تحریک آزادی کا عظیم قائد۔۔۔۔۔مولانا حسین احمد مدنیؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حصہ سوم
شیخ الھند مولانا محمودحسن کی وفات کے بعد آپ کے مایہ ناز شاگرد ، سفر وخضر کے خادم و رفیق شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی ؒ کو شیخ الھند ؒ کے جانشین کی حیثیت سے عوامی اجتماعات میں مدعو کیا جانے لگا،آپ نے مختلف بڑے شہروں میں خلافت کے موضوع لاجواب خطاب فرمائے،جب کہ 1919ء میں انگریزی سامراج کے مظالم سے باخبرکرنے اورانگریز دشمنی کا جذبہ بیدار کرنے کے لیےمولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں تحریک خلافت کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کا پہلا اجلاس 22 نومبر 1919ء کودہلی میں منعقد ہوااجلاس کے اختتام پر علماء کرام نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ علماء کرام کی نمائندہ جماعت جمیعہ علمائے ہند کے نام سے ہونی چاہیے،چنانچہ 28 نومبر 1919 ء کو یہ نظم قائم کیا گیا ۔

جولائی 1921 میں خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام آل انڈیا کانفرنس کراچی میں منعقد کی گئی ،جس میں آپ نے اعلان فرمایا کہ حکومت برطانیہ کی فوج میں بھرتی ہونایا کسی قسم کی فوجی ملازمت کرنایافوجی خدمات کی ترغیب دینا حرام ہے،اور یہی نہیں بلکہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ تعاون اور مولات چاہیے وہ کسی بھی درجے کا ہو ،قطعاً حرام ہے۔

کلمہ حق کی پاداش میں 18 ستمبر 1921 کو آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے،عوامی مزاحمت کی وجہ دن کو گرفتاری عمل میں نہ آسکی ،رات کی تاریکی میں ایک سازش اور دھوکے کے ساتھ آپ کو گرفتار کیا گیا ،اور عجلت میں آپ اور آپ کے رفقاء پرمشہور زمانہ مقدمہ کراچی چلایا گیا،جو ایک یقینی امر تھا۔28 ستمبر 1921 ء کو سب سے پہلے مولانا محمد علی ؒ کا بیان قلم بند کیا گیا،اس کے بعدشیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے مربوط انداز میں اپنا موقف بیا ن کیا ،آپ نے کہا کہ اگر گورنمنٹ مذہبی آزادی چھیننے پر تیار ہے تو مسلمان اپنی جان قربان کرنے کو بھی تیار ہوں گے،اور میں پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کرے گا۔اس بیان کے بعد رئیس الاحرار مولانا محمد علی نے اآپ کے قدموں کو چوما۔خصوصی عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد کیس 29 ستمبر 1921 ء کو سیشن میں بھیج دیا ۔یہاں بھی آپ نے بے خوفی کے عالم میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ جو قرارداد میں نے پیش کی وہ محض قرار داد نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک مذہبی فریضے کا نام ہے، آ پ نے یہ بھی کہا کہ میں ڈنکے کی چوٹ پے اعلان کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے برطانوی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے۔یکم نومبر 1921ء کو مقدمہ کراچی کا فیصلہ سنایا گیا جو میں آپ سمیت تمام رفقاء کو دو دوسال قید با مشقت سز اکے ساتھ ساتھ حضرت مدنی ؒ کو سابرمتی جیل میں نظر بند کیا گیا۔

دو سال بعد رہائی ہوئی،رات دو بجے دیوبند ریلوے اسٹیشن سے آستانہ شیخ الھند ؒ پہنچے، صبح یہ خبر پورے شہر میں پھیلی تو عجیب خوشی و مسرت کا سماں تھا، اہل شہر نے استقبالیہ جلوس کا اہتمام کرنا چاہا توآپ نے فرمایا "کیسا جلوس؟ کیاہم نے حکومت برطانیہ کو شکست دے دی ہے؟مجھے اپنی رہائی کی کوئی خوشی نہیںبلکہ رنج اس بات کا ہے کہ برطانیہ جیتا اور ہم ہارے ہیں ، کیا شکست خوردہ لوگ بھی جلوس و جلسہ کرتے ہیں؟آپ جب جیل گئے تو تحریک آزادی عروج پر تھی،قوم میں ایک جوش و جذبہ تھا ،خلافت کمیٹی زندہ وتابندہ تھی،مگر جب رہا ہوئے تو تحریک خلافت دم توڑ رہی تھی،حکومتی سازشوں کے نتیجہ میں ہندو مسلم فسادات پورے ملک میں پھیل چکے تھے،عوام مایوس ہو چکے تھے۔ان حالات میں شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنیؒ نے دور دراز مقام کے دورے کئے ،عوام میں بیداری کی تحریک پیدا کی،حوصلوں کو تقویت دینے میں آپ نے اپنی پوری قوت صرف کردی۔

شیخ العرب العجم مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے اپنے استاد محترم حضرت شیخ الھند ؒ کے حکم پر مدینہ واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا ، اور آپ کی تشکیل پر کلکتہ کے مدرسہ میں صدر مدرس رہے،پھر دو سالہ اسیری کے بعد دارلعلوم سلہٹ میں شیخ الحدیث کی مسند پر رونق افروز رہے،1346ھ دارلعلوم دیوبند کی انتظامیہ سے اختلاف کی وجہ سے حضرت العلامہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے مسند شیخ الحدیث سے استعفیٰ دیا تو ان کی جگہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتخاب کیا گیا۔مولانا عبدالح یؒ سانق ناظم دارلعلوم ندوۃ العلماءلکھنو تحریر فرماتے ہیں مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے اسی قابلیت اور محدثانہ شان سے تدریس حدیث سرانجام دیں کہ دارلعلوم کی شہرت اور مرکزیت باقی رہی،مدرسہ پر عوام و خواص کا اعتماد برقرار رہا ،تعلیم و تدریس کی خدمات کے ساتھ ساتھ حضرت مدنی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی بے مثال عزم و ہمت کے ساتھ رواں دواں رہے،اور مسلمانوں میں غیرت و حمیت اور عزت نفس کی روح بیدار کی۔(الفرقان)حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ بیسویں صدی میں انگریز سامراج کی سب سے بڑی دشمن حسین احمد کی شخصیت ہے تو یہ دعویٰ ایسا ہی درست ہے جیسا آج انگریزی اقتدار کا زوال آفتاب نیم روز کی طرح ایک حقیقت بن چکا ہے۔(مقدمہ نقش حیات)

7 تا 9 جون 1940ء کو جمیعت علماء ھند کا بارہواں سالانہ اجلاس جون پور میں منعقد ہو اجس میں آپ کو باضابطہ صدر بنایا گیا اور یہ اعزاز تادم حیات آپ کے پاس رہا۔آپ کی قیادت میں جمیعت علماھند اپنا ایک مستقل سیاسی وجود قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ۔لارڈ منٹو کے دورمیں ہندو مسلم زور پکڑ گئے ،حکومت ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ پالیسی پر گامزن تھی،1906ءمیں مسلم لیگ کاقیام عمل میں لایا گیا، مسلم لیگ کی پالیسی ( انگریز موافقت مخالف کے حوالے سے) کانگریس سے الگ تھی، حضرت مدنی ؒ انگریز مخالفت میں کانگریس کے ساتھ ساتھ پیش پیش تھے، جس کی وجہ سے نوجوان مسلم لیگی کارکن اُن کو اپنا مخالف سمجھنے لگے اور اس اختلاف کو جس بھونڈے، جارحانہ انداز سے لیا گیا کہ آزادی کے عظیم قائد اور ہیرو کی جان، عزت آبرو سے کھیلا گیا اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور جو انداز اختیار کیا گیا اس سے انسانیت سو سو بار شرمسار ہوئی۔ گالی گلوچ، طنز وتشنیع، سب وشتم اورلاٹھی ،ڈنڈے ،جوتے حتی کہ تھوک وگندگی حضرت مدنی ؒپر پھینکی گئی یہاں تک کہ داڑھی کو نوچا گیا ۔ جب کہ انگریز سامراج اپنے اقتدار کے لیے سب سے بڑا دشمن آپ کو ہی سمجھتا تھا ،اُن کی طرف سے، جیل قید خانہ، ہتھکڑی، بیڑی، پھانسی کا تختہ کالی کوٹھری ملک بدری طرح طرح کی سزائیں صرف آزادی ہند کے لیے برداشت کیں۔

شیخ العرب العجم مولانا حسین احمد مدنی ؒ عزم وحوصلے کے پہاڑ تھے، شیخ الھندؒ کا مزاج لے کر مصائب و مشکلات کو شکست دیتے آگے بڑھتے چلے گے، آپ نے اپنے اکابر سے عہد کی لاج رکھتے ہوئے برصغیر کے مظلوم انسانوں کو ظالم کے شکنجے سے آزاد کرایا۔آزادی جو عمر بھر کی تگ ود اور جگر سوز جدوجہد کا ثمرہ تھی ، مگر جو نقشہ آپ اور آپ کے رفقاء نے کھینچا تھا اس کے برعکس مسلمانوں کے قتل عام اور ملک میں جاری فسادات بالخصوص مشرقی پنجاب ،یوپی اور دہلی کو دیکھ کر مغموم اور دل برداشتہ ہو کر فرماتے ،ہماری اسکیم فیل ہوگئی، ہماری کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی؛ اگر مسلمان ہماری بات مان لیتے تو یہ تبادلہ آبادی نہ ہوتا اور یہ خون کی ندیاں نہ بہتیں۔“ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، فرید الوحیدی)

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کو جب آزادی وطن کے بعد حکومت ہند وستان نے سب سے بڑا اعزاز "پدم بھوشن "کا تمغہ دیا گیا تو آپ نے شکریے کے ساتھ واپس کر دیا ۔آپ نے 1955 میں آخری سفر حج کیا ،جو غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا،اس وقت آپ کی عمر 80 برس ہو گئی تھی ،سعودی بادشاہ ملک سعود بن عبدالعزیز نے میزبانی کی پیش کش کی ،جو خلاف عادت شکریہ کے ساتھ آپ نے قبول فرمائی۔سفر حج سے واپسی پر 28 محرم 1377 ھ بمطابق 25 اگست 1957ءکو درس حدیث پڑھا کر سب کو الوداع کہا اور یوں مسلمانان عالم ایک عظیم شخصیت اور تحریک آزادی کے لازوال قائد کے دیدار سے محروم ہو گئی ۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275781 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More