اندرونی اور بیرونی بنکوں سے بھاری شرح سود
پر قرضے لیکر حکمران اپنے اللے تللے کاموں پرخرچ کرکے الٹا قوم پر احسان
دھر ڈالتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں آپ کے مطالبات پورے کردیے ہیں۔عقل کے
اندھوں سے کوئی پوچھے کہ میڑو ورنگین بسوں کا مطالبہ ہم نے کب کیا تھا؟چکوک
جہاں اصل آبادی یعنی کسان بستے ہیں۔وہاں تو آج تک سڑکیں نہیں بن سکیں۔انھیں
خود سفر کرنے اور اپنی اجناس شہروں تک پہنچانے میں سخت تکالیف کا سامنا
ہے۔اور شہروں میں تیس پینتیس فٹ اونچی سڑکوں پربسیں دوڑ رہی ہیں جس کے لیے
سو سال سے بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذاتی مکانات ڈھا دیے گئے اور کسی کو رونے
بھی نہیں دیا گیا۔بیچارا غریب بھی یہی سمجھ رہا ہے کہ یہ حکمرانوں یا ان کے
رشتہ داروں کے علاقوں میں ہی سہولتوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔اور یہ درست بھی
کہ رائے ونڈہی اصل لاہور بننے چلا ہے۔وہاں زمینوں کی قیمتیں آسمانوں سے
باتیں کرنے لگی ہیں ہر طرف کالونیاں بن رہی ہیں اور ساری زرعی زمین بر
بادہو کر گھروں میں تبدیل ہورہی ہے۔ بیرونی ممالک میں ایسا کرنے پر سخت
ترین پابندی ہے۔سالہا سال کی جدوجہد کے بعد ہی کسی کو کبھی کبھارکسی زرعی
زمین کو رہائشی بنانے کی اجازت ملتی ہے۔مگر ہمارے ہاں کالونیاں بنانے کا
رواج ایسا چلا ہے کہ الامان و الحفیظ۔دنیا کے غلیظ ترین مکمل کافرانہ نظام
سود پرچلنے والی قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے جب کہ سود لینے والا،دینے
والا،معاہدہ کی تکمیل کرنے والااور گواہ وغیرہ سبھی خدا کی شدید پکڑ کے
منتظراور خواہاں ہوتے ہیں۔علماء بہتر بنائیں گے ویسے سودی گناہ کسی شخص کا
اپنی سگی ماں سے69 دفعہ زنا کرلینے سے بھی بڑا ہے۔پاکستانی بجٹ 4390ارب
روپے ہے۔مگر ہم نے جو قرضے لے رکھے ہیں ۔وہ تو بیعنہہ ہی قائم رہیں گے۔صرف
سودی واجب الادا رقم 1390ارب ہے۔قرضوں کی واپسی کے علاوہ اگر یہ سودی رقم
ہی ہم ادا نہیں کرسکتے تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔اور دنیا بھر کے معیشتی
ماہر،ڈونر بین الاقوامی تنظیمیں ہم سے ہاتھ کھینچ لیں گی ۔اور ہمارے سب
ترقیاتی خواب ادھورے ہی نہیں بلکہ ختم ہو جائیں گے۔اس لیے ہر سال بجٹ بناتے
ہوئے تقریباًٍتیسرا حصہ رقوم صرف قرضوں پر واجب الادا سودی رقوم کی مد میں
رکھنا پڑتی ہیں۔باقی بجٹ کی رقوم سے ہمارا حال"گنجی کیا نہائے گی اور کیا
نچوڑے گی"والا ہے۔اب بھی بھارتی امریکی و اسرائیلی تکون ودیگر اسلام دشمن
ممالک و تنظیموں کا ہمیں ڈیفالٹ ملک بنانے کا مصمم ارادہ ہے۔اسی لیے وہ
مسلسل بھاری سود پر قرضے مہیا کرنے میں مانع نہیں ہوتے ۔اوردوسری طرف ہمارے
ملک کو ہی اصل دہشت گردوں کا ٹھکانہ ثابت کرنے کی پرزور کوششیں ہورہی
ہیں۔پہلے اسامہ بن لادن کو یہاں سے برآمد کر کے لیجانااور اب کئی ملکوں سے
گزر کر پاکستان پہنچنے والے ملاں منصورکی ڈرون سے ہمارے ملک میں ہلاکت اسی
سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔سودی کاروبار چونکہ خدا کی ہمسری کے بعد شاید روئے زمین
پر سب سے بڑا فتنہ اورگناہ ہے جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب ترین ہوتے
چلے جاتے ہیں حالات اس نہج پر چلتے چلتے اس سٹیج تک پہنچ جاتے ہیں کہ چند
امیر خاندان تو کھرب پتی ہوکر بیرون ممالک پانامہ لیکس میں رقوم دفنا ڈالتے
ہیں۔اور غربا ء کو جان کے لالے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور خود کشیوں کی شرح
بڑھنے لگتی ہے کیونکہ انکا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہوتا1973کے آئین نے تمام
قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اورتمام غیر اسلامی طور طریقوں کو ختم
کرنے کا جو وقت مقرر کیا تھا وہ درجنوں سال پہلے ختم ہوچکا۔شریعت کورٹ کی
طرف سے سود کو غیر اسلامی قرار دیے جانے کے خلاف سا بقہ نواز حکومت نے ہی
سٹے آرڈر جاری کروایا تھا خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ شایداتنے بڑے سنگین جرم
و گناہ کی سرزدگی کی ہی سزا کے طور پرانھیں جیلیں اور ملک بدریاں کاٹنا پڑی
ہوں۔ آج بھی سودی گاڑی بگٹٹ بھاگی چلی جارہی ہے۔بجٹ تو مفاد پرست سود خور
صنعتکاروں نے بنایا اگر فرشتے بھی اتر کر بجٹ بناتے تو 1360ارب ڈالر کی
سودی رقم کو کیا اڑا کرواپس آسمانوں پر لے جاتے۔اندرون ملک سودی بنکوں کا
موج میلہ لگا ہوا ہے۔سرمایہ پرست سود خور ٹھگ گروہوں کی چاندی ہوئی پڑی ہے
حکومت کو بھاری شرح پر قرضے دیتے ہیں۔اور یہ غریبوں کے ہی ذبح کا پرو گرام
ہے۔بالآخر کچھ بھی ہو جائے مرغی کو بالآخر ایک روزذبح ہو کر رہنا ہے۔سود در
سود (سود مرکب)کا نظام ایسا ہے کہ اپنی اصل رقم کئی بار ادا کرنے کے بعد
بھی قرضہ جان نہیں چھوڑتا۔کئی بار تو سود دینے والے کاپانچ سات گنارقم واپس
لے کر بھی قرضہ چلتا رہتا ہے واضح قرآنی حکم کہ سودخدا اوراس کے رسولﷺ کے
خلاف براہ راست جنگ ہے۔جس سرزمین پرتمام اونچے طبقات کے لوگ ایساکررہے ہیں
وہاں سیلاب اور زلزلے نہیں آئیں گے تو کیا من وسلویٰ اترے گا؟ماں سے69دفعہ
زنا سے بھی بڑا جرم جس زمین پر مسلسل سرزد ہورہا ہوتو ایسی پلید جگہوں پر
کیوں رحمت کے فرشتے اتریں گے۔ہم واش روم جائیں تو منکر نکیر دونوں کندھوں
سے اتر جاتے ہیں کہ بدبو سے زچ نہ ہونا پڑے اور پاک روحیں بھی پلید جگہوں
پر کبھی نہیں جاتیں۔دوسری طرف پانامہ لیکس میں ملوث 600سود خور سرمایہ
داروں کا تین ماہ میں کچھ نہیں ہو سکا ۔ویسے بھی ہمارے ہاں جو مسئلہ
کمیٹیوں کے سپرد ہو جائے وہ کھوہ کھاتے میں چلا جاتا ہے۔کبھی کوئی چور اپنے
ساتھیوں کے خلاف تفتیش کر سکتا ہے۔حکمران اور اپوزیشن کی بیشتر پارٹیوں میں
ٹھگی پانامی گروہ موجود ہیں۔ تحقیقات کون کرے گا؟ٹی او آرز بھی ٹھگی آف
ریزروز (اپنے سرمایہ کو بچانے کا ٹھگی پروگرام)ہے ۔سیدھا سادھا ہی مسئلہ ہے۔
تین دیہاتی تھانوں کے کھنڈایس یچ اوز تفتیش کریں۔پچپن سال سے اپوزیشن میں
موجود مجھ جیسے نا چیز کو ان 600ٹھگوں کی تفتیش کی نگرانی سونپ دیں۔چولستان
جیسے تپتی ریت کے دریاؤں کے کسی پراناقلعہ کو ہیڈ کوارٹر بنایا جائے تو
سینکڑوں سال سے ان قلعوں میں بھٹکتی خوفناک بدروحوں کے خوف سے ہی ان ملزمان
کا جونہی خون خشک ہونا شروع ہواسارا مال بر آمد ہو جائے گا۔اگر ایسا نہ کیا
گیا تو زرداری کی وکی لیکس اور سرے محل کی طرح پانامہ لیکس بھی قصۂ پارینہ
بن جائیں گی۔ویسے 95فیصد یقین ہے کہ ان 600بدمعاش وڈیروں نے مال ادھر ادھر
کردیا ہو گا۔ دستاویزات بھی تبدیل کروالی ہوں گی ۔پانامہ لیکس سے مال نکلوا
کر کسی دوسرے ملک کی لیکس میں جمع ہو چکا ہو گااور ہم یہاں ٹی اور آرز کی
ڈفلی بجاتے رہیں گے۔اور "روم جل رہا تھا اور بانسری بجتی رہی"مال بھی سامنے
ہے ملزم بھی واضح ہیں تفتیش کاہے کی؟اور یہ بھی بات یاد رکھیں کہ پانامہ
والے ان کے ملک میں ٹیکسوں کے فراڈ کرنے کے جرم میں کم ازکم پاکستانی ٹھگوں
کی ساری رقوم ضبط بھی کرسکتے ہیں۔کہیں دیر نہ ہو جائے وگرنہ ہمارے محترم
وزیر اعظم اور ان کے بچے اتنی بڑی رقوم سے محروم ہی نہ ہو جائیں۔لیگی وزراء
تو دلی دور است ۔دے سیراں چوٹا(مغل شہزادے دلی کے قریب افواج کے پہنچنے پر
بھی باندیوں کو پنگھوڑوں کو ہلانے کا کہہ رہے تھے )کے مصداق وقت کٹی اور
شریفوں کی جان بچی کے ہی نعرہ زن ہیں۔ملٹری کورٹس چولستانی قلعوں میں سماعت
کریں مال سارے کا سارا بر آمدہوکر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ |