کرپشن کا گڑھ ایف بی آر

میاں صاحب انتہائی شریف انسان ہے اُن کی تمام زندگی محنت سے عبارت ہے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن اپنی انتھک محنت سے آج ایک چھوٹی سی فیکٹری کے مالک ہے پروفیشن کے لحاظ سے انجینیر ہے زندگی کی تیس بہاریں سعودی عرب میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں گزاری1997میں دماغ میں پتا نہیں کیا سمایا کہ اپنی تمام جمع پونجی لے کر پاکستان آ گئے اور یہاں پرایک فیکٹری لگا لی جوانجینیرنگ سے منسلک مختلف پروڈکٹ بنا کر گورنمنٹ کے اداروں کو فراہم کرتی ہے اُن کے دو بیٹے ہیں وہ دونوں پاکستان آنے کے حق میں نہیں تھے ایک اب بھی سعودی عرب میں ہی اپنا کاروبار کر رہا ہے اور دوسرا پاکستان میں ایک نجی یونیورسٹی میں لیکچرار ہے بزنس میں اُس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے بقول اُس کے کاروبار اُس کے بس کا روگ نہیں ہے اُن کی بدقسمتی اور میری خوش قسمتی کے موصوف میرئے دوست ہے جس کی وجہ سے میاں صاحب سے بھی میری ملاقات ہو جاتی ہے یکم رمضان کو اُنھوں نے مجھ کو افطاری کی دعوت دی اندھا کیا چاہے دوآنکھیں میرئے جیسا بندہ جو لاہور میں بیچلر لائف گزار رہا ہو شکر کا کلمہ پڑتے ہوئے شام پانچ بجے ہی اُن کے گھر جا سدھارئے دوران گفتگو میاں صاحب مجھ کو کچھ پریشان دکھائی دئیے میرئے استسفار پر بولے کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ نالائق کاروبار سنبھال لے لیکن پھر سُوچتا ہوں کہ اس ملک میں کاروبار والے حالات ہی نہیں ہے اپنا ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرتے ہوئے بولے سُوچا تھا کہ اپنے ملک جا کراپنی مٹی کا قرض اتاروں گاکچھ اپنے لوگوں کے کام آنے کی کوشش کروں گااُس وقت گورنمنٹ بھی اپنے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے پر سنہرئے خواب دکھا رہی تھی میں بھی اُن کے جھانسے میں آ کر سب کچھ سمیٹ کر پاکستان لے آیا اب کاروبار بند کرنے کو دل بھی نہیں کرتا دو سو لوگوں کا روزگار میری فیکٹری کے ساتھ وابستہ ہے گورنمنٹ کے اداروں سے آرڈر لینے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے ای اوبی آئی اور سُوشل سیکورٹی کے اہلکارا پنا پیٹ بھرنے کے لیے روز تنگ کرتے ہیں سُوچا تھا اس حکومت کے آنے سے کاروباری طبقے کو فائدہ ہو گا کھپت بڑھے گی نئی انڈسٹری لگے گی روزگار کے مواقع پیدا ہو گے لیکن یہ تو دوسروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے پرانی انڈسٹری کو ہی بند کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ان کے دور حکومت میں ایف بی آروہ سفید ہاتھی بن گیا ہے جو چھوٹے اور درمیانے کاروباری طبقے کو کچلتا ہی جا رہا ہے میں نے کہا لیکن میاں صاحب ایف بی آر کی پراگریس تو تعریف کے لائق ہے گیارہ مہنیوں میں دو ہزار چھ سو اڑتالیس ارب روپے کا ہدف پورا کیا ہے میاں صاحب بولے بیٹا اگر صرف جائز طریقے سے ریکوری ہو تو پھر کیا رونا گورنمنٹ ایف بی آر کو ہدف دے دیتی ہے اور ایف بی آر کاروباری طبقے کو ہر روزایک نیا نوٹس بھیج کر تنگ کر رہی ہے اگر دو لاکھ گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروانے ہیں تو ساتھ ایک لاکھ ایف بی آر کے آفسران اور اہلکاروں کادوزخ بھرنے کے لیے بھی دینے پڑ تے ہیں نہیں تو وہ کمپنی کے آکاونٹ سے خود ہی نکلوا لیتے ہیں ہم تو اگر ان کو رشوت دیں تب بھی مر رہے ہیں اور اگر نہ دے تب بھی مر رہے ہیں اس وقت جو ایف بی آر میں رشوت کا بازار گرم ہے وہ تم سُو چ بھی نہیں سکتے اس وقت ایف بی آر کا ایک منشور ہے ٹیکس آفس آئے ہو تو ہمارئے لیے کیا لے کر آئے ہو اور اگر واپس جا رہے ہو تو ہم کو کیا دے کر جا رہے ہومیاں صاحب کی باتیں پریشان کن تھی لیکن میں اس پر لکھنے سے پہلے تما م باتوں کی تصدیق کرنا چاہتا تھاوہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم جس سے میں نے سی اے کے آرٹیکل کیے تھے اُ ن سے میں نے درخواست کی کہ میں کچھ دن آپ کی طرف سے ٹیکس آفس میں پیش ہونا چاہتا ہوں پھر پچھلے پندرہ دن میں ایف بی آر میں جو حالات میں نے دیکھے وہ واقعی میرئے لیے پریشان کن تھے ہر کام کے ریٹ مقرر ہے اگر آپ نے exemption certificate لینا ہو تو ایک لاکھ،crest discrepancies پندرہ ہزار،شو کاز نوٹس انڈر سیکشن (205)سب سیکشن (1A)ایڈوانس ٹیکس واجب الادا رقم کم کروانی ہو تو دو لاکھ ، نوٹس فار ammendment of assessment u/s 122(5a) اپیل کا دس ہزار، اور اگر واجب الادا رقم کم کروانی ہے تو کل رقم کادس فیصد،شو کاز نوٹس u/s161(1a) واجب الادا رقم اگر کم کروانی ہو تو واجب الادا رقم کا پچیس فیصد مثال کے طور پر ایف بی آر کی طرف سے liability بنائی گئی ہے دس لاکھ تو آپ نے کلرک بادشاہ کو دینے ہے دو لاکھ پچاس ہزاراُس میں سے وہ گورنمنٹ کے کھاتے میں دس ہزار جمع کروائے یا پچاس ہزار یہ اُس کی مر ضی باقی اُس کی اور اُس کے آفسران کی جیب میں، انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس ریڑن revisedکرنے کا تیس ہزار، ایف بی آر کا آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کسی بھی فیکڑی یا اُس کے گودام کو چیک کر سکتا ہے انڈر سیکشن 38(1)کے تحت کمشنر نوٹس جاری کرتا ہے ایک اسٹنٹ کمشنر، دو آڈیٹرسر پرائز وزٹ کرتے ہیں فیکڑی والوں سے سٹاک کی فہرست لیتے ہیں دوسرئے دن سٹاک کی verificationکرتے ہے یہاں سے مالکان کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہو تا ہے کہ سٹاک پورا نہیں ہےfake invoices ریڑن میں لی ہوئی ہے اُوپر سے پریشر ہے دو کڑور جمع کروانے ہو گے آپ لوگوں کو مالکان کے ہاتھ پاوٗں پھول جاتے ہیں یہاں پر آڈیٹر ایک نئی کہانی شروع کرتا ہے اگر liability create ہو گی تو آپ لوگوں کی ہسٹری خراب ہو جائے گی اس لیے بہتر ہے آپ لوگ پیسے ایڈوانس پیمنٹ کی مد میں جمع کروا دیں کاروباری طبقے کو فائدہ ہوتا ہے کہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان لوگوں نے غبن کیا ہے یعنی کہ fake purchase invoices ریڑن میں لی ہیں اور ایف بی آر والوں کو فائدہ ہوتا ہے کہ اُن کو ورکنگ نہیں کرنی پڑتی فیکڑی مالکان بھی خوش گورنمنٹ بھی خوش اور ایف بی آر آفسران بی راضی یہاں سے سُودئے بازی شروع ہوتی ہے پچیس سے تیس لاکھ میں فیکڑی مالکان کو راضی کیا جاتا ہے جس میں سے دس لاکھ آفسران کی جیب میں باقی گورنمنٹ کے آکاونٹ میں لاہور ٹیکس آفس میں اس وقت ایک کمشنر ، ایک اسسٹنٹ کمشنر اور دو آڈیٹر سیکشن 38(1) کی وجہ سے اپنی آنے ولی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا رہے ہیں جناب اسحاق ڈار صاحب آپ خود چارٹرڈ آکانٹنٹ ہے آ پ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس وقت ایف بی آر کس طرح کاروباری طبقے کو یر غمال بنا رہا ہے یہ تما م الزامات نہیں ہے ان تما م باتوں کے ثبوت اور ان دونوں آڈیٹرز کی ریکارڈنگ مہیا کی جا سکتی ہے سب سے پہلے تو ایف بی آر کی کمپنی آکاونٹ تک رسائی ختم کی جائے ایف بی آر میں کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے جائے اگر کوئی یہ کہے کہ گورنمنٹ اداروں میں کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی تو آپ کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں کی گئی اصلاحات کو ملاحظہ کرنا چاہیے اس ادارئے میں ایف بی آر سے بھی زیادہ کرپشن تھی لیکن اُس دور حکومت میں اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے ایس ای سی پی کرپشن فری ادارہ بن چکا ہے آ پ نے اگر اب بھی ایف بی آر میں اصلاحات نہ کی تو جس طرح لیدر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری گورنمنٹ کی پالیسیوں او ر لوڈ شیڈنگ کی وجہ یہاں سے شٖفٹ ہوئی ہے باقی کاروباری طبقہ اپنا کاروبار ایف بی آر میں ہونے والی کرپشن کی وجہ سے دوسرئے ممالک میں شفٹ کرنے پر مجبور ہو جائے گا-
Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 12929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.