رمضان اور حکمران

ہم سب کا رونا یہی ہے کہ حکمران نہیں اچھے ملک کا پیسہ لوٹتے ہیں عوام کا حق غصب کرتے ہیں ہمیں ایسا حکمران چہیئے جو بشری کمزوریوں سے مبرا ہو جو جادو کی چھڑی گھمائے اور ساری جہالت حرص و ہوس سب ختم ہوجائے ہم چہتے ہیں راتوں رات بیرونی دنیا سے اک اڑن کھٹولا آئے اور اس میں سے اک شریف النفس بندہ اترے جس میں احساس ذمہ داری ہو جو خود کے لیئے کچھ نہ جوڑے عوام پہ سب خرچ کر دے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو ایسا بندہ ملنا ذرا مشکل ہے جو خصوصیات ہم میں پائی ہی نہیں جاتی وہ اسی معاشرے میں سے اٹھ کر بنے حاکم میں کہاں سے پیدا ہونگی

انسان معاشرتی حیوان ہے ایک دوسرے کی سوچ اور صلاحیتوں کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے اگر حکمران لوٹ مار کرتے ہیں تو دودھ کے دھلے ہم عوام بھی نہیں - یہی دیکھیں کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی آسمان کو چھونے لگی دکاندار کنٹرول ریٹ سے کہیں زیادہ مہنگی چیزیں بیچنے لگے - رمضان شریف کے احترام میں بسوں کے کرایوں میں اضافہ کر دیا گیا یہ مسلمانوں کو روزے رکھنے کی سزا دی جا رہی ہے شاید---

جہاں ایک طرف جرمنی جیسے غیر مسلم ممالک میں سٹوروں پر رمضان شریف کے احترام میں ٹیکس معاف کیے جارہے ہیں تاکہ روزے داروں کو اشیائے خوردونوش سستی ملیں وہیں ایک پاکستانی دین دار فروٹ فروش ملا کی زبانی یہ تک سنا کہ یہی تو ہماری کمائی کے دن ہیں - ہم اس زمانے کو روتے ہیں جب سکون تھا رشتوں میں پائیداری تھی عبادتوں میں دلی آسودگی ملتی تھی مگر وہ تب تھا جب دسترخوان سجاتے وقت اپنے ہمسائے کو کھانے میں شریک کیا جاتا تھا یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ ہم کھا لیں رمضان ہمارا پڑوسی بھوکا نہ رہ جائے مگراب کہاں کی عبادت کہاں کا سکون اپنے سگے بھائی کو بھوک سے مرتا دیکھ کر بھی لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں- ہر شخص ھل من ھور کے چکر میں پھنسا ہے ہمارا سکھ ہماری خوشی ہمیں بس اسی سے سروکار ہے ہم یہ بھول گئے ہیں کہ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا اور جب تک معاشرہ کمزور ہو گا ملک کمزور ہو گا تب تک ہم مضبوط نہیں ہو سکتے ہماری سالمیت اجتماعی ترقی میں مضمر ہے مگرافسوس ہمیں رنجشیں نبھانے سے فرصت نہیں-

اور پھر جب ہمارے ہی جیسے خودغرض لوگ ہمیں دباتے ہیں تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں اور دعائیں مانگنےلگتے ہیں کہ کوئی قومی یا بین الاقوامی انقلاب آئے اور ظالموں کا قلع قمع کر دے ہمارے حالات بدل دے اور ہمیں نہ خود کو بدلنا پڑے نہ اپنے حالات کو نہ کچھ محنت و قربانی دینی پڑے -

ایک مشہور روسی کہاوت ہے کہ اگر کسی قوم کو تبہ کرنا ہی تو اس کے لیئے کسی انقلاب کي ضرورت نہی بلکہ اسکی آئندہ نسل کی آبیاری کرو انکی سوچ میں اپنی سوچ کے بیج بو دو اسکے بعد تم بنا ہتھیار اٹھائے جنگ جیت جاؤگے- اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ سوچ اور تربیت کسی بھی انسان کے بنانے اور مٹانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ہمارے مشکلیں بھی ایسی ہی ہیں کیونکہ ہمیں شعور نہیں شعور کہ اگر اک کونسلر محلے کی سڑک بنوا دے تو ہم اسے پیر ماننے لگتے ہیں اور وہ کونسلر کوئی ایک آدھ اچھا کام کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے فرائض سے مبرا ہوجاتا ہے ہمیں یہ معلوم ہوکہ وہ شخص عوام ہی کے ٹیکس کے پیسوں کی تنخوہیں بٹور رہا ہے اور کرسی کو سنبھالنے کے بعد انہیں ہی ملنے تک میں احسان جتاتا ہے مغربی اقوام اپنا حق پہچانتی ہیں جبھی وہ اپنے حکمرانوں کا بوقت ضرورت گریبان تک پکڑ لیتی ہیں مگر ہم میں اگر ایک شخص گریبان پکڑے تو دس اپنے آقا کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ضروریات زندگی کی فرہمی سے لے کر ملکی سطح کی کرپشن تک میں ہماری کم فہمی قصور وار ہے اب ایسا تو قطعأ ممکن نہیں کہ کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار اٹھے اقتدار سنبھالے اور اپنی ہی برادری کے خلاف عوام کو شعور اور حقوق دیتا چلا جائےتاریخ گوہ ہے کہ تمام بڑی تحریکیں عوامی سطح پر بہت ہی چھوٹے پیمانے سے شروع ہوئی تھیں - ہمارے ملک کو اک آگہی کی تحریک کی اشد ضرورت ہے جو عوام کو جی حضوری سے نکال کر اپنی آنکھیں کھول کر اپنے حقوق پہچاننے میں مدد دے-
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 32 Articles with 34758 views My work is my intro. .. View More