پاک افغان سرحدی جھڑپیں
(Muhammad Abdullah, Lahore)
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک بزرگ ہمارے
پاس آئے. فکر مندی اور پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی. ہم نے ان سے
پریشانی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ میرا بیٹا جس کو میں نے الله تعالٰی
سے کتنی دعاؤں میں رو رو کر مانگا تھا اور مجھے امید تھی کہ یہ میرے بڑھاپے
کا سہارا بنے گا. میرے کام آئے گا. اسی وجہ سے میں نے اس کو بڑے ناز و نعم
سے پالا، اس کی ہر ہر ضرورت بن مانگے پوری کی مگر آج یہ بری صحبت کی وجہ سے
برائیوں کے راستے پر چل نکلا ہے. ہماری کوئی بات نہیں مانتا. اس کو
سمجھائیں تو آگے سے زبان چلاتا ہے. مجھے تو اس نے زچ کر کے رکھ دیا ہے.
بیٹا الله کے واسطے مجھے اس کا کچھ حل بتاؤ. اسی طرح اور بھی بہت سارے
بھائی ایسے ہوتے ہیں جن کو اپنے بیٹوں یا چھوٹے بھائیوں سے ایسی ہی شکایات
ہوتی ہیں. اور کچھ کی شکایت تو یہ ہوتی ہے کہ میرا چھوٹا بھائی یا بیٹا تو
بڑوں کے آگے زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلاتا ہے. ہمیں بتائیں اس کا کیا
علاج ہے؟ ہم اس کو گھر سے بھی نہیں نکال سکتے کوئی سخت سزا بھی نہیں دے
سکتے کہ آخر ہمارا ہی ماں جایہ ہے ، ہمارا اپنا ہی خون ہے. تو ان پریشان
لوگوں کو ہم جہاں اور مشورے یا تجاویز دیتے ہیں ان میں سرفہرست یہ تجویز
ہوتی ہے کہ اس کی برے لوگوں کے ساتھ دوستیاں ختم کرائیں. اس کے ملنے جلنے
والوں پر نظر رکھیں کہ کون اس کو مل رہا ہے اور کیوں.. یہ راتوں کو دیر تلک
کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور کیوں....
قارئین مجھے یہ پرانی باتیں آج اس لیے یاد آگئیں کہ پچھلے دو تین دن (پاکستان
کی سرحد پر افغان فورسز کی فائرنگ اور اس کے منہ توڑ جواب) سے لے کر سوشل
میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچا ہوا اور بہت سارے لوگ بغلیں بجا رہیں. کچھ تو
خوشی کے شادیانے بجا رہے کہ پاکستانی افواج نے افغان فورسز کو پیچھے تلک
دھکیل دیا ہے. کچھ لوگ تو جوش میں آکر سوشل میڈیا پر بڑھکیں لگا رہے ہیں کہ
ان افغانیوں کو ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں.
ہم ایسے لوگوں کے پیارے وطن پاکستان کی خاطر ایسے جوشیلے جذبات کی قدر کرتے
ہیں اگرچہ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ یہ خون دینے والے نہیں بلکہ صرف دودھ پینے
والے مجنوں ہیں. جو وقت پڑھنے پر گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہو
جائیں گے. مگر ہماری ایسے تمام حضرات و خواتین سے ادنی سی گزارش ہے کہ
خدارا اپنے جذبات پر قابو پائیے. یہ کوئی اسلام اور کفر کے معرکے نہیں، یہ
صلیب و حرم کی جنگیں نہیں بلکہ یہ تو اغیار کی سازشوں کی وجہ سے خون مسلم
کا ایک دوسرے سے ٹکرانا ہے. جس کے پیچھے مقصد اغیار کا یہ ہے کہ ان کو آپس
میں لڑا کر ان کو مصروف کر دیا جائے اور اپنے لیے محفوظ رستہ نکالا جائے.
ارباب اقتدار کو بھی چاہیے کہ افغان مہاجرین کی آمد و رفت اور سرحدی
تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرکے ایسی کسی بھی لڑائی سے بچ کر اپنی مکمل
توجہ ضرب عضب آپریشن کی کامیابی، امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربتوں
اور ان کی پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں پر رکھی جائے.
افغانستان کل بھی ہمارا اسلامی برادر تھا اور آج بھی ہے. اگر وہ بری صحبت (امریکہ،بھارت)
کی وجہ سے ہم سے دور جا رہا ہے تو مختلف ہتھکنڈوں اور کامیاب خارجہ پالیسی
سے اس کی اس بری صحبت سے اس کی جان چھڑائی جائے. اس کے ملنے ملانے والوں پر
نظر رکھی جائے اور کامیاب سفارت کاری کے ساتھ اس کو راہ راست پر رکھا جائے.
آج نہیں تو کل یقیناﹰ امریکہ افغانستان سے دفعان ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ
بھارت کی اربوں ڈالر کی افغانستان میں انویسٹمنٹ بھی غارت ہوگی تو ان حالات
میں بھی اور آج بھی افغانستان ہمارے وطن عزیز پاکستان کے لیے گہری سٹریٹجک
اہمیت کا حامل ہے.
اس لیے ہماری التجا ہے کہ یہ فیسبکی مجاہدین بھی اس نازک مسئلے پر ہنگامہ
آرائی کرنے کی بجائے کسی اور ایشو پر طبع آزمائی کریں.
الله ہمارے ملک و ملت کا حامی و ناصر ہو. |
|