تاجدار حرم ہونگاہ کرم․․․․․ محبت اور عقیدت
کا سچا راگ الاپنے والا اب ہم میں نہیں رہا۔ ہنستا مسکراتا، معصوم سے چہرے
والے امجد علی صابری کا سفاکانہ قتل ہر آنکھ کو رلا گیا اور ہر دل کو درد
سے بھرگیا۔ وہ ہنستا مسکراتا چہرہ اب ہم میں نہیں۔ اس کی آواز ہمیشہ ہمارے
کانوں میں گونجتی رہے گی۔ اس پر گولیاں برسانے والے اسے مار کر بھی نہ
مارسکے۔ اس کی آواز اور اس کا فن تادیر یاد رکھا جائے گا۔ لیاقت آباد دس
نمبر جیسے متوسط طبقے کے رہائشی علاقے میں رہنے والا یہ قوال ایک عام سی
زندگی بسر کرتا تھا، جسے کبھی اپنی سیکیوریٹی کی فکر نہ تھی۔ فکر ہوتی بھی
کیوں، محبت بانٹنے اور پیار کے سُر بکھیرنے والے اس فن کار نے سوچا بھی
نہیں ہوگا کہ کوئی شقی القلب شخص اس پر بھی گولی چلا سکتا ہے۔
ایک قتل سے دوسرے قتل کے درمیان وقفہ گویا کراچی میں امن کا وقفہ ہوتا ہے،
ورنہ اس شہر کے باسیوں کے لیے امن اور سکون تو نایاب ہوچکے ہیں۔ اس شہر کے
رہنے والے لاشیں اٹھاتے آئے ہیں اور نہ جانے اور کتنی لاشیں اٹھانا اس شہر
کے لوگوں کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ اس شہر کے کتنے ہی ایسے خاندان ہیں جہاں
کے بیٹوں نے پہلے اپنے بے گناہ قتل ہونے والے باپ کا جنازہ اٹھایا اور آج
ان کے بیٹے ان کا خون سے لتھڑے کفن والا جنازہ اٹھارہے ہیں۔ اس شہر میں
کتنے ہی بدنصیب ماں باپ ہے جو اپنے مار دیے جانے والے جوان بیٹوں کو قبر
میں اتار چکے ہیں۔
یوں تو شہر قائد ٹرانسپورٹ کی خراب صورت حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے پانی
کی قلت تک ہر مسئلے کا شکار ہے، لیکن بدامنی اور دہشت گردی کی بلائیں یہاں
کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے تک نسبتاً امن رہا تو لوگوں
نے سکون کا سانس لیا، خوف میں کمی آئی، سینوں میں چین اُترنے لگا، لیکن ماہ
رمضان شروع ہوتے ہی یوں لگا جیسے یہ شہر ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرف لوٹ رہا
ہے۔ راہ زنی اور لوٹ مار کے واقعات میں یکایک اضافہ ہوگیا، ٹارگیٹ کلنگ کی
وارداتوں میں ایک بار پھر تیزی آگئی، بھتے کی پرچی سامنے آئی، پھر چیف جسٹس
سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کے اغواء نے کراچی اور سندھ کے ہر شہری کو
باور کرادیا کہ اس صوبے اور اس کے دارالحکومت میں اب بھی کوئی محفوظ نہیں۔
اس سلسلے کا سب سے بڑا سانحہ امجدصابری قوال کے قتل کی صورت میں سامنے آیا
ہے اور اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ شہر میں امن وامان کی صورت حال اچانک کیوں خراب ہونے لگی ہے؟
وہ کون سی قوتیں ہیں جن کا مفاد اس شہر میں خون خرابے اور بدامنی سے وابستہ
ہے؟ یہ سب کن مقاصد کے لیے کیا جارہا ہے؟ یہ اور ان جیسے سارے سوال اپنی
جگہ لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ امجدعلی صابری کا قتل اور
اویس شاہ کا اغواء حکومت سندھ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس صورت حال
سے خائف ہوکر ۶۲ فن کاروں نے امجد علی صابری کے قتل کے بعد پولیس سے
سیکیوریٹی مانگ لی ہے۔ اس حوالے سے شوبز کی دنیا سے وابستہ شخصیات کی جانب
سے ڈیفنس کے تھانے میں درخواست جمع کروائی گئی ہے جس میں یہ موقف اختیار
کیا گیا ہے کہ فن کار عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرنا
حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس شہر میں فن کار اور شوبز کی دنیا سے متعلق شخصیات
کے خوف کا یہ عالم ہو وہاں عام آدمی پر کیا گزر رہی ہوگی۔ اس صورت حال کے
باقی سارے عوامل اپنی جگہ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کراچی
کو نہیں سنبھال پارہی۔ اب بڑی سیدھی سی اور دوٹوک بات ہے کہ اگر سندھ کی
حکومت سے کراچی نہیں سنبھل پارہا تو اسے الگ انتظامی یونٹ یا صوبہ بنادینے
میں کیا حرج ہے۔ البتہ اس طرح صوبے کے برسراقتدار افراد کے ہاتھ سے وہ
ریونیو چلا جائے گا جو وہ دونوں ہاتھوں سے بٹور رہے ہیں اور بدلے میں کراچی
کو صرف محرومیاں دے رہے ہیں۔
سب اس بات پر متفق ہیں کہ رینجرز کا قیام یا آپریشن کراچی میں امن وامان کے
مسئلے کا مستقل حل نہیں، لیکن دوسری طرف شہر میں آپریشن شروع ہونے کے بعد
جس طرح اہدافی قتل، بھتا خوری، راہ زنی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں کمی
آئی تھی، اس نے شہر کے باسیوں کو بہت سکون دیا تھا، چناں چہ کراچی کے شہری
اس فکر میں مبتلا ہیں کہ جب آپریشن کے جاری رہتے ہوئے یہ حالات ہیں تو
آپریشن ختم کرنے کی صورت میں شہریوں پر کیا کیا نہ گزر جائے گی۔ بہ ہرحال،
مستقل امن کے لیے ضروری ہے کہ کراچی میں پولیس کا نظام بہتر بنایا جائے،
پولیس اہل کاروں کی نفری میں اضافہ کیا جائے، انھیں جدید اسلحے اور دیگر
ضروری سامان سے لیس کیا جائے، پولیس کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور حکم راں
پولیس کو اپنا مفادات پورا کرنے کا آلہ بنانے کے بہ جائے اس ادارے کو عوام
کا محافظ اور پاسبان بنائیں۔ مگر یہ سب کرنے کے لیے خلوص نیت درکار ہے، اس
کے لیے صوبے کی مقتدر جماعت اور اس کے راہ نماؤں کو کراچی کو اون کرنا ہوگا،
اس شہر کی ذمے داری لینی ہوگی، اسے امن دینا ہوگا، ورنہ کراچی کو الگ صوبہ
یا انتظامی یونٹ بنادینے کا نعرہ منطقی جواز پالے گا۔ |