خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کیلئے ائیر کنڈیشنر جم
قائم کردیا گیا ہے تاکہ عوام کے غم میں "خوار"ہونے والے ممبران صوبائی
اسمبلی کو ورزش کا موقع ملے اور وہ بھی جم میں اپنا وزن کم کرسکیں-ائیر
کنڈیشنر جم کا افتتاح بھی رمضان المبارک کے مہینے میں کردیا گیا ہے حالانکہ
رمضان المبارک میں جولوگ روزے رکھتے ہوں ان کا وزن کم ہو جاتا ہے- ویسے بھی
خیبر پختونخوا اسمبلی میں آنیوالے نئے ممبران کی تعداد زیادہ تر جوان ہے
اور وہ ماشاء اللہ صحت مند ہیں لیکن پتا نہیں کیا وجوہات ہیں کہ انہیں جم
کی ضرورت پڑ گئی -اب کوئی ان صاحبان سے پوچھے کہ ممبران اسمبلی کی صحت کا
عوام سے کیا تعلق -کیونکہ اگر یہ ممبران اسمبلی میں بھی آئے ہیں تو عوام کے
ووٹ سے آئے ہیں- اگر یہ ممبران اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے بھی آئے تو ان
کے ٹی اے ڈی اے کے بل بن جاتے ہیں یہ ممبران اسمبلی کی مرضی ہے کہ آیا وہ
اجلاس میں ہونیوالی بحث میں حصہ لیتے ہیں یا نہیں ایجنڈے پر بات کرتے ہیں
کہ نہیں ہاں انہیں اسمبلی میں آنے کے بعد حاضری لگانی ہوتی ہے جسکا معاوضہ
انہیں مل جاتا ہے-
خیبرپختونخوا کے عوام نے ان ممبران کو اس لئے منتخب کیا تھا کہ یہ ممبران
ان کیلئے تبدیلی لائینگے ان کے حق میں قانون سازی کرینگے اور صوبے کی حالت
زار بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے لیکن ان صاحبان کو اپنی صحت
کی پڑ گئی ہے اور اپنے وزن کو کم کرانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ایک
بات جو ہمارے ہاں بہت زیادہ کہی جاتی ہے کہ پیسہ کسی اور کا ہو تو پھردل
بھی بے رحم ہوتا ہے یعنی " مفت کی شراب قاضی بھی پیتا ہے-
رمضان المبارک سے کچھ دن قبل جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر
اسمبلی سے ملنے کیلئے ایم پی اے ہاسٹل جانے کا اتفاق ہوا -بحیثیت صحافی
ذاتی طور پر میں نالائق سا بندہ ہوں اس لئے ایم پی اے ہاسٹل نہیں جاتا
کیونکہ جہاں پر کام نہیں وہاں پر جانا نہیں ، ہمارے کچھ صحافیوں نے تو یہاں
پر ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں کیونکہ پی آر شپ بھی چلتی ہے اورخرچہ بھی ملتا ہے
خیر جن صاحب سے ملنے کیلئے گئے تھے ان کے ہمارے صحافی دوست سے تعلق گاؤں کا
تھا اور وہ ذاتی کام کیلئے گئے سخت گرمی میں جانے کے بعد کمرے میں جانیکا
اتفاق ہوا اور صرف پانچ منٹ بیٹھنے کے بعد سردی لگنی شروع ہوگئی کیونکہ
کمرے میں بلاتعطل کے ائیر کنڈیشنر آن تھا- تقریبا پون گھنٹے تک بیٹھنے کے
بعد ایم پی اے صاحب سے ملاقات تو نہیں ہوئی کیونکہ وہ صاحب گیارہ بجے کا
وقت دیکر پونے بارہ بجے تک نہیں آئے اور ہم نکل آئے لیکن وہاں پر بیٹھ کر
ممبر اسمبلی کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے سیکورٹی اہلکاروں اور اس کے ذاتی
ملازمین سے بات چیت ہوئی جنہوں نے بتایا کہ صاحب باہر جانے کی ضرورت ہی کیا
ہے یہاں پر ائیر کنڈیشنر لگا ہوا ہے اور لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی - اور میں
دل ہی دل میں ان نوجوانوں ، بوڑھوں کو کوس رہا تھا جو آوے ہی آوے اور
تبدیلی آوے کے نعرے لگاتے ہوئے سال 2013ء کے انتخابات میں دھمال ڈال رہے
تھے اور پھر یہ دعوے بھی کئے گئے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو منتخب کیا ہے
جوعوامی مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھائیں گے یہ حال ہے ممبران اسمبلی کا ،
ائیرکنڈیشنر ہالوں اور کمروں میں بیٹھ کر عوام کی خدمت کا سوچتے ہیں اور
صوبے کے غریب عوام ان ائیر کنڈیشنر کیلئے سخت گرمی میں کام کرتے ہوئے ٹیکس
ادا کرتے ہیں-
آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف ، جم کی تعمیر کے بعد خواتین ممبران اسمبلی نے
اپنے لئے الگ وقت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ان کے بقول ہم گھر میں
کام کرتی ہیں اس لئے ہمیں الگ وقت جم میں ورزش کیلئے دیا جائے- ہمیں ممبران
اسمبلی کے ورزش کرنے پر اعتراض نہیں نہ ہی ائیر کنڈیشنر جم پر ، لیکن ہاں
بطور شہری ہمیں اس بات پر اعتراض ہے کہ جم اور اس میں لگنے والے آلات پر
عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگے گا یہ پیسے جو ہم جیسے لاکھوں عوام اپنا اور
اپنے بچوں کا پیٹ کا ٹ کر ٹیکس کی صورت میں حکومت کو ادا کرتے ہیں کیا عوام
کا پیسہ اسی کیلئے دیا جاتا ہے-
کیا اراکین اسمبلی 500 روپے فیس کسی باہر کے جم میں نہیں دے سکتے جہاں پر
عام لوگ بھی جاکر ورزش کرتے ہیں کیا اس میں بھی ان کا استحقاق مجروح ہوتا
ہے -اور یہ کیسا استحقاق ہے جو ممبراسمبلی بننے کے بعد انہیں مل جاتا ہے اس
سے قبل اسی عوام کی منتیں، ترلے اور وہ بھی ایک ووٹ کیلئے کیا انہیں یاد
نہیں رہتا- ویسے کوئی اب یہ بھی پوچھے کہ ایم پی اے ہاسٹل میں کتنی لاگت سے
جم بنایا گیا ہے -اس کیلئے ٹرینر رکھے گئے ہیں یا نہیں کیونکہ جم کیلئے
ٹرینر ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات غلط ورزش کرنے سے لینے کے دینے پڑ جاتے
ہیں-اندازہ ہے کہ اس جم میں ٹرینر رکھا جائیگا پہلے اسے ایڈہاک بنیادوں پر
تعینات کیا جائیگا بعد میں یہی ٹرینر مستقلی کیلئے درخواستیں دینگے
پھرخاتون ٹرینر کی خدمات حاصل کی جائینگی کیونکہ ممبران اسمبلی میں مرد و
خواتین دونوں شامل ہیں-جسے اسی پراسیس سے گزارا جائیگا پھر جم میں ورزش
کیلئے لگنے والے تربیتی آلات کی مینٹینس کیلئے الگ فنڈمقر رہوگا پھر ایک
مخصوص مدت گزرنے کے بعد الگ ڈیپارٹمنٹ بنایا جائیگا اور پھر یہاں پر تعینات
ہونیوالے افراد کے گریڈ مختص ہوں گے ان کی تنخواہیں بھی ہونگی اور یقیناًیہ
بھرتیوں کا عمل بھی صاف و شفاف ہوگا کیونکہ یہاں تو " تبدیلی " آئی ہے-
اب اتنی سی تبدیلی تو ممبران اسمبلی کا حق بھی ہے ساتھ میں یہ بھی ذہن میں
رہے کہ صوبائی اسمبلی میں ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافے
کیلئے قرارداد بھی پیش کی گئی اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر چیز میں مین
میخ نکالنے والے ایک پارٹی کے رہنماء نے یہ قرارداد پیش کی جسے ڈیڑھ منٹ
میں منظور کرلیا گیا ہے یعنی جب مفاد ایک ہو تو کہاں کی حکومت اور کہاں کی
اپوزیشن ، پھر سب ساتھ ہیں-ممبران اسمبلی کی تنخواہیں بڑھنے کے بعد اس کا
زور کس پر پڑھے گا اور کون یہ ادائیگی کریگا یہ سوچنے کی بات ہے کیونکہ اسی
نسبت سے مراعات بھی بڑھیں گی اسی نسبت سے اسی اسمبلی میں کام کرنے والے
ملازمین کی مراعات میں بھی اضافہ ہوگااور پھراقتصادی بدحالی ، بیروزگاری ،
دہشت گردی سے متاثرہ خیبر پختونخواکے عوام اس دن کو روئیں گے جس دن انہوں
نے ووٹ ڈالا تھا-کیونکہ یہ اضافہ نہ صرف موجودہ وقت میں انہیں متاثر کریگا
بلکہ آنیوالی اسمبلیاں بھی اسی کو فالو کرینگی اور پھر" خدا جانے" کیا سے
کیا ہو- |