بجلی کے بغیر!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
گزشتہ روز میں کالم نہیں لکھ سکا، اس
سے پہلی رات میں نمازِ تراویح کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچا تو گیارہ بجنے
ہی والے تھے، ٹی وی چینل پر خبروں کی جھلکی دیکھی تو بجلی کے چھوٹے وزیر
قومی اسمبلی میں اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے، انہوں نے بجلی کی دستیابی
اور فراہمی کے بارے میں یقینا اور بھی بہت سی حوصلہ افزا باتیں کی ہونگی،
قوم کو خوشخبری سنائی ہوگی کہ’’․․ اگلے دو برس میں لوڈشیڈنگ کا نام و نشان
مٹ جائے گا، جن علاقوں میں بجلی چوری ہورہی ہے وہاں بجلی فراہم نہیں کی
جائے گی، اور یہ کہ رمضان المبارک میں سحرو افطار کے وقت لوڈشیڈنگ بالکل
نہیں کی جارہی، ان اوقات میں بلا تعطل بجلی فراہم کی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ
‘‘۔ مگر ٹی وی چینل نے وزیر موصوف کے جو ارشاداتِ عالیہ اپنے چینل کے لئے
منتخب کئے، وہ بھی اگرچہ بجلی کے متعلق ہی تھے، مگر ذرا مختلف پیرائے میں۔
ان سے معلوم کیا گیا کہ بجٹ کے اس اہم سیشن کے موقع پر بجلی کے بڑے وزیر
ایوان میں کیوں نہیں آئے، تو انہوں نے بتایا کہ ’’․․خواجہ آصف صاحب
ٹرانسفارمر کے لئے ٹرالی لینے گئے ہیں، اس کے لئے ٹریکٹر کی ضرورت نہیں
ہوتی․․‘‘۔ اس پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سخت احتجاج کیا اور وزیر کو
طنزیہ اور تضحیک آمیز گفتگو کرنے پر معذرت کرنے کا کہا، وزیر نے حسبِ روایت
معذرت سے انکار کر دیا کہ میں نے تو ٹیکنیکل الفاظ کا استعمال کیا ہے، تاہم
دباؤ زیادہ بڑھنے پر سپیکر اور ن لیگ کے ایک مرکزی قائد عبدالقادر بلوچ کے
کہنے پر وزیر صاحب نے معذرت کرلی۔
بات شروع ہوئی تھی کالم نہ لکھنے سے ، ہوا یوں کے ہم لوگ بھی بہت سے لوگوں
کی طرح ذرا تاخیر سے ہی سوتے ہیں، بمشکل دو گھنٹے بعد سحری کے لئے اٹھنا
ہوتا ہے، ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ بجلی غائب ہوگئی، کچھ دیر انتظار کیا،
کچھ تعاون یو پی ایس نے کیا، گرمی سے لڑتے، کروٹیں بدلتے اور بجلی کے وزراء
کو ان کے قائدین سمیت بہت ہی خاص الفاظ میں یاد کرتے سحری کا سائرن بج گیا۔
اب کچن میں بھی اندھیرا ہے، اوپر سے گرمی کا تڑکا۔ خاتون اول کا پارہ گرمی
کے ساتھ چڑھنے لگا اور یہ ناچیز اس غیظ وغضب کا واحد شکار۔ محترمہ کی
صلوٰتیں جا تو اسلام آباد ہی رہی تھیں، یا پھر کچھ مزید علاقوں میں، مگر ان
کا سامنا مجھے ہی کرنا پڑ رہا تھا، یعنی اﷲ تعالیٰ کے مقرر کردہ لکھنے پر
مامور فرشتوں کے علاوہ وہ وقتِ سحر جو ’مناجات‘ بھی کی گئیں، وہ گویا میں
نے ہی سنیں، بہت روکا کہ بھئی سحری تیار کرتے ہوئے اﷲ رسول کا ذکر کرتے ہیں،
نہ کہ وفاقی وزراء یا کسی اور کا، اور وہ بھی ذرا مختلف انداز میں۔ میری
ایک نہ چلی، مغلظات کی تسبیح کے دانے گرتے رہے، دعاؤں کے متضاد عمل کی
گردان ہوتی رہی اور موبائل کی دی ہوئی روشنی میں سحری تیار ہوتی رہی۔ میں
ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ تسبیح صرف ہمارے گھر ہی تو نہیں کی جارہی
ہے، یہ کارِ خیر تو متاثرہ علاقے کے تمام گھروں میں ہی ہورہا ہوگا۔ سحری کے
بعد نیا امتحان، گرمی اور بے آرامی۔
اب واپڈا والوں کو فون کی کہانی شروع ہوئی، شکایت وغیرہ کے لئے ایک پی ٹی
سی ایل اور ایک موبائل نمبر بجلی کے بل پر بھی درج ہوتا ہے، مگر وہ قسمت سے
ہی اٹھایا جاتا ہے، بہت دیر بعد معلوم ہوا کہ ٹرانسفارمر جل گیا ہے، یقینا
لوڈ بڑھ گیا ہوگا، خدا خدا کرکے تقریباً گیارہ بجے بجلی بحال کر دی گئی۔
بھاگم بھاگ پانی کی موٹر چلائی، ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ بجلی پھر غائب،
یہی جانا کہ اب ٹرانسفارمر کو سیٹ کر رہے ہونگے، چیکنگ وغیرہ میں چند منٹ
لگ جاتے ہیں، مگر مزید دو گھنٹے لائیٹ نہ آئی، اس دوران واپڈا والوں نے پی
ٹی سی ایل فون ایک مرتبہ سنا اور موبائل کا نہ سننے کا ریکارڈ قائم رکھا۔
ڈھائی بجے کے قریب دوبارہ بجلی آئی اور پورے ڈھائی بجے چلی گئی کیونکہ یہ
اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا مستقل شیڈول ہے۔ ایسے میں میرا کالم لکھنا ممکن نہ رہا
تھا، مگر میں یہ ضرور سوچتا رہا کہ کیا ٹرانسفارمر کی دوبارہ تنصیب چودہ
گھنٹے کا کام ہے، وہ بھی ایسے میں جب رمضان المبارک کی ایمریجنسی بھی ہو؟
پھر خیال آیا کہ رات خبروں میں دیکھا اور سنا تھا کہ بجلی کے بڑے وزیر
ٹرانسفارمر کے لئے ٹرالی لینے گئے ہیں، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس
ٹرالی کے لئے ٹریکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی، سوچا کہ وزیر صاحب ہمارا
ٹرانسفارمر ہی لینے گئے ہونگے، بڑے آدمی ہیں، راستے میں دیگر مصروفیات کی
وجہ سے لیٹ ہوگئے ہونگے، ہم عوام کا کیا ہے، بجلی کے بغیر بھی جی لیتے ہیں۔
|
|