ٹی او آرز اور سیاسی چالبازیاں

پانامہ پیپرز میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کے نام آنے سے جہاں دنیا بھر میں تہلکہ مچایا وہی پاکستان کی سیاسی صفوں میں ہلچل مچ گئی۔ پانامہ پیپرز نے دو اقساط میں 600کے قریب خفیہ کاروبار کرنے والے پاکستانیوں کے نام شائع کیے ۔ان خفیہ کاروبار کرنیوالوں کی فہرست میں جہاں دیگر پاکستانی کاروباری حضرات،میڈیا،ججوں،سماجی وسیاسی لوگوں کے نام سامنے آئے وہیں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف صاحب کی اولاد بھی کئی آف شور کمپنیوں کی مالک نکلی ۔پانامہ رپورٹ کے مطابق حسن ،حسین اور مریم نواز کے نام پر نو آف شور کمپنیاں رجسٹر ڈ ہیں۔پا نامہ پیپرزمیں ہونے والے انکشافات پر پورا پاکستان تشویش میں مبتلا ہے کہ کمپنیوں کا پیسہ کرپشن کرکے منی لانڈرنگ سے توباہر نہیں لیجایا گیایا ٹیکس چوری کیلئے توآف شور کمپنیا ں نہیں بنائی گئیں ۔ نواز شریف کی اولاد کے نام پر سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کے معاملہ کی انکوائری نواز شریف کے سیاسی حریفوں کیساتھ ساتھ ہر پاکستانی چاہتا ہے جو دن رات محنت کرکے خون پسینے کی کمائی میں سے ٹیکس دیکر حکومتی خزانہ بھرتا ہے ۔مگر وزیر اعظم صاحب نے تحقیقات کا حکم دینے کی بجائے اسے پاکستان کے خلاف سازش تو کبھی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کہا۔پھر کچھ جلسوں سے عوامی رابطہ مہم بڑھا دی اور قوم سے خطاب کر کے پانامہ میں لگائے گئے الزامات کی صفائیاں پیش کر دی اور ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کا لالی پاپ عوام کو دے دیا اور سمجھا کہ عوام مطمین ہو جائے گی لیکن میاں صاحب کے سیاسی حریفوں اور عوام نے میاں صاحب کے اس خطاب اور ایک رکنی کمیشن کو مسترد کر کے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن اور فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی پھرو زیر اعظم نے سیاسی و عوامی دباؤں کو دیکھتے ہوئے پانامہ لیکس پر تحقیقات کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو کمیشن کیلئے خط لکھاجس کی سربراہی خود چیف صاحب کو لینے کی استداعا کی جو پانامہ رپورٹس میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کرے۔اس کمیشن کے اختیارات اور احتساب کا دائرہ کار کیلئے ٹی او آرز بنائے گئے جن کے تحت تحقیقات ہونی تھی۔مگر حکومت ان ٹی اوآرز میں اپنی چالاکی اور پیشہ وارانہ مہارت سے کا لیتے ہوئے اس طرح کے ٹی او آرز تشکیل دئیے کہ جس میں تحقیق کاروں کو کچھ خاص اختیارات نہ دیے گئے تو چیف جسٹس صاحب نے ان ٹی او آرز کے تحت تحقیقات سے انکار کردیا ۔حکومتی ٹی او آرز کو جہاں چیف جسٹس صاحب نے مسترد کیا اس سے پہلے اپوزیشن کی جماعتیں بھی ٹی او آرز کوناقابل قبول قرار دے چکی تھی۔جب چیف صاحب نے تحقیقات سے انکار کیا تو حکومت پر مزید دباؤں آگیا اور اپوزیشن کے موقف کی تائید ہو گئی۔اس ساری صورت حال کے پیش نظر حکومت نے مشترکہ ٹی او آرز تشکیل دینے کیلئے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنادی ۔اس کمیٹی کئی اجلاس ہوئے مگر مشترکہ ٹی اوآرز طے نہ پائے اوراپوزیشن نے ٹی اوآرز کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا۔جس سے لگتا ہے کہ احتساب کا مناسب وقت گنوایا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن کے ٹی او آرز پر ڈیڈلاک کیوں پیدا ہوا.......؟ تو جناب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ پانامہ پر تحقیقات نہ ہواگر تحقیق اور احتساب کا کام شروع ہو رہا ہے تو قیام پاکستان سے لیکر آج تک جتنے کرپشن ،ڈیفالٹر،قرضہ معاف ،ٹیکس چور،منی لانڈر نگ ، رشوت دینے لینے کے سارے کیسز کو دیکھا جائے تاکہ پانامہ کے علاوہ بھی دوسرے لوگ احتساب کے کٹہرے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہو۔ حکومتی ٹی او آرز میں تحقیقاتی کمیشن کے ہاتھ پاوئں بھی باندھے ہیں کوئی خاص ختیارات نہیں دیے وہ فرد واحد یعنی جس کا پانامہ میں نام ہے صرف اس سے سوال جواب کے اختیار رکھتی ہے اور وزیر اعظم کو احتساب سے ویسے ہی بری قرار دیا ہے۔ سب سے اہم کہ ساری تحقیقات کیلئے کو ئی ٹائم پریڈ متین نہیں یعنی بے شک 2018 ہی آجائے۔ کوئی تحقیق مکمل نہ ہو حکومت کی آئینی مدت پوری ہو جائے اتنے میں شایدمعاملہ ویسے ہی رفعہ دفعہ ہو جائیگا۔ مگر اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ صرف پانامہ پیپرز میں آنے والے ناموں پر ہی تحقیقات ہو اوراس سے مطلق مکمل پانامہ ٹرائل ایکٹ کی قانون سازی ہو جس کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہے وہ وزیراعظم ہو یا صدریا عام آدمی۔ پانامہ پیپرز میں اور بھی افراد کے نام آئے ہیں تو سب کا احتساب اس قانون کے مطابق ہوگا مگر جیسا کہ میاں صاحب نے قوم سے خطاب میں پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے تو سب سے پہلے ان سے اور انکے خاندان سے تحقیقات کی جائیں گی۔وزیراعظم صاحب خود کوپا نا مہ کے الزام سے بری کروائیں اور میاں صاحب کے خاندان کا احتساب صرف تین ماہ میں مکمل کروا کرجورپوٹ آئے اس کو شائع کیا جائے ۔وزیراعظم کے خاندان کے احتساب کے بعد پانامہ کی فہرست میں شامل باقی لوگوں کا احتساب بھی کیاجائے گا۔ بات تو اپوزیشن کی ٹھیک ہے مگر جناب اپوزیشن بھی چالاکی کر رہی ہے صرف پانامہ والوں کے احتساب چاہتی ہے جس میں سیاسی طور پر میاں صاحب ہی بڑا نام ہیں جن کا وہ شکار چاہتے ہیں۔ اپوزیشن پانامہ کے علاوہ دیگر کرپشن کیسز ،بینک ڈیفالٹراور بیرون ملک پڑے پیسوں ،جائیدادوں سے مطلق کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں چاہتی کیونکہ اگر ایساہواتوپیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری سمیت دیگر رہنماء بھی شامل تفتیش ہونگے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی بچ نہیں پائے گی ان کے رہنماء جہانگیر ترین اور دیگر جو مشرف کی جیب میں تھے وہ بھی پھنسیں گے یہ ہی نہیں ق لیگ والے بھی جو مشرف دور میں عیاشیاں کرتے رہے جناب چودھری برادران بھی جال میں آئیں گے۔یہ سب صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن حکومتی ٹی او آرز پر متفق نہیں اور یہ ہی سب سے بڑی ڈیڈلاک کی وجہ ہے ۔جس وجہ سے احتساب کا عمل شروع نہیں ہو پا رہا ۔احتساب حکومت ، اپوزیشن دونوں چاہتے ہیں مگر ایک دوسرے کا اب حکومت ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبے گے پر کام کررہی ہے لیکن اپوزیشن خود کو پریشانی سے بچانا چاہتی ہی اورمیاں صاحب کے ساتھ سا تھ انکی اہلیہ، والدہ ،بچوں، نواسیوں اور پوتوں تک کا احتساب چاہتی ہیں مگراپنے لوگوں کے احتساب سے بھاگ رہی ہے ۔بہر حال صورت حال آپ کے سامنے ہے ٹی او آرز پر چلنے والے اجلاس صرف سیاسی چالبازیاں ہیں اور ہر کمیٹی ارکان اپنے لوگوں بچانے کی ممکنہ کوشش کر رہی ہے ۔ابھی تودونوں جانب سے سخت موقف سامنے آئے ہیں ہو سکتا ہے کہ عوام کو ٹی او آرز کے چکر میں گھما پھرا کر احتساب سے راہ فرار اختیار کیا جائے یا ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ پیدا کرکے فرینڈلی احتساب سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جائے۔ایسا ممکن ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب کرپٹ عناصر موجود ہیں دونوں بے رحم احتساب کے خواہ نہیں ہو سکتے ۔ دھرنے ،تحریکوں اور لانگ مارچ کی باتوں میں سچائی نہیں حکومت اور اپوزیشن جلد کوئی درمیانی راستہ نکال کر احتساب کے نام پر عوام کو بیوقوف بناکر دودھ کے دھولے ہو جائیں گے۔
 
KHAN FAHAD KHAN
About the Author: KHAN FAHAD KHAN Read More Articles by KHAN FAHAD KHAN: 45 Articles with 37963 views Iam Columnist .. View More