یہ یہود و نصاریٰ کسی کے دوست نہیں ہوسکتے
امریکہ سے گہری دوستیاں کئی سالوں سے برقرار تھیں کہ اب سعودی فرما نرواؤں
نے کہا ہے کہ وہ امریکہ میں کیے گئے تمام کاروباروں سے رقوم واپس نکال لیں
گے اور ان کے بنکوں میں بھی رکھا گیا بھاری سرمایہ واپس لینے اور اپنے تمام
موجود اثاثے بیچ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے چونکہ سعودیہ سے گہرے برادرانہ
تعلقات ہیں اس لیے انھیں تکلیف پہنچے تو ہم شدید درد محسوس کرتے ہیں ۔عرب
ایران تعلقات میں کشیدگی ہو تو بھی ہم ہی خون کے آنسو روتے ہیں کہ کہیں ان
دونوں بڑی اسلامی قوتوں میں بگڑتے تعلقات بڑھ کر عملاً جنگ و جدل کی پوزیشن
میں نہ آجائیں کہ ایران ہمارا ہمسایہ اور قریبی دوست ہے۔اور ہم نے آیت اﷲ
خمینی کے لائے گئے اسلامی انقلاب کا بھرپور استقبال کیا تھا۔اور سعودیہ سے
ہمارے رو حانی رشتے آسمان کی بلندیوں کی طرح عظیم ہیں۔کہ خدا کا گھر خانہ
کعبہ بھی وہیں ہے اور ہمارے آقائے نامدارحضرت محمدﷺ جو کہ پوری دنیا میں اﷲ
اکبر کی تحریک کے قائدبن کر اور پورے روئے زمین پر اسلام کی روشنیاں
پھیلانے کے لیے تشریف لائے۔ ان کا روضۂ مبارک ادھر ہے اور خلق خدا کے لیے
انتہائی جذباتی اور ولولہ انگیز روحانی عقیدت کا باعث ہے اس لیے پاکستان
بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم سعودیوں سے انتہائی محبت کے جذبات رکھتا
ہے۔پوری دنیا کے حجاج کرام سعودیہ کا ہی رخ کرتے ہیں۔پہلے بھی کویت سعودیہ
بگڑتے تعلقات اور پھر جنگ و جدل دشمنان دین اور سامراجیو ں نے شروع
کروائے۔پھر امریکہ مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر آن دھمکا اور اس کے
فوجی دستے"حفاظت" کے لیے پہنچ گئے۔اور امریکہ نے تیل کے کنوؤں و دیگر اہم
علاقوں میں بھاری نفری تعینات کردی۔اور وہیں ڈیرے جما بیٹھے اب ان کی
تنخواہیں بھی عام سعودی فوجیوں کی نسبت تقریباً دس گناہ زیادہ ہیں اورسعودی
معیشت پر زبردست بوجھ ہیں۔ وہ ہر قسم کی عیاشیوں اورخمر وکباب میں اپنی
روایات کے مطابق مشغول رہتے ہیں اور ان سے حکمران تو کیا شہزادے بھی نہیں
پوچھ سکتے کہ آپ اس پاک دھرتی کو پلید کر رہے ہو تم لو گ ایسا نہ کرو ۔"
اَگ لین آئی سی تے گھر دی مالکن بن بیٹھی" والا قصہ ہے۔وہ بھی ایسٹ انڈیا
کمپنی کی طرح جو ہندوستان میں کاروبار کے لیے ٓئی تھی اور پھر دو صدیاں
حکمران رہی یہیں پر موجودمسلمانوں کے میر جعفروں اور میر صادقوں نے انگریز
کا بھرپور ساتھ دیاجس سے مسلمانوں کی سات سو سالہ حکمرانی چھن گئی اور ہم
اغیار انگریزوں کے غلام بن بیٹھے"الکفر ملتً واحدۃً"کی طرح اب بھلا مکہ اور
مدینہ کے شہروں کی حفاظت امریکہ کے دشمنان دین فوجی اور یہود و نصاریٰ کے
بھجوائے گئے "منافق ٹولے"فرمائیں گے۔احمق ترین شخص بھی اس بات کو تسلیم
نہیں کرے گااور نہ ہی یہ محیرالعقول بات دل کو لگتی ہے۔پس اسے تو اپنا
مہنگا اسلحہ اسلامی ممالک کو آپس میں لڑو اکربیچنا ہوتا ہے۔جو کہ مارکیٹ سے
بھی پانچ گنا زیادہ قیمت پر ہمارے اسلامی بھائی خریدنے پر مجبور
ہیں۔پاکستانی افواج دنیا کی بڑی فوجوں میں سے ایک ہیں اور جہادی دینی جذبات
سے بھی سرشار اور دین کے نام پراور آقائے نامدار محمد مصطفیٰؑﷺ کی آن پر تو
مر مٹنے والے ہیں ۔اور غلامی رسول میں تو موت بھی قبول ہے جیسے جذبات سے
پُر بھی۔قصہ مختصر صرف ہم اور ہماری افواج ہی سعودیہ کی حفاظت کرسکتے ہیں
جو کہ وہاں پر موجود مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کرنا سعادت
اور شہادت سمجھیں گے۔اسلیے کسی سامراجی اور غیر اسلامی ملک سے ہمارے کسی
بھی برادر اسلامی ملک کو امداد کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ہمارے کمانڈو جنرل نے
امریکہ کے ایک فون پرتابعداریوں کے ڈھیر لگادیے ۔اپنی ہی تسلیم کردہ طالبان
حکومت پر اپنے ہوائی اڈوں سے78000حملے کروائے۔تو بھی امریکہ ہمارا نہ بن
سکا۔ہماری بلی ہمیں میاؤں کے مصداق ہندوستانی شہ پر ہمیں گھوررہا ہے ۔صرف
اپنے اسلامی بھائیوں بالخصوص پاکستان کو اعتماد میں لے کر اسلامی دنیا کے
تمام قائدین کی کانفرنس بلوائیں۔پاکستان سعودیہ کی بلوائی گئی ایسی کانفرنس
میں کلیدی کردار ادا کرنے کو ہر وقت تیار ہے۔اور ہو بھی کیوں نہ کہ ہمارے
عقیدے اور ہماری اسلامی روایات کا یہی تقاضا ہے او آئی سی کو بھی فعال
کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ عالم اسلام کے ممالک کے آپس کے جھگڑے طے
ہوجائیں۔سامراجیوں یہود ونصاریٰ کی طرف سے ظلم و بر بریت کے جو پہاڑ اسلامی
دنیا پر توڑے جارہے ہیں ان سے پیدا ہونے والے شدید مخالفانہ جذبات مختلف
مسلح جدو جہد کرنے والی تنظیموں کے بننے کاسبب بن رہے ہیں۔ جن کا بھی یہی
توڑ ہے کہ مسلمان اکٹھے ہوں عالم اسلام آپس میں تجارتی تعلقات بڑھائے
مشترکہ غیر سودی بینکنگ اور مشترکہ اسلامی فوج کا قیام ہوتو پھر کوئی
سامراجی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت نہ کرے گا۔مگر ہم تو "میر کیا سادے
ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب۔اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں"یعنی ہم
اپنے ہی ذاتی اور سکہ بند دشمنوں سے ہی مدد کے طلبگار ہوں گے تو معاملہ
بالکل الٹا پڑ جائے گا اور ایسے عمل سے عالم اسلام کے ممالک کی سا لمیت
بالخصوص سعودیہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال رہے گا۔ہمارے دوست اسلامی
ملک افغانستان سے بھی تعلقات خواہ مخواہ کشیدہ ہو رہے ہیں حالانکہ ہم ہی وہ
واحد پہلے ملک ہیں جنھوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔وہاں سے
امریکی اپنے فوجیوں کو باحفاظت نکال کر لے جانے کے لیے اب بھارت کی امداد
کا طلبگار ہورہا ہے۔خیر امریکہ کی اس معاملہ میں خوش فہمی بھی جلد دور
ہوجائے گی کہ یہ رول صرف پاکستان ہی احسن طریقے پر ادا کرسکتا ہے۔ہم نے بڑا
جگرا رکھا اور حوصلوں کو جلا بخشتے رہے تو افغان پاکستان معمولی مسئلہ بھی
ضرور بالضرور حل ہو جائے گا۔امریکہ اور بھارت دونوں منہ کی کھائیں گے ویسے
بھی ہمارا یٹمی پاکستان ہونے کے ناطے تمام اسلامی ممالک سے دوستانہ اور
مشفقانہ باپ جیسا کردار ہونا چاہیے ۔ |