مو جودہ دور میں سراغ رسانی کی اہمیت

Abstract
Intelligence system is considered to be one of the important tools used by military and civil secret agencies to defend and strengthen a nation. Intelligence system is thought to be one of the oldest studies of known history. Intelligence system consists of correct and accurate information, gathered after great struggle and facing difficulties. This department is related to both peace and war. Intelligence is a basis of formulating all military strategies and plans. The importance of Intelligence system both in day to day life and as a nation cannot be overemphasized. This article explains importance, different types, need and role of 'Intelligence system' for a nation's stability and defense. In peace time, information can be obtained by using different means including both " Covert and Overt methods". In these methods information is gathered by multiple sources which includes, TV, radio, internet, reference books, maps, trade and professional directories, information collected from different multinational companies, media, cultural delegations, different spies, satellites etc. Information gathered in peace time, plays a pivotal role in the whole intelligence system. This article also throw light on different war strategies and tactics to win the war by Chinese war strategist 'Sun Tzu', narrated in its book 'Art of War'. Different aspects of Intelligence system
of Holy Prophet (PBUH) has also been briefly touched .
سراغ رسانی /جاسوسی کا علم خفیہ علوم میں سے ہے ۔جاسوسی درست اور مصدقہ معلومات کا نام ہے جن کا حصول عمومی طور پر سخت جدوجہد اور کوشش کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جس کا تعلق حالت ِامن اور جنگ دونوں سے ہے۔ جاسوسی تمام جنگ سے متعلقہ تیاریوں اور منصوبوں کی بنیاد ہے۔یہ مدِ مقابل دشمن کی قوت اور ان حالات کی معلومات کا عمل ہے جو دشمن کے خلاف قوت استعمال کرنے کے متعلق ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ دشمن کو میدانِ جنگ میں شکست دینے کی خاطر تیارکی جاتی ہے۔

حالت امن میں یہ معلومات مختلف طریقوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ان میں خفیہ اور کھلے ہوئے دونوں ذریعے شامل ہیں۔ان میں ٹی وی،ریڈیو،ٹیلی فون ،ریفرنس بکس ،نقشہ جات ،تجارتی اور پیشہ وارانہ ڈائریکٹریز، ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی گئی مطلوبہ معلومات، انٹرنیٹ،میڈیا،ثقافتی طائفے،مختلف النوع جاسوس، سٹیلائٹ وغیرہ سے ملنے والی معلومات حالت امن میں حاصل ہوتی ہیں۔جاسوسی کا بڑا حصہ حالت امن میں اکٹھی ہونے والی معلومات پر مبنی ہوتا ہے ۔

جاسوسی کی تعبیر کچھ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ ایسے علم کا مطالعہ ہے،جو دشمن افواج کی طاقت اور ایسے حالات کے بارے میں ہے جن میں دشمن کے خلاف جنگی کاروائی کی جاسکتی ہے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مقصد، میدان جنگ میں دشمن کا متوازن، نہایت درست،صورت حال کا تازہ ترین جائزہ لینا ہے اوراس کی صلاحیتوں اور ارادوں کی ہمہ وقت دستیابی ہے۔ حالت امن میں دشمن کے بارے میں مطلوبہ معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور حالت ِجنگ میں ان معلومات کی روشنی میں(جن کا تعلق خطرے یا جنگ سے ہوسکتا ہے اور جوجنگ کے نتیجہ پر اثر انداز ہوسکتی ہیں )کمانڈرابتدا ء سے انتہا ء تک جنگ لڑتا ہے۔
سراغ رسانی کے علم کے ماہر جناب سن زو اپنی کتاب ’’فن سپہ گری ‘‘میں رقم طراز ہیں:
’’اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ صحیح جگہ پر موجود مخبر یا جاسوس سے حاصل ہونے والی بر وقت معلومات سے کمانڈر جس طرح فائدہ اُٹھا کر ہاری ہوئی بازی کو اپنے نام کر سکتا ہے، تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ علم پیش آگاہی ہی ایک سمجھدار حکومت اور اچھے جنرل کو حملہ کرنے اور فتح کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ علم پیش آگاہی تجربے یا عام طریقوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ دشمن کی طاقت اور صلاحیتوں کا علم جاسوسوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘(۱)

لغوی تعریف
سراغ رسانی کو عربی میں استخبارات کہا جاتا ہے، جبکہ یہ انگریزی لفظ (Intelligence) کا مترادف ہے۔ قبل از وقت آگاہی کو استخبارات یا سراغ رسانی کہا جاتا ہے، قبل از وقت آگاہی کے لئے انگریزی زبان میں Fore-Knowledgeکا لفظ بھی مستعمل ہے۔

اصطلاحی تعریف
موجودہ دور میں ہر مملکت کو اندرونی امن یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت آگاہی (Fore-Knowledge) کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومتیں ایسے ادارے قائم کرتی ہیں جو مطلوبہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں کو استخبارات یا مخابرات کہا جاتا ہے۔ خبر کو ضروری تحقیق و تنقید کے مختلف مراحل سے گزار کر جو مواد میسر آتا ہے اسے متعلقہ حکام تک ضروری کارروائی کے لیے پہنچانا نظامِ استخبارات کا فریضہ ہوتا ہے۔

استخبارات ایک ایسا طریقہ کار بھی ہے جس کے ذریعے دشمن کی استعدادِ کار، حکمت عملی، کمزور پہلو، مضبوط رُخ، دشمن ملک کے دوست اور دشمن، اس کی اندرونی مرکز گریز قوتیں، ان قوتوں کی استعداد کار، دشمن کے ذرائع پیداوار، مجموعی معیشت، صنعت، حرفت، تہذیب، سیاست، مذہب، معاشرتی ترتیب و ترکیب، الغرض ایسے تمام پہلوؤں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں جو اس کی بقا، سا لمیت اور ترقی پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہو سکتے ہوں۔ استخبارتی ادارے ان معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اِن کی تصدیق یا تردید کرتے ہیں اور تجزیاتی رپورٹ بمع مجوزہ حل متعلقہ عمل درآمد کرنے والے انتظامی و غیر انتظامی اداروں کو فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ متعلقہ انتظامی اور غیر انتظامی ادارے ان رپورٹوں کے بارے میں اپنی آراء استخبارتی اداروں کو بھجواتے ہیں۔ اس طرح استخبارتی اداروں کو اپنے عَمَّال، عیون اور جواسیس کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ادارے ساتھ ساتھ اپنی ضرورتوں کا بھی تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور ان ضرورتوں کے مطابق مزید اطلاعات کی درخواست کرتے ہیں۔ اس طرح سلسلۂ استخبارات چلتا رہتا ہے۔

سن زواپنے شہرہ آفاق کتاب ’’ ’فن ِ حرب‘‘ میں جاسوس کے استعمال کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ ایک صاحب بصیرت حکمران یا دانش مند جنر ل پرمنحصرہے کہ وہ کیسے اپنی فوج کے سب سے زیادہ ذہین افراد کو جاسوسی کے مقاصد کے لئے استعمال کریں جس کے ذریعے وہ عظیم الشان نتائج حاصل کرسکیں۔جنگ میں جاسوس فوج کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہوتے ہیں،کیونکہ ان پر کسی فوج کے آگے بڑھنے یا اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کی اہلیت کا دارومدار ہوتا ہے۔‘‘ (۲)

بریگیڈئر ارشاد ترمذی اپنی کتاب ’’حساس ادارے‘ ‘ میں سراغ رسانوں کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ تاریخ گواہ ہے کہ جاسوسی دلیر،محب وطن اور اپنے مقصد سے لگن رکھنے والے لوگوں کا پیشہ ہے ۔اس شعبے کے سرکردہ کارکن قومی مقاصد کے حصول کی خاطر انتہائی خطرناک اور دشوار مہمات کو سرکرنے میں اپنی ساری زندگیاں صرف کردیتے ہیں،ہر مشکل اور کڑی صورتحال کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں، لیکن جدوجہد سے بھرپور طویل زندگی میں وہ بے نام،اجنبی اور تنہا ہوتے ہیں۔ بس ایک اجنبی سا سایہ ،ایک انجانا خوف ان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔جو کبھی کبھی حقیقت بن کر انہیں گمنامی کے گھپ اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ انکی قبروں پر نہ کوئی مینار تعمیر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کتبہ نصب کیا جاتاہے۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انہیں کی قربانیاں انکی قوم کی تقدیر بدل دیتی ہیں اورانہیں کے نام ہمیشہ کیلئے ایک ایسی غیر مرئی فہرست میں شا مل ہو جاتے ہیں جو قوم کی قسمت کے ماتھے کا جھومر بنتی ہے۔‘‘(۳)
استخبارات یا (Intellegence) کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہم ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدارتی فرمان کی مثال کو سامنے رکھتے ہیں، جس کے ذریعے وہاں کے استخباراتی اداروں کے دائرۂ کار کا تعین کیا گیاہے۔ مطلوبہ فرمان میں درج ذیل وضاحت کی گئی ہے:
’’صدارتی حکمنامہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ملکی استخباراتی نظام صدر مملکت کو ضروری اطلاعات فراہم کرے گا۔ ان اطلاعات کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت معاشی، دفاعی اور خارجی امور کے بارے میں ایسی حکمت عملی تیار کرے گی جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مفادات کو بیرونی خطرات اور جارحیت سے محفوظ رکھے گی‘‘۔(۴)
یہ حکمنامہ مزید کہتا ہے:
’’اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے جو قانون کے مطابق ہونگے اور شہریوں کے شخصی اور انفرادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔ تاہم اس امر پر خصوصی توجہ دی جائے گی کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دشمنوں کی تمام کاوشیں جن کے ذریعے وہ امریکہ سے متعلق حساس معلومات اکٹھی کرنا چاہتے ہوں گے، کو ناکام بنایا جا سکے اور دشمن کے ایسے مددگاروں کو بے نقاب کر کے پکڑا جائے جو امریکہ کے خلاف ایسی کوششوں میں تعاون فراہم کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکی ضد استخبارات Counter Intelligence سے متعلق اداروں کو مستحکم کیا جائے گا تاکہ دشمن کی جاسوسی کی کارروائیوں کو ناکام بنایا جا سکے‘‘۔(۵)
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں انٹیلیجنس اینڈ کاونٹر انٹیلیجنس کے تحت لکھا ہے کہ مندرجہ بالا عبارتیں جہاں استخبارات کے مقاصد کو واضح کرتی ہیں۔ وہاں استخبارات کے دو بنیادی عناصر یعنی استخبارات Intelligence اور ضد استخبارات یعنی Counter Intelligence کی بھی وضاحت کرتی ہیں۔ تاہم اس حکم نامے میں استخبارات کے تیسرے اہم اور مختلف فیہ کردار کی کوئی توضیح پیش نہیں کی گئی۔چنانچہ لکھا ہے:
’’ یہ کردار ان اداروں کو اس بات پر مامور کرتا ہے کہ یہ ادارے خفیہ طور پر دوسرے ممالک کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دفاعی معاملات میں دخل اندازی کر کے وہ نتائج حاصل کرتے ہیں، جن کے لیے ان کو اپنا ملک یہ فرض تفویض کرتا ہے۔ ایسے فرائض عموماً Covert Action یا خفیہ کار گزاری کہلاتے ہیں۔‘‘(۶)
مزید تعریفات
لٹریچر کے مطالعہ سے ہمیں جاسوسی کی مختلف تعریفات ملتی ہیں۔اس عمل کو تجسس اور استخبارکہا جاتا ہے اور جو یہ کام کرتا ہے اسکو جاسوس یا مخبر کہا جاتا ہے۔ اب ہم ذیل میں محققین کی جانب سے کی گئی مختلف تعریفات پیش کرتے ہیں:
احمد رضا اپنی کتاب ’’معجم متن اللغۃ العربیۃ ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’تجسس کا مادہ ’’الجسس‘‘ ہے جسکے معنی ہیں ہاتھ سے چھونا۔‘‘(۷)
محمد مرتضی الحنفی ’’تاج العروس ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تلاش کرنا،جستجو کرنا ۔‘‘(۸)
سعید البنانی اپنی کتاب ’’اقرب الموارد ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’کسی خفیہ واقعہ یا خبر کی تہہ تک پہنچنا۔‘‘(۹)
ابو حبیب سعید ’’القاموس الفقہی ‘‘میں رقمطراز ہیں:
’’تفتیش کرنا۔‘‘(۱۰)
’’الافصاح ‘‘کے مصنف عبد الفتاح لکھتے ہیں:
’’پوشیدہ باتوں کوکھول کر واضح کر دینا۔‘‘(۱۱)
ابراہیم مصطفیٰ ’’المعجم الوسیط ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ اس کی جمع جواسیس اور اجسسہ ہے ۔‘‘(۱۲)
عبد اﷲ السلامۃ اپنی تصنیف ’’الاستخبارات العسکریۃ ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’بصاص اورعین(اعین) بھی اسی معنی میں مستعمل ہے، امام بخاری نے جلد اول میں باب الجاسوس و التجسس والتبحث اسی معنی میں مرتب فرمایا ہے۔ جاسوسی میں حواس خمسہ ہاتھ،آنکھ، منہ،سونگھنے اور سننے کی صلاحیتوں استعمال ہوتی ہیں۔‘‘(۱۳)
احمد رضا ’’معجم المتن اللغۃ العربیۃ ‘‘میں ایک اور جگہ رقم طراز ہیں:
’’ جاسوسی کبھی حصول خیر اور کبھی حصول شر دونوں کیلئے کی جاتی ہے۔‘‘(۱۴)
امین فتحی ’’قاموس المصطلاحات العسکریۃ ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’جاسوس وہ ہے جو دشمن ملک کے معمول کی یا نئی باتوں کی خبریں حاصل کرے۔‘‘(۱۵)
منصور علی ناصر اپنی تصنیف ’’الجامع الاصول ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ جاسوسی وہ ہے جو مسلمانوں کی خبریں کافروں تک پہنچاتا ہے۔‘‘(۱۶)
مگر یہ تعریف جامع نہیں ہے ۔کیونکہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے اپنی تصنیف ’’العلاقات الدولیۃ ‘‘میں لکھا ہے:
’’جاسوس وہ شخص ہے جو خفیہ معلومات رکھتا ہے یا دشمن کی نقل و حرکت کی خبر لاتاہے۔‘‘(۱۷)
’’دائرہ معارف القرن العشرون ‘‘میں محمد فرید وجدی تحریر فرماتے ہیں:
’’اسی طرح مخبری خفیہ خبریں دشمن ملک کے ساتھ اپنی حکومت کیلئے اپنے افراد کی جاسوسی کرنے کا نام بھی ہے۔‘‘(۱۸)
اس مفہوم کی ادائیگی کیلئے دوسرا لفظ ’’استخبار‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ، محمد اعلیٰ بن علی تھانوی اپنی کتاب ’’موسوعۃ اصطلاحات العلوم الاسلامیۃ ‘‘میں فرماتے ہیں :
’’استخبار‘‘ باب استفعال سے مصدر ہے۔اس کے معنی ہیں خبریں حاصل کرنا۔‘‘(۱۹)
’’لسان العرب ‘‘میں ابن منظور فرماتے ہیں:
’’اس کا مادہ ’’الخبر‘‘ ہے ، اس کی جمع اخبار ہے۔‘‘(۲۰)
’’تاج العروس ‘‘میں محمد مرتضی الحسینی نے یہ بھی لکھا ہے :
’’محدثین خبر کے لفظ کو حدیث نبوی ﷺ کے معنیٰ میں لیتے ہیں۔‘‘(۲۱)
’’الموسوعۃ العسکریۃ ‘‘میں الھیثم الایوبی نے لکھا ہے:
’’اصطلاح میں استخبار (Intelligence)کا مترادف کہا جاتا ہے۔‘‘(۲۲)
چنانچہ موسوعہ العسکریہ کے مطابق اس کی تعریف یہ ہے:
’’دشمن کی سیاسی،نفسیاتی،اقتصادی،فوجی ہر قسم کی خبریں حاصل کرنا۔‘‘(۲۳)
الاستخبارات العسکریہ فی الاسلام میں اس کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے:
"The Intelligence Deptt. dealing with the Foreign countries and several parts of the world interests,collecting information and take action in regard to Trade, Commerce they are attached also
forces."(24)
’’جاسوسی کا ادارہ (انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ) غیر ممالک اور دنیا کے مختلف حصوں کی ترجیحات و خواہشات سے بحث کرتا ہے اور متعلقہ معلومات جمع کرتا ہے۔جس میں ان ممالک کی تجارت،معیشت اور فوج سے متعلقہ امور شامل ہیں۔‘‘
اہمیت
سراغ رسانوں سے مدد لینے کی اہمیت کا اندازہ ابن سعد کی مندرجہ ذیل عبارت سے لگایا جاسکتا ہے :
’’حضورﷺ کی نظرمیں سراغ رسانوں کی بڑی اہمیت تھی ۔آپﷺنے سراغ رسانوں سے مدد لینے کی اہمیت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ رسالت مآبﷺ اپنے تمام سالاروں کو روانہ فرماتے وقت ہمیشہ تفصیل سے احکامات دیتے اور یوں تاکید فرماتے :
۱)محض اﷲ تعالیٰ کی خو شنودی کو پیش نظر رکھیں۔
۲)وہ صرف غیر معروف راستوں سے راستوں سے سفر کریں۔اور راہبروں کی خدمات بھی ضرور حاصل کریں۔
۳)دشمن کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کیلئے جاسوسوں کی خدمات بھی حاصل کریں،تاکہ ان کی فراہم کردہ اطلاعات کی روشنی میں ان کو دشمن کے مقابلے میں ممکنہ جوابی اقدامات کرنے میں آسانی ہو۔‘‘(۲۵)
ضرورت
استخبارات کی ضرورت اولادِ آدم کو ہر دور میں رہی ہے۔ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے تئیں پوری توجہ دی ہے۔ جس ملک اور قوم نے استخبارات کے شعبے کو صحیح طریقے پر استعمال کیا ہے، اسے کامیابیاں اور نیک نامی نصیب ہوئی اور جنہوں نے اس ضروری شعبۂِ حکمرانی سے صرف نظر کیا ہے وہ نقصان اٹھاتے رہے۔
جنگ دو فریقوں کے درمیان تمام تر طاقت کے تصادم کا نام ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اس بارے میں مختلف مقامات پر حکم آیا ہے، مثلاً:
’’وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ۔‘‘(۲۶)
’’اور اُن سے اس وقت تک لڑیں جب تک کہ فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اور تمام امور زندگی اﷲ کے حکم کے تابع نہیں ہو جاتے۔‘‘
نیز ارشاد باری ہے:
’’وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً۔‘‘(۲۷)
’’ اور مشرکین کے ساتھ حرب الکآفۃ (Total War) لڑو جس طرح وہ تمہارے ساتھ حرب الکآفۃ (Total War) لڑتے ہیں۔‘‘
جاہن ایم ہاوس، ملٹری انٹیلیجنس میں لکھتا ہے کہ جب تک دشمن اور متوقع دشمن دونوں کی تمام تر طاقت کا علم نہ ہو جائے۔ اس وقت تک جنگ کی تیاری نا مکمل ہوتی ہے۔ جنگی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ دفاعی پالیسی سازوں کو معلوم اور ممکنہ دشمنوں کی مکمل استعداد کار، قوت کار، تزویراتی چالوں، جنگی حربوں، جنگی منصوبوں اور دفاعی پیداوار کا مکمل ادراک ہو۔ مزید وہ لکھتا ہے:
’’جب تک یہ تمام معلومات حاصل نہ ہوں، کوئی مملکت حتمی دفاعی منصوبہ سازی کر سکتی ہے اور نہ ہی خم ٹھونک کر کہہ سکتی ہے کہ زیست و موت کے معرکہ میں وہ سرخرو ہو کر نکلنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘(۲۸)
اسی طرح سن زو نے بھی کیا خوب کہا تھا:
’’اگر تم اپنے آپ کو جانتے ہو اور اپنے دشمن کو بھی جانتے ہو، سو بار دشمن سے جنگ کرو، تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ لیکن جب تم اپنے بارے میں تو جانتے ہو اور دشمن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، تو تمہاری فتح اور شکست کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی، لیکن اگر آپ خود آگاہ ہو اور نہ ہی عدو آگاہ تو ہر جنگ میں شکست تمہارا مقدر ہو گی۔‘‘(۲۹)
دی انسائیکلوپیڈیا آف اسپینیج کے مطابق دشمن اور متوقع دشمن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کے لیے استخباراتی ادارے دو طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہیں، ظاہری ذرائع (Overt Means) اور خفیہ ذرائع(Covert Means) ظاہری ذرائع میں اخبارات، جرائد، ریڈیو، ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ نیز لکھا ہے:
’’یہ وہ ذرائع ہیں جن تک ہر شخص کی رسائی ممکن ہے۔ پوشیدہ یا خفیہ ذرائع میں جاسوسی، قراولی دستے، استفسار و تفتیش، سماع گاہیں، استماع Eves Dropping اور دیگر پوشیدہ ذرائع شامل ہیں۔‘‘(۳۰)
اگرایک ایسے آئیڈیل معاشرے کا تصور کیا جائے، جس میں ہر شخص ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اوران کی ذاتی زندگی میں بلاوجہ مداخلت نہ کرنے کی سوچ کا حامی ہو اور بڑے پیمانے میں ایک ملک اپنے ہمسایہ ممالک کے حقوق کا د ل وجان سے ماننے والا ہو تو ایسے حالات میں کسی شخص کی ذاتی زندگی کے بارے میں بالعموم اور کسی ملک کے بالخصوص اندرونی اور بیرونی حالات کی نگرانی بلا ضرورت ،غیر سودمنداور دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی ہے جوکہ قابل مذمت ہے۔
اب اگر انسانی تاریخ پر عام طور پر اور اسلامی تاریخ پر خاص طور پر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاشرہ دوسرے ہم عصرمعاشرہ سے باہم دست و گریبان رہا ہے۔ہرکوئی ایک دوسرے کواپنے زیر نگین کرنے کی فکر میں غلطاں و پریشان ہی نظرآئے گا اور اس مقصد کے حصول کیلئے ہر جائز اور ناجائز ہتھکنڈوں کو باہم آزمایاگیا۔اسلامی تاریخ پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ عام طور پر عرب اور خاص طور پر قریش ناصرف مسلمانوں کے وجود کے درپے رہے بلکہ اسلامی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے عملی طور پر کئی دفعہ مدینہ منورہ پر چڑھ دوڑے۔موجودہ دور کی بہترین مثال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے عموماََ اور انڈیا سے خصوصاََجو سلامتی کے خدشات لاحق ہیں ان سے کوئی تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی ناآشنا نہیں۔
جاسوسی جنگی حکمتِ عملی کا مؤثرترین ہتھیار ہے جو تاریخ کے تمام ادوار میں فنونِ حرب میں سرِفہرست نظر آتا ہے۔ جاسوسی ایک ایسی پرسرار جنگ ہے،جسے ہر وقت جاری رکھنا پڑتا ہے۔اس لئے کہ دشمن کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہے اور اس کیلئے میدان جنگ میں خمیازہ بُھگتنا پڑتا ہے۔عصر حاضر میں انٹیلی جنس اور کاؤنٹرانٹیلی جنس دونوں طرح کی سرگرمیوں کوجاری رکھا جاتا ہے۔اوّل الذکر میں تو دشمن کے خفیہ رازحاصل کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے جبکہ موخرالذکر میں اپنے راز وں کی پردہ پوشی کیلئے ان سے انکار کیا جاتاہے۔اطلاع اس وقت جاسوسی بن جاتی ہے جب اسکی جانچ پڑتال ہوجائے اور یہ ایک حقیقت معلوم ہو،محض قیافہ کرنا قطعاً جاسوسی نہیں ہے۔چاہے وہ قیافہ کتنا ہی باضابطہ کیوں نہ ہو، اس طرح اخذ کئے گئے نتائج انتہائی ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔جنگیں چاہے جارحانہ ہوں یا مدافعانہ،انکی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے،مختلف النوع انتظامی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں،منتخب افراد کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے، انکا امتحان لیا جاتا ہے اور پھر کہیں جاکر ان کوکمانڈر مقرر کیا جاتا ہے۔
سراغ رسانی کے نکات
ایک کمانڈر کو اپنے زیر کمان جاسوس ایجنٹ سے مندرجہ ذیل معلومات درکار ہوتی ہیں۔
۱۔ دشمن کی طاقت اور کمزوریاں
۲۔ دشمن کی صلاحیت
۳۔ موسم کی صورت حال
۴۔ جغرافیائی حالات
۵۔ زمینی معلومات
۶۔ دشمن کی تربیت کے بارے میں معلومات
۷۔ دشمن کے اندرونی اور بیرونی حالات وغیرہ
یہ بات ہمیشہ کمانڈر کے مد نظر رہنی چاہئے کہ جاسوس یقین کے ساتھ دشمن کے کسی اقدام کی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔اس لئے اس سے پیشین گوئی، اندازے یا دشمن کے کسی ممکنہ اقدام کی ترجیح کی امید نہیں کی جانی چاہئے۔مزید برآں نتائج اخذ کرنے کیلئے اشارے اساس نہیں بننے چاہئیں،بلکہ اشاروں کے شعبے میں حقیقت کے لئے تلاش میں شدّت پیدا کرنے کو اشارے کے طور پر استعمال ہونا چاہئے۔
مختلف یُونٹوں کے عملے کویہ باورکراناچاہئے کہ سراغ رسانی میں مبارزت بنیادی طور پردشمن کی جائے پڑاؤاور اس کی طاقت اور تعداد معلوم کرنے کے لئے ہے اور یہی پوری کمان بلکہ ہر ایک کی خواہش ہونی چاہئے۔مخبر سے اس بات کی توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ ایسے نتائج شائع کرے کہ دشمن کیا کرنے والا ہے ؟یا کسی بھی طرح اسکے کیا ارادے ہیں۔؟
سراغ رسانی اور کامیابی
دشمن کی صورت حال کا فوجی یُونٹ اور اس کے لڑنے والے مشن پر براہ راست اثرہوتا ہے۔یُونٹ کے کمانڈر کا یہ فرض ہوتاہے کہ وہ اپنے شاطرانہ مشن کے ذریعے دشمن کی قابلیّت کا تعیّن کرے اور یہ دیکھے کہ وہ کس طرح اس سے نبردآزماہوسکتا ہے۔دشمن کی صورت حال کا فوجی یُونٹ اوراعلیٰ ہیڈکوارٹرزپر براہ راست اثر ہوتا ہے خصوصاً ہیڈ کوارٹرزکہ وہ کس طرح اپنی ماتحت یُونٹوں کو فرائض اور ہتھیار وغیرہ سونپے۔مزید برآں یہ بھی اہم ہے کہ یُونٹ کا کمانڈر جس کے ذمے شاطرانہ مشن کی تکمیل ہے،اپنے مشن کی تکمیل کیلئے دشمن کی قابلیّت کا تعیّن کرے۔
دشمن کے متعلق معلومات جمع کرنے کیلئے دو لوازمات ازحدضروری ہیں:
۱۔ دشمن کا جائے مقام
۲۔ دشمن کی طاقت ، عمل اور سازوسامان
ان دونوں لوازمات کے ساتھ دشمن کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اسکے بغیر دشمن کے متعلق صلاحیتوں کا کچھ بھی تعیّن نہیں کیا جاسکتا۔دشمن کی تقسیم وترتیب اس کی صلاحیتوں کے تعیّن کرنے میں معاوننہیں ہوتی ۔ممکن ہے کہ یہ تقسیم و ترتیب ارادی یا حادثاتی ہو جس سے اس کے اقدام کو سمجھنے میں غلطی لگے۔
جہاں تک کمانڈر کا تعلق ہے،اس کے لئے دشمن کی جائے مقام اور طاقت کے متعلق معلومات اہمیّت رکھتی ہیں۔ صلاحیتوں کا اندازہ انہی معلومات سے ہی ہوتا ہے۔ان کی روشنی میں وہ اپنے اقدامات کو ترتیب دے گا، انکے بغیر وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہے گا۔انٹیلی جنس کو دشمن کے متعلق فائدے حاصل کرنے کیلئے منظّم کیا جاتاہے۔ اس میں گھات وغیرہ لگانا شامل ہے۔ان کے ذریعے دشمن کی عددی قوّت،ہتھیاروں کی تعداد،جنگی منصوبوں اور راستوں کے انتخاب وغیرہ بہت سے اہم معاملات کی خبر حاصل کی جاسکتی ہے۔اسکے ذریعے محاذپرہی دشمن کے مزاج اوراقدامات کو سمجھناضروری نہیں ہوتا۔بلکہ ایک دی گئی فارمیشن کو اقدا مات کے سیکٹریا زون میں سمجھنا بھی ضروری ہوتاہے۔اسکے ذریعے دشمن کی معمولی سی حرکت پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔اسکے دور کے ریزرو کو بھی مدّنظررکھاجاتا ہے۔اسکے علاوہ دشمن کی آمد ورفت کے راستوں کو بھی اپنے سامنے رکھا جاتا ہے۔ان معلومات کی بناء پر دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رائمنڈ ایل گردوف لکھتا ہے:
’’جاسوس کی ارسال کردہ اطلاع کے درست ہونے کے بارے میں دیکھنا پڑتا ہے۔روس کو ۱۹۴۴؁ء کے اواخرمیں جرمنی کے حملے کے منصوبوں اور وقت کی پہلے سے اطلاع مل گئی تھی۔یہی اطلاع ایک معتبر دیرینہ ایجنٹ کے ذریعے بھی ایک ماہ بیشتر مل چکی تھی ۔جسے ٹوکیو میں جرمن سفارت خانے کا اعتماد حاصل تھا۔‘‘(۳۱)
لیکن ان پیشگی اطلاعات کے باوجود جرمن حملے سے روسی مسلّح افواج ششدر رہ گئیں۔بعض دفعہ ایجنٹوں کی بھیجی گئی اطلاعات غلط بھی ثابت ہوتی ہیں یا ان میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔
کمانڈر کی صفات
ذیل میں ان چند خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے جو ایک کمانڈرمیں ہوناازحد ضروری ہے۔
٭ایک کمانڈر کوحقیقت پسند ہونا چاہئے۔اس کے مطالبات زمینی حقائق سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔اسے ان حالات وواقعات کا ادراک ہونا چاہئے،جن کا اسے اور اس کے ماتحتوں کو سامنا ہے۔اسے نفع و ضرر سے متعلق بخوبی آگاہ ہونا چاہئے۔
٭ایک کمانڈر کو اپنے مقصد کی صداقت پر کامل یقین ہوناچاہئے اور اس کے حصول کیلئے راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاناچاہئے۔
٭ایک کمانڈر کوفطرتاًً حوصلہ مند ہونا چاہئے،یہاں تک کہ اگر وہ کسی وجہ سے تنہا بھی رہ جائے،تب بھی وہ اتنا جرأت مندہوکہ درپیش مشکلات سے انتہائی احسن طریقہ سے نبردآزما ہوجائے۔
٭ایک کمانڈر کو زبردست قوت ِ ارادی کا مالک ہونا چاہئے۔حالات کیسے بھی ہوں ،اسے مایوسی سے بچنا چاہئے۔
٭ایک کمانڈر کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل ادراک ہونا چاہئے اور انہیں نبھانے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔بالخصوص دنیاوی مال و اسباب کی کشش اور زندگی کی محبت کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔
٭ایک کمانڈر کے لئے از حد ضروری ہے کہ وہ دور اندیش اور صاحب بصیرت ہو۔اپنی منزل کا تعین کرچکا ہو۔وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا حامل ہو اور مستقبل کی پیش رفت کا مکمل شعور رکھتا ہو۔اسے اس قابل بھی ہونا چاہئے کہ وہ ماضی ،حال مستقبل کا تجزیہ کرکے کوئی حتمی لائحہ عمل ترتیب دے سکے ۔
٭ایک کمانڈر کیلئے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے انفرادی طور پر شناسا ہو۔ان کے مزاج،کردار،خوبیوں ،خامیوں ،حوصلہ مندی اور کمزوریوں سے باخبرہو۔اس سے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ مختلف اہم امور کیلئے اہل اور باصلاحیت افراد کو منتخب کرسکے۔
٭ایک کمانڈر کو مضبوط کرداراور اعلیٰ اخلاق واوصاف کا مالک ہونا چاہئے۔اسے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں ثابت قدم ہونا چاہئے،تاہم ان میں سے کسی حد تک لچک بھی ہونی چاہئے۔اسے معلوم ہونا چاہئے کہ کب لچک کا مظاہرہ کرنا ہے،کن حالات میں سخت فیصلے کرنے ہیں اور کس موقع پر رحم دلی سے کام لینا ہے۔ اسے سنجیدہ،باوقار لیکن حلیم الطبع اور منکسرالمزاج ہونا چاہئے۔اسے راست باز ، حق گو،بااعتماد اور منصف مزاج ہونا چاہئے۔
٭ایک کمانڈر کوایک تو خواہشات کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔دوسرے اپنے اختیار سے تجاوز نہیں کرناچاہئے۔اسے اپنی آرگنائزیشن کے مفلس ترین شخص کی سطح پر زندگی بسر کرنی چاہئے اور ماتحت سے کسی امتیاز کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔اپنی ذات پر انہیں ترجیح دیتے ہوئے ان سے محبت اور شفقت کا اظہار کرنا چاہئے۔اس طرح خود کو اس مقام پرلانا چاہئے کہ ماتحت اس کا دم بھرنے لگیں۔اسے اپنے ملک کے مفادات کا ضامن ہونا چاہئے اور کسی صورت میں ملکی مفادات پرکسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔
سراغ رساں کی صفات
کامل وفا داری، ذہانت اور ذکاوت، سفر کا تجربہ،ان ممالک کا پُورا علم جہاں اُسے بھیجا جارہاہے، گرفتاری کے بعد جسمانی اذّیت برداشت کرنے کی قوّت تاکہ اپنی معلومات کا راز فاش نہ کردے۔سن زو اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتا ہے:
’’ روشن خیال حکمران اورقابل قدرجرنیل زیرک لوگوں کو ایجنٹ کے طورپر استعمال کرتے ہیں اور عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔لڑائی میں خفیہ اقدام لازم ہیں، ان پر فوج کی نقل و حرکت کا انحصار ہوتا ہے۔‘‘(۳۲)
کمانڈر کو اپنے مخبروں سے ناممکن مطالبات نہیں کرنے چاہئیں،بعینہٖ مخبروں کو اپنے طور پراپنے کمانڈر کے ذہن کو سمجھنس چاہئے اوراسکے زاویہ نگاہ کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو کمانڈر کی کارکردگی بہتر بنانے پرصرف کردے۔ کمانڈر کے زیادہ اہم شعبوں میں سراغ رسانی اور آپریشن و کاروائی شمارکئے جاسکتے ہیں۔عملے اور رسد کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔
لیکن اوّل الذکر کی نسبت یہاں فیصلے زیادہ دُور رس ہوتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ کمانڈر کی توّجہ کے طالب نہیں ہوتے۔ اسٹاف کوان اصطلاحات کا علم ہونا چاہئے، جو کمانڈر کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔اس طرح اسٹاف آفیسر اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے کمانڈر کے ساتھ زیادہ مؤثر انداز میں کام کرسکتا ہے۔
سراغ رساں کا دائرہ کار
جاسوس یا سراغ رساں کو اپنے طور پر کوئی پیشین گوئی، فیصلہ یا منصوبہ نہیں بنانا چاہئے۔کیونکہ ایسا کرنا اس کیلئے ازحد مُضر ہوگا۔کیونکہ عملہ، سراغ رساں اور رسد وغیرہ کا انتظام کرنے والے محض کمانڈر کی اعانت کرتے ہیں، ان کا خود کوئی وجود نہیں ہوتا۔بلکہ مجموعی طور پر ان کے اذہان اس کے مرکزی ذہن کی تشکیل کرتے ہیں۔وہ انکی مدد سے کمان چلاتا ہے ۔یہ ضروری ہے کہ کمانڈر اوراسکے مخبروں کے درمیان باہمی احترام اور وفاداری ہو۔اسکی عدم موجودگی میں یہ تعلق مناسب طور پر کام نہیں کرسکتا۔یہ ضروری ہے کہ جاسوس اپنے مقصد میں دیانت دار ہواوراسے کمانڈر کے ذہن کے مطابق سوچنا چاہئے۔جاسوسی کمانڈر کیلئے ہوتی ہے اور اسے اسی طرح ہی کام کرنا چاہئے کہ کمانڈر کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ایک اچھے جاسوس کو درج ذیل شرائط کو پُورا کرنا چاہئے۔
سراغ رسانی کا دائرہ کار
استخبارات کا عمل اور طریقۂِ کار منظم اور منضبط ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا طے شدہ طریقۂِ کار ہے جو خام خبر کو کار آمد اطلاع میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے خفیہ اور ظاہر ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی توثیق اور عدم توثیق کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اسی اطلاع کوتجزیاتی مراحل سے گذار کر ان افراد یا اداروں کو مہیا کی جاتی ہے جو اس سے مستفیض ہونے کے حقدار ہوتے ہیں یا پھر جن کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ حق استفادہ اور ضرورت استفادہ کا انحصار قومی منفعت (National Intrest) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ استخباراتی دائرہ کار کے درج ذیل مراحل ہوتے ہیں:
منصوبہ بندی اور ہدایات
ابتدائی طور پر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ اجتماعی منصوبہ سازی میں کس قسم کی اور کس شعبے سے متعلق اطلاعات کے حصول کو اولیت دی جائے۔ یہ بات طلب اور ضرورت کے اصولوں پر طے کی جاتی ہے۔ پھر متعلقہ استخباراتی عاملین کو یہ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے۔ تاہم ان عیون و جواسیس اور عاملین استخبارات کو وقتاً فوقتاً حالات اور ضروریات کی تبدیلی کے مطابق ہدایت دی جاتی ہیں۔ اس طرح اطلاعات کے فراہم کنندگان اپنے طریقہ کار یا لائحہ عمل میں ضروری تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔
حصول اطلاعات
جب طلب کنندگان کی طرف سے اپنی اپنی ضروریات کے مطابق استخباراتی اداروں کو معلومات کی فراہمی کے لیے درخواست کی جاتی ہے تو استخباراتی ادارے طلب اور اپنے وسائل کا تجزیہ کر کے متعلقہ ذرائع (Sources) اور عیون و جواسیس کو ضروری ہدایت کے ساتھ متعلقہ معلومات کی فراہمی کی ہدایت کرتے ہیں۔ معلومات کے حصول کے بعد ان کی اطلاعات کے تجزیے کا مرحلہ آتا ہے۔
تجزیہ کاری
اس مرحلے پر ماہرین مہیا کی گئی اطلاعات کا تجزیہ کرتے ہیں، روایت اور درایت کے مسلمہ اصولوں کی مدد لی جاتی ہے۔ پہلے سے موجود مواد کی مدد سے خبر کی ہیئت، ضرورت، افادیت، صحت اور مراسلہ نگاروں کی حیثیت و قابلیت کو جانچنے میں بھی مدد لی جاتی ہے۔ اس طرح خبر کی افادیت اور اہمیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اب یہ اطلاع اس بات کے لیے تیار ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یاد رہے کہ تجزیہ کاری کے مرحلے میں روایت اور درایت کے مسلمہ اصول کام میں لا کر حاصل شدہ معلومات کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ تجزیہ کاری کا مرحلہ استخباراتی دائرہ کار کی روح ہوتا ہے۔
تیاری
یہ وہ مرحلہ ہے جس میں استخبارات کے طلب گاروں کے سوالات کو مد نظر رکھ کر وصول شدہ اطلاعات سے جوابات اخذ کیے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اطلاعات مہیا کنندگان نے اپنی مہیا کردہ اطلاعات کے ساتھ بہت سی ایسی اہم اور مفید معلومات بھی ارسال کی ہوں جن کا تعلق پوچھے گئے سوالوں سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں یہ زائد اطلاعات طلب کنندگان کو ارسال نہیں کی جاتیں۔ ایسے موقع پر ’’ضرورت کے مطابق جانو‘‘ (Know to need) کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں صرف ان سوالوں کے جوابات تیار کر کے متعلقہ محکموں کو بھجوائے جاتے ہیں جو انہوں نے پوچھے ہوں۔ تاہم بعض رپورٹیں بغیر طلب بھی بھیجی جاتی ہیں تاکہ متعلقہ ادارے متوقع صورتِ حال کا بر وقت مقابلہ کرنے کی تیاری کر لیں۔
ترسیل
دی انسائیکلوپیڈیا آف اسپینیج میں مذکور ہے کہ تیار شدہ جوابات یا تیار شدہ رپورٹ کو اب طلب کنندگان یا متعلقہ اداروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ترسیل کا عمل تیز ترین وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا جاتا ہے، کیونکہ :
’’اطلاع وہی ہے جو بروقت ہے۔ بے وقت یا دیر سے دی جانے والی اطلاع کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘(۳۳)
سراغ رسانوں کی قسمیں
سراغ رسانوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے سن زو لکھتا ہے:
’’سراغ رسانی میں پانچ قسم کے خفیہ ایجنٹ استعمال کئے جا سکتے ہیں،وہ درج ذیل ہیں:
’’۱۔ ملکی ایجنٹ ۲۔اندرونی ایجنٹ ۳۔دوگانہ ایجنٹ
۴۔قابل صرف ایجنٹ ۵۔زندہ ایجنٹ
جب یہ پانچ قسم کے ایجنٹ ایک ساتھ کام کر رہے ہوں اور کسی کو ان کے طریقے کار کی خبر نہ ہو تو انہیں ’’مقدّس ریشمی لچھا‘‘کہا جاتا ہے اوروہ حاکم کا خزینہ ہوتے ہیں۔ملکی ایجنٹ وہ ہوتے ہیں،جو دشمن ملک سے ہیں اور انہیں ہم استعمال کریں۔اندرونی ایجنٹ دشمن کے وہ سرکاری ملازم ہیں،جنہیں ہم استعمال کریں۔دوگانہ ایجنٹ دشمن کے وہ جاسوس ہیں ،جنہیں ہم استعمال کریں۔قابل صرف اپنے جاسوس ہیں،جنہیں جان بوجھ کر من گھڑت معلومات دی جائیں۔زندہ ایجنٹ وہ ہیں،جو خبریں لیکر واپس آئیں۔‘‘(۳۴)
عصر حاضر میں سراغ رساں کی ا قسام
عصر حاضر کے حوالہ سے سید واجد رضوی نے اپنی کتاب ’’رسول اﷲ ﷺمیدان جنگ میں‘‘میں جاسوسوں کی حسب ذیل ا قسام بیان کی ہیں:
’’۱۔ قومی جاسوس ۲۔ اندرونی جاسوس، یعنی خود دشمن کے افسر
۳۔ اسیران جنگ ۴۔مصنوعی جاسوس یعنی ایسے جاسوس جن کے ذریعے آپ غلط اطلاعات دشمن کو فراہم کریں گے۔ ۵۔ دلیر جاسوس،جو دشمن کے کیمپ تک پہنچ کرخبریں لاتے ہیں۔‘‘(۳۵)
مغرب میں اعلیٰ ترین فوجی ادارے ایسے طریقے معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں،جن کے ذریعے دشمن کے عزائم کا پتا چلایا جاسکے۔کہا جاتا ہے کہ جرمنی کے نفسیات دانوں اور ریاضی دانوں نے ۱۹۴۴؁ء میں بلج کی لڑائی سے قبل ایسے طریقے وضع کرلئے تھے۔
خلاصۃ
سراغ رسانی /جاسوسی کا علم خفیہ علوم میں سے ہے ۔جاسوسی درست اور مصدقہ معلومات کا نام ہے جن کا حصول عمومی طور پر سخت جدوجہد اور کوشش کے بغیر ناممکن ہے۔ سراغ رسانی کو عربی میں استخبارات کہا جاتا ہے، جبکہ یہ انگریزی لفظ (Intelligence) کا مترادف ہے۔ ہر مملکت کو اندرونی امن یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت آگاہی (Fore-Knowledge) کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لٹریچر کے مطالعہ سے ہمیں جاسوسی کی مختلف تعریفات ملتی ہیں۔اس عمل کو تجسس اور استخبارکہا جاتا ہے اور جو یہ کام کرتا ہے اسکو جاسوس یا مخبر کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کی نظرمیں سراغ رسانوں کی بڑی اہمیت تھی ۔استخبارات کی ضرورت اولادِ آدم کو ہر دور میں رہی ہے۔ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے تئیں پوری توجہ دی ہے۔ جس ملک اور قوم نے استخبارات کے شعبے کو صحیح طریقے پر استعمال کیا ہے۔ اسے کامیابیاں اور نیک نامی نصیب ہوئی۔ اور جنہوں نے اس ضروری شعبۂِ حکمرانی سے صرف نظر کیا ہے وہ نقصان اٹھاتے رہے۔ کمانڈر کے نا معلوم خطرات کو سراغ رساں ہی کم کرسکتے ہیں۔اس کیلئے وہ اپنی توجہ لازمی اطلاعات پر مرکوز کریں گے۔یہی وہ حقیقی تعلق ہے،جو ایک کمانڈر اور سراغ رساں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔تو تمام پروگرام اچھے طریقے سے چلتے ہیں۔
’’سراغ رسانی میں پانچ قسم کے خفیہ ایجنٹ استعمال کئے جا سکتے ہیں۔وہ درج ذیل ہیں:
’’۱۔ ملکی ایجنٹ ۲۔اندرونی ایجنٹ ۳۔دوگانہ ایجنٹ ۴۔قابل صرف ایجنٹ ۵۔زندہ ایجنٹ
غیر ملکی خفیہ اداروں کی طرف سے کی جانے والی ان تمام کاوشوں کا توڑ کرنا جو وہ ہمارے ملک میں حصول استخبارات، جاسوسی، سبوتاژ، دہشت گردی اور قتل و خون کے لیے کر رہا ہو، ضد استخبارات یا Counter Intelligence کہلاتا ہے۔
پروپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ذہنوں کی تسخیر کی جاتی ہے۔ وہ گروہ انسانی جس کو پروپیگنڈے کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ عقلی طور پر زن و تخمین کرنے کی بجائے صورت حال کو جذباتی انداز سے لیتا ہے اور اسی حالت میں فیصلہ یا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔
أ أ أ أ أ

حواشی و حوالہ جات


(۱) سن زو ، فن سپہ گری، ، مترجم:میجرجنرل احسان الحق ڈار ،راولپنڈی، ۱۹۹۲؁ء ،ص۔۹۶
(۲) سن زو،فن حرب، مترجم سید محمد شاہ جلال، کراچی،نہال پریس ،۱۹۹۶؁ ء، ص۔۸۸
(۳) بریگیڈئر(ر)ارشاد ترمذی، ’’حساس ادارے ‘‘ ، ترجمہ: افضال شاہد،لاہور، فکشن ہاوس ،۲۰۰۲ء صفحہ نمبر۴۰
(۴) پریزینٹل ایگزیکیوٹو آرڈر نمبر ۱۲۳۳، یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ دسمبر ۱۹۸۱
(۵) ایضاً
(۶) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، انٹیلیجنس اینڈ کاونٹر انٹیلیجنس، جلد ۲۱ صفحہ، ۷۸۱
(۷) احمد رضا، معجم متن اللغہ العربیہ، بیروت مکتبہ دارصادر ۱۹۵۷؁ ء، ج۔۱ ، ص۔۵۲۷
(۸) محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی الحنفی،تاج العروس من جواہرالقاموس،ج۔۴،ص۔۱۱
(۹) سعیدالخوری الشرتونی اللبنانی،اقرب الموارد فی فصح العربیہ والشوارد، الطبعہ الیسوعیہ،بیروت ۱۸۸۹؁ء ، ص۔۱۲۳
(۱۰) سعیدابوحبیب القاموس، الفقھی لغہ و اصطلاحاً، دمشق، دارالفکر، ۱۹۸۲؁ ء،ص۔۶۳
(۱۱) عبدالفتاح اصعیدی،الافصاح فی فقہ اللغہ، دمشق، دارالفکر عربی،ج۔۱،ص۔۲۳۵
(۱۲) ابراہیم مصطفیٰ ، المعجم الوسیط، طہران، المکتبہ العلمیہ، س، ن، ج۔۱،ص۔۱۲۳
(۱۳) السلامہ،عبداﷲ علی المحمد مناصرہ،الاستخبارات العسکریہ فی الاسلام، بیروت، موسسہ الرسالہ، ۱۹۹۱؁ء، ص۔۲۷۹
(۱۴) محولہ بالا معجم متن اللغہ العربیہ،ج۔۱ ، ص۔۵۲۷
(۱۵) امین ، محمد فتحی،قاموس المصطلاحات العسکریہ، بغداد ، المکتبہ الوطنیہ،۱۹۸۲؁ ء، ص۔۱۴۱
(۱۶) ناصر،منصور علی،التاج الجامع الاصول من احاد یث الرسول، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۹۶۲؁ء، ج۔۴،ص۔۴۰۱
(۱۷) زحیلی ،ڈاکٹروہبہ،العلاقات،الدولیہ مع القانون الدولی الحدیث ، بیروت، موسسہ الرسالہ، ۱۹۸۱؁ء، ص۔۶۱
(۱۸) وجدی، محمد فرید،دائرہ معارف القرٓن العشرون، بیروت، دارالفکر، س، ن ج۔۳
(۱۹) التھانوی،محمد اعلیٰ بن علی،موسوعہ اصطلاحات العلوم الاسلامیہ المعروف بکشاف اصطلاحات الفنون، بیروت، شرکہ خیاط للکتاب ، س، ن ، ج۔۸،ص۔۴۱۰ص
(۲۰) ابن منظور،لسان العرب،بیروت،دارصادر، ۱۹۶۸؁ ء،ج۔۴،ص۔۲۲۷،
(۲۱) محولہ بالا ،تاج العروس من جواہرالقاموس،ج۔۱۱،ص۱۲۵
(۲۲) الھیثم الایوبی،الموسوعہ العسکریہ، المؤسسۃ العربیۃ للدراسات والنشر والتوزیع، ۱۹۸۶ء، ج۔۱،ص۔۶۲
(۲۳) ایضاً
(۲۴) محولہ بالا الاستخبارات العسکریہ فی الاسلام ص۔۸۵
(۲۵) سعد، محمد ابن، الطبقات، ترجمہ: عبداﷲ الغمادی، کراچی، نفیس اکیڈمی، حصہ اوّل، ص۔۱۹۰
(۲۶) القرآن:الانفال: ۳۹
(۲۷) القرآن: التوبہ: ۳۶
(۲۸) جاہن ایم ہاوس، ملٹری انٹیلیجنس ۱۸۷۰ تا ۱۹۹۱۔ لندن، گرین ورڈ پریس، س، ن،صفحہ ۵،۶
(۲۹) محولہ بالا فن حرب، صفحہ ۹۷
(۳۰) نارمن پالمر اینڈ تھومس بی الین، دی انسائیکلوپیڈیا آف اسپینیج، نیویارک، جرمنی بکس، س، ن، صفحہ ۴۲۰
(۳۱) بحوالہ رائمنڈ ایل گاردوف، رشیہ میکس وار، صفحہ ۲۶۰
(۳۲) محولہ بالا فن سپہ گری، ص۔۹۹۔۱۰۰
(۳۳) محولہ بالا دی انسائیکلوپیڈیا آف اسپینیج، صفحہ ۲۸۳
(۳۴) محولہ بالا فن سپہ گری، ص۔۹۷۔۹۸
(۴۵) سید واجد رضوی ، رسول اﷲ میدان جنگ میں، مقبول اکیڈیمی انارکلی لاہور ۱۹۹۹؁ ص۴۲
Nasir Majeed
About the Author: Nasir Majeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.