملک کی پارلمنٹ میں نااہل
اور بدمعاش کرپٹ ان پڑھ لوگ جعلی ڈگری حولڈ ر کریمنل ٹیکس چور قرض
نادہندگان ہیں اور بعد تو اتنے غریب ہیں جنہوں نے اربوں روپے بنکوں سے قرض
لیا اور بعد میں معاف کروالیا کیونکہ وہ معاشی تور پر اتنے غریب ہوتے ہیں
کہ وہ قرض واپس نہیں کر سکتے حالانکہ وہ الگ بات ہے کہ الیکشن لڑ نا اور
صوبائی یا قومی اسمبلی میں جا نا نہ صرف غریب کی پہنچ سے باہر ہے بلکہ وہ
خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔اسکے برعکس اگر کوئی غریب قرض لیتا ہے اور واپس
نہیں کرتا تو اسکی گروی رکھی ہوئی پراپرٹی ضبط کر کے بنک کے قرضے پورے کیا
جاتے ہیں کیونکہ نام نہاد جمہو ریت میں ایسا ہی ہوتا جہاں عام ادمی کے لیے
الگ قانون ہوتا اور وی ائی پی کے لیے الگ ہوتا ہے او ر ایسا صرف پاکستان
جیسے ملک میں ہوتا ہے جہاں نام نہاد جموریت مسلط ہوتی ہے ۔اور مقام افسوس
یہ ہے کہ آپ جمہوریت کے خلاف بول بھی نہیں سکتے کیونکہ ایسے آپ جموریت کے
خلاف شازش کر رہے ہیں اور اس طرح جموریت پٹری سے اتر سکتی ہے اور اگراترگئی
تو آپ کے خلاف ارٹیکل چھ لگ سکتاہے اور غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے بلکہ
ارٹیکل چھ تو بعد کا کا م ہے نام نہاد جموریت کو بچانے کے لیے اسکے رکھوالے
خود بھی قانون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں جیسا کہ17جون 2015کولاہور میں ماڈل
ٹاؤن کے مقام میں ہواجہاں پر اس وقت انسانیت شرماگئی جب پنجاب حکومت کے حکم
پر پولیس نے ظلم کی انتہا کردی اور سرے عام عورتوں کو بچوں کو نواجوانوں کو
بزرگوں کو پولیس نے گولیوں کا نشانہ بنایا ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس
نام نہاد جمہوریت کے خلاف نعرے بازی کرکے اپنا احتجاج رکارڈ کر رہے تھے اور
اس سے بھی بڑی ستم گری یہ تھی کہ سپریم کورٹ جو کہ جنگلے پر لٹکی ہوئی
شلوار پر سوموٹو ایکشن لے سکتی تھی اسنے بھی اس معاملے میں ایکشن لینا
مناسب نہ سمجھا کیونکہ ان کے نزدیک انسانی جانوں سے زیادہ اہمیت سپریم کورٹ
کی وہ توہین تھی جو سپریم کورٹ کے جنگلے پر لٹکی ہوئی شلوار سے ہو رہی تھی
۔اس موقع پر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت پاکستان کی عوام جتنی اس نام
نہاد جمہوری سسٹم سے مایوس ہے اتنی ہی یہاں کے انصاف فراہم کرنے والے ادارں
سے بھی ہے کیونکہ انکی کارکردگی بھی زیرو ہے ۔مقام افسوس یہ ہے کہ اس نام
نہاد جمہوریت کو بچانے کے لیے یہ 2%طبقہ کسی بھی ہدتک جاسکتا ہے خواہ اسکے
لیے سندھ کارڈ ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے یہ اپنے ملک کے سیکورٹی ادارں
کے خلاف میمو لکھ کر باہر والی قوتوں سے مدد کیوں نہ طلب کی جائے،بدقسمتی
سے ہمارے حکمران صرف اس بات کو جمہوریت سمجھتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد
الیکشن کرائے جائے اور اگلے پانچ سال اقتدار کے معزئے لوٹے جائے ۔میں تو
کہوں گا پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت نافظ ہے جس کو کبھی لندن سے
تو کبھی دبئی سے ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے موجودہ پرائم منسٹر میاں
نواز شریف پچھلے تین سالوں میں 68غیرملکی دورئے کر چکے ہیں جس میں
پاکستانیوں کے کروڑے کے پیسے ضائع کیے جا چکے ہیں یہاں تک وہ سرمایاکاروں
کو پاکستان میں سرمایاکاری پہ راغب نہیں کر سکے سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں پچھلے تین سالوں میں 76%غیرملکی سرمایاکاری میں کمی ہوئی ہے تو
کیا کوئی حکمو متی نمایندہ بتا سکتا ہے 68غیر ملکی دورے کس کام کے؟جس ملک
کی 60%عوا م کو دو وقت کی روٹی بمشکل میسر ہووہاں پہ24لاکھ کے کتے
وزیرااعظم کی سیکورٹی کے لیے حریدئے جائے ۔کیا یہی ہوجموریت ہے ؟مئی
2014میں وزیرااعظم کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں خریدی گئی جن کی قیمت 22کروڑ
40لاکھ تھی اس کے علاوہ حال ہی میں وزیرااعظم کے باتھ روم کے لیے 22ملین
روپے رکھے گئے ہیں یہی نہیں 2016 کے بچٹ میں وزیرااعظم ہاؤس او ر ایوان صدر
کے لیے 1ارب74کروڑ رکھے گئے ہیں پاکستان کی عوام کس حال میں ہے کسی کوکوئی
پروا نہیں کیونکہ یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آخر یہ نام نہاد جمہوریت کب تک چلے گی؟ |