یورپی یونین کا مستقبل

وہی کچھ ہوا جس کی توقع تھی۔برطانیہ والوں نے52%ووٹوں کے ساتھ یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا۔برطانیہ میں یہ تحریک کئی سالوں سے چل رہی تھی۔برطانیہ والے اپنے آپ کو یورپی یونین کے دوسرے ممالک سےSupperسمجھتے ہیں۔آخر صدیوں دنیا پر حکمرانی کرنے والے فخر میں تو مبتلا ہونگے۔وہ اپنی زبان اور تعلیمی نظام کی وجہ سے اب بھی دنیا کی دوسری قوموں سے آگے ہیں۔انکی زبان تو اس وقت پوری دنیا میں بولی اور سمجھی جارہی ہے۔ادبی اور سائنسی لڑیچرجتنا انگریزی میں پیدا ہورہا ہے اس کا مقابلہ کوئی بھی اور زبان نہیں کرسکتی۔کمپیوٹر تو ہے ہی انگریزی میں۔90فیصد معلومات صرف ایک زبان انگریزی میں موجود ہیں۔اگر میڈیا اور کرکٹ کو شامل کرلیاجائے تو انگریزوں کی بالا دستی عالمی سطح پر اب بھی واضح نظر آتی ہے۔جب سے مشرقی یورپ کے غریب ممالک نے یورپی یونین میں شامل ہونا شروع کیا تو ماضی کی سپر پاور کو یہ بات پسند نہیں آئی۔برطانیہ کی ممبر شپ اگرچہ مکمل نظر آتی تھی لیکن" پونڈ" کی علیحدہ سلطنت بھی قائم تھی۔جب چند سال پہلے امریکہ میں معاشی بحران شروع ہوا اور وہ جلد ہی یورپ بھی پہنچ گیاتو یونان،اٹلی اور سپین جیسے ملکوں کے حالات انتہائی خراب ہوگئے۔یونان کو یورپی یونین سے باہر نکالنے کی باتیں بھی ہونے لگیں۔وجہ ظاہر تھی کہ یورپی یونین یونان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرض دے رہی تھی۔اسے آکسیجن کٹ کے ذریعے زندہ رکھا جارہا تھا۔سپین اور اٹلی میں بھی بے روزگاری اونچی سطحوں کو چھو رہی تھی۔بے روزگار لوگ خوشحال ملکوں کی طرف سفر کررہے تھے۔یورپی یونین کے20۔لاکھ لوگ کاروبار اورروزگار کے لئے برطانیہ جاٹھہرے۔اس کے علاوہ بھی تارکین وطن کی اکثریت برطانیہ کا رخ کررہی تھی۔یورپی یونین کے قوانین کے مطابق تارکین وطن کے لئے بہت سی سہولیات تھیں۔ان سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے لوگ برطانیہ میں چلے گئے۔انگریزوں کے ملک میں غیر انگریزوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔ماضی کی سپر پاور کے نوجوان اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے تھے۔علیحدگی سے انہوں نے اپنا مستقبل محفوظ کرنیکی کوشش کی ہے۔لیکن مسائل ابھی بھی باقی ہیں۔یورپ کو متحد کر نے کا تصور دوسری جنگ عظیم کے بعد دانشوروں اور مفکرین کے ذہن میں آیا۔دوسری جنگ عظیم نے یورپ کو تباہ کردیاتھا۔سب سے زیادہ جنگ کی تباہ کاریاں اسی براعظم میں ہوئی تھیں۔ماضی قدیم میں یورپ مذہب کی بنیاد پر لڑتا تھا اور بیسویں صدی میں قومیت جنگوں کی بنیاد بنی۔ان جنگوں کو روکنے کے لئے یورپین دانشوروں اور مفکرین نے یورپ کے اتحاد کا بیڑا اٹھایا۔ابتدائی گفتگو ئیں50۔کی دہائی میں شروع ہوئیں۔بات آگے بڑھتی گئی۔یورپ کے ممالک نے ایک دوسرے کے لئے پابندیاں بٹانا شروع کردیں۔اشیاء پر محصولات گھٹتے گھٹتے صفر پر آگئے۔پھر ویزا بھی پوری یورپی یونین کا ایک ہوگیا۔باہر سے آنے والے ایک ملک کا ویزا لگواتے اور تمام یورپ کی سیروتفریح کرتے رہتے۔یورپ کے کسی ایک ملک میں بنی ہوئی شے پورے یورپ میں بغیر کسی ڈیوٹی کے فروخت ہونا شروع ہوئی۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔برسلز کو سب سے زیادہ مناسب مقام سمجھ کر یورپی یونین کا مرکز بنالیاگیا۔یورپی پارلیمنٹ،یونین بنک اور یورپی کابینہ تک بن چکی ہیں۔جھنڈا بھی ایک ہوگیا۔پندرہ یورپی ممالک نے اپنا سکہ ختم کردیا اور یورو نامی سکہ ان تمام ممالک میں رائج ہوگیا۔سکے کے پیچھے چونکہ پندرہ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشت تھی لہذا سکی کی قدر ڈالر سے زیادہ ہی رہی۔دنیا کے کچھ ممالک نے اس میںReserveرکھنے بھی شروع کردیئے۔یورو کی قدر برطانیہ کے نکلنے کے بعد کچھ کم ضرور ہوئی ہے۔پونڈ اور برطانوی حصص مارکیٹ پر بھی اس کامنفی اثر پڑا ہے۔یورپی یونین کو برطانوی علیحدگی سے ایک جھٹکا لگا ہے اور اس ارتعاش کی لہریں ابھی کافی عرصے تک محسوس ہوتی رہیں گی۔OECDکے سیکٹری جنرل Gurriaکہتے ہیں کر برطانیہ کے نکل جانے کا منفی اثر تمام دنیا پر ہوگا۔برطانیہ یورپی یونین میں تقریباً28سال تک رہا۔اس نے تمام تجارتی اور راہداری اصول یورپی یونین کے اختیار کرلئے تھے۔واپسی سے2سال کے عرصے میں تمام قوانین دوبارہ طے کرنے پڑیں گے۔برطانوی وزیراعظم نے نتائج آنے کے فوراً بعد خطاب کیا اور وزرات عظمیٰ سے علیحدگی اختیار کرلی۔وہ اب اکتوبر2016ء تک وزیراعظم رہیں گے اور اس وقت تک برطانوی قوم اپنا نیا لیڈر منتخب کرلے گی۔جولوگ چھوڑنے کے حق میں نہ تھے وہ کہتے ہیں کہ قومی سلامتی متاثر ہوگی۔دفاعی آزادی پر اثر پڑے گا۔فخر اور شناخت پر بھی اثر پڑے گا۔مخالفین کہتے ہیں کہ معاشی خوشحالی آئے گی۔استحکام آئے گا۔اور برطانوی اثرات بڑھیں گے۔انکے مطابق یورپی یونین نے انگریزوں کی شناخت کو دبادیاتھا۔یورپی یونین سے لوگوں کے آنے سے انگریز نوجوان اپنے روزگار کھورہے تھے۔برطانوی لوگ21۔ویں صدی میں اب پرجوش انداز سے قدم رکھ سکیں گے۔تیزی سے آگے بڑھیں گے۔نارڈک نسل یا اینگلو سیکسن جواب انگریز کہلاتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھتے ہیں۔برطانیہ کے نکل جانے کے بعد اب اٹلی،فرانس ،ہالینڈ اور ڈنمارک سے بھی علیحدگی کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔اگر یہ تحریک زور پکٹرتی ہے اور چند ممالک اور بھی علیحدہ ہوجاتے ہیں۔تو یورپی یونین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔کئی دہائیوں پر مشتمل کوششیں ضائع ہوجائیں گی۔اب برطانیہ کی طرف سے یورپی یونین سے مزاکرات صرف نئے وزیراعظم ہی کریں گے۔عملاً قوانین میں تبدیلیوں کے لئے ابھی2سال کا عرصہ پڑا ہے۔اب برطانیہ کو یورپی یونین کے بجٹ میں 12۔ارب ڈالر ادا نہیں کرنا پڑیں گے۔اور جواب میں برطانوی کسانوں کو4۔ارب ڈالر کی امداد نہیں ملے گی۔کئی جائدادوں کو تقسیم کرنا پڑے گا۔برطانیہ کے کافی شہری یورپی یونین میں کام کررہے ہیں اور یورپی یونین کے20۔لاکھ لوگ برطانیہ میں برسرروزگار ہیں۔یہ تمام مسائل اب حل کرنا ہونگے۔برطانیہ کے گورے اب دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کے بارے اچھی رائے نہیں رکھتے۔انکے مطابق اب غیر انگریزوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ہوسکتا ہے کہ یورپی یونین کے باشندوں کے علاوہ باقی آنے والے لوگوں کو نکالنے کی تحریک زور پکٹرے۔یوں برطانیہ میں ایک بڑی ہل چل ہوتی نظر آرہی ہے۔ایک طاقتور ملک کے نکل جانے کے بعد یورپی یونین کو متحد رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔ہرملک کو اپنی قومیت کی شناخت اہم نظر آتی ہے۔یورپی یونین میں یہ شناختیں مٹ رہی تھیں۔صرف یورپین کی شناخت باقی رکھنے کی کوششیں جاری تھیں۔آئندہ چندسال یورپی یونین کا مستقبل طے کریں گے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.