غزوہ بدر ۔۔۔اثرات و نتائج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ضمضم بن عمرو غفاری مکہ میں داخل ہوا ،اس نے اپنے کرتے کو پھاڑا،کھجاوہ الٹا اور اونٹ پر کھڑے ہو کر پکارنا شروع کیا ، اے قریش! قافلہ ۔۔قافلہ۔۔۔ محمد اور اس کے ساتھی ابو سفیان کے قافلے پر دھاوا بولنے جا رہے ہیں، مجھے یقین نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے، مدد۔۔۔مدد۔۔۔یہ سن کر مکہ کے لوگ دوڑ پڑے، معززین مکہ سوائے ابولہب کے شریک لشکر ہوئے، 100گھوڑے ،چھ سو زرہیں اور کثیر تعداد میں اونٹ ،ہر طرح کے نیزوں ،تیروں اور تلواروں سے لیس 1300کا لشکر اتراتا ہوا ،لوگوں کو اپنی شان دیکھتاہوااور لہوو لعب ،شباب و شراب سے مخمور مکہ سے روانہ ہوا،ہر روز نو یا دس اونٹ اہل لشکر کے لیے ذبح کئے جاتے تھے۔ان کی اس حالت کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ وہ اپنی دھار اور ہتھیار لے کر ،اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوئے، جوش انتقام سے چور ہو کر ،جذبہ حمیت اور غضب سے مخمور ہو کر، غصہ سے بھرے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے اہل مکہ کے قافلہ پر ہاتھ اٹھانے کی جرأ ت کیسے کی؟اس پر مزید یہ کہ بنو کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں ابلیس نمودار ہو ا اور اس نے اہل لشکر کو اپنی مدد کی تسلی دی ۔

سپہ سالار لشکر ابو جہل کو مقام جحفہ پر ابوسفیان کا یہ پیغام موصول ہوا کہ آپ لوگ اپنے قافلے اور اموال کی حفاظت کی غرض نکلے ہو ،چونکہ ہم سب حفاظت سے واپس پہنچ گے ہیں لہذا آپ واپس مکہ لوٹ جائیں۔ابوجہل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اہل لشکر واپس نہیں لوٹے اور بدر کی طرف اپنا سفر جاری رکھا جب کہ بنو زہرہ کا سردار اخنس بن شریق اپنے 300آدمیوں کے ساتھ واپس لوٹ آیا،مکی لشکر نے بدر کے قریب پہنچ کر ایک ٹیلے کے پیچھے پڑاو ڈالا۔

وادی ذفران میں نبی کریم ﷺ کو ساری صورت حال سے مطلع کیا گیا ،مجلس شورٰٰٰیٰ کو بلایا گیا ،مہاجرین کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت ابوبکرصدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت مقداد بن اسودؓ اور انصارکی طرف سے سعد بن معاذؓ نے اظہار خیال کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول!آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمائیے،اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے ،اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں ہم آپ کے ساتھ کود پڑیں گے ،ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ حضرت سعد بن معاذؓ کی بات سن کر رسول اللہ ﷺ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ، والہانہ انداز میں آپ ﷺ فرما رہے تھے چلو اور خوشی سے چلو، واللہ اس وقت گویا قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں،ایک موقع آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ارشاد فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔

حضرت خباب بن منذرؓ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے لشکر کفار کے قریب ترین پانی کے چشمے پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈال کر پانی کاحوض بنا لیا جو جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اہم سنگ میل ثابت ہوا،حضرت سعد بن معاذؓ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر اسلامی لشکر کی قیادت کے لیے مرکز بنایا گیا ،17رمضان المبارک 2 ؁ھ کی رات آپ نے لشکر اسلام کی ترتیب بنائی ، اس دوران آپ ﷺ ہاتھ سے اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ان شاء اللہ ، یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ان شاء اللہ۔صبح جب دونوں لشکرآمنے سامنے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی ، اے اللہ !یہ قریش ہیں جو اپنے غرور و تکبر کے ساتھ تیری مخالفت کرتے ہوئے اور تیرے رسول ﷺکوجھٹلاتے ہوئے آگئے ہیں ،،اے اللہ !تیری مدد جس کا تو نے وعد ہ کیا ہے ،اے اللہ !آج تو انہیں شکست دے دے ۔

آپ ﷺ نے لشکر اسلام کوصفیں درست کرنے کے بعد ہدایت فرمائی کہ جب تک آپ کو احکام موصول نہ ہوجائیں جنگ شروع نہ کی جائے،اس کے بعد آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ مرکزی چبوترے کی طرف تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت کی دعا مانگی شروع کی، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے، اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی، اے اللہ ! اگر تو چاہیے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے۔

آپ ﷺ خوب تضرع کے ساتھ دعا کر رہے تھے ،یہا ں تک کہ آپ کے دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔پھر آپ ﷺ یہ کہتے ہوئے چبوترے سے باہر نکلے ،عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا، پھر آپ ﷺ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رخ کرکے فرمایا چہرے بگڑ جائیں اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی، پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں ،نتھنوں اور منہ میں اس مٹی کا کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو(طبرانی)،ارشاد باری تعالیٰ ہے جب آپ نے پھینکا تو در حقیقت آپ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔(الانفال۔17)

تاریخ اسلام کا یہ عظیم معرکہ جب شروع ہوا تو لشکر کفار کی نمائندگی کرتے ہوئے اسود بن الاسد مخزومی نکلا اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب مقابلے میں آئے ، دونوں میں مقابلہ ہوا تو حضرت حمزہؓ نے پہلے وار میں کافر کا غرور خاک ملا دیا اور دوسرے وار کے ساتھ اس کی سانسوں کا رشتہ اس کے بدن سے ٹوٹ چکا تھا، پھر قریش کے تین بہتریں شہسوار میدان میں اترے ان کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عبیدہ بن حارث اٹھو، حمزہ اور علی اٹھیں ، چنانچہ حضرت عبیدہؓ کا مقابلہ عتبہ بن ربیع ،حضرت حمزہؓ نے شبیہ سے اورحضرت علیؓ نے ولید سے مقابلہ کیا،حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے اپنے مدمقابل کو آن واحد میں ڈھیر کر دیا ،جب کہ حضرت عبیدہؓ کا اپنے مد مقابل سے ایک ایک وار کا تبادلہ ہوا جس سے دونوں کو گہرے زخم آئے مگر حضرت علیؓاور حضرت حمزہؓ نے عتبہ بن ربیع کا قصہ تمام کر دیا۔پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی اس دوران اللہ کی مدد ونصرت کو کھلی آنکھوں دیکھا گیا ،آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی ،میں تمھارے ساتھ ہوں،تم اہل اللہ کے قدم جماؤ میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔آپ ﷺ نے ابوبکرؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا ابوبکرؓ خوش ہو جاؤ،تمھارے پاس اللہ کی مدد آگئی ،یہ جبرائیل ہیں جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلے ہوئے آرہے ہیں اور گردو غبار میں اٹے ہوئے ہیں۔(ابن اسحاق)کفار کی لاشیں گر رہی تھیں اور نصرت الہیٰ مکے بارے میں ارشاد باری ہے اے مسلمانوں میدان بدر میں جو کفار کثرت سے قتل ہوئے وہ تم نے قتل نہیں کئے بلکہ انہیں اللہ نے قتل کیا تھا۔(الانفال ۔17)

بدر کا معرکہ مشرکین کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوا اور اس غزوہ میں چودہ مسلمان جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار شہید ہوئے اور مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ ستر شہسوار،کمانڈر اور سردار مارے گے اور ستر قید کئے گے۔جنگ کے اختتام پر رسول اللہ ﷺ مقتولین قریش کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا "تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قیبلہ تھے، تم نے مجھے جھٹلایا جب کہ اوروں نے میری تصدیق کی ،تم نے بے یارومددگار چھوڑا جب کہ اوروں نے میری تائید کی ،تم نے مجھے نکالا جب کہ اوروں نے مجھے پناہ دی ۔اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ انہیں گھسیٹ کر بدرکے ایک کنویں میں ڈال دو۔آپ ﷺ نے تین دن میدان بدر میں قیام فرما کر مدینہ واپس روانہ ہوئے۔اہل مدینہ کو فتح کی خوشخبری دینے کے لیے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور زید بن حارثہؓ بھیجا ،فتح کی خبر سن کر مدینہ کے در ودیوار تہلیل و تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے۔

اس غزوہ کے موقع پر مسلمان بے سرو سامانی کی حالت میں تھے،افرادی قوت بھی کم تھی ، سامان حرب و ضرب بھی نہ ہونے کے برابر تھا،مگر اللہ کریم نے صبر ،تقویٰ اور توکل کی وجہ سے طاقتور ترین دشمن کے مقابلے میں عظیم فتح عطا فرمائی ، کلام اللہ میںیوم بدر کو یوم الفرقان کہا گیا ،یہ حق و باطل کے درمیان فیصلے کا دن ہے ،غزوہ بدر تاریح انسانی میں نا قابل فراموش جنگ کی حیثیت سے محفوظ ہے اور دنیا کو معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو کس طرح فتح عطا فرماتا ہے،اس غزوہ میں اہل ایمان کو خوب آزمایا گیا اور مخلصین کو بھی جانچا گیا ،اس فتح سے جہاں صحابہ کرام کی جذبات کو مزید تقویت ملی وہیں مدینہ کی اسلامی سلطنت کو استحکام بھی حاصل ہوا،کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ اور خوف بیٹھ گیا۔
 
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 251116 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More