دنیابھرمیں مسلمان رمضان المبارک کی جہاں
برکتیں اوررحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہیں وہاں شام میں بےگناہ مسلمانوں پر جو
قیامت ڈھائی جارہی ہے،جس اذیت اورکرب میں وہ مبتلاہیں ،اس کاہمیں اندازہ تک
نہیں۔ملک شام جہاں بیک وقت کئی جنگیں لڑی جارہی ہیں،تازہ المیے کاسبب روسی
جنگی طیاروں کی اندھا دھندبمباری بنی جواپنے اسٹرٹیجک اتحادی بشارالاسدکی
حکومت کوانسانی خون سے تیار''حیات بخش ''سیرپ پلانے کا اہتمام کرتے رہتے
ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق پچھلے ہفتے اتوارکوشامی صدربشارالاسداورروسی
فضائیہ نے شام کے ایک شہرحلب پرشدیدبمباری کے دوران کلسٹربم برساکرکے قیامت
صغریٰ برپاکردی ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں افرادجس میں بوڑھے افراد،عورتوں
اوربچوں کی کثیرتعدادشہیدہوگئی ہے۔شام میں پانچ برس قبل شروع ہونے والی
خانہ جنگی کے بعدسے اب تک یہ سب سے شدیداورخوفناک بمباری تھی۔صبح سے ہی کی
جانے والی بمباری کے دوران القطرگی،حلک، جمبلنگ،الحیدریہ اوربابس کونشانہ
بنایاگیا۔ شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کے مطابق القطرگی نامی علاقے میں
درجنوں افرادکے پرخچے اڑادیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے شناخت میں بڑی مشکل پیش
آرہی ہے اورفی الحال شہداء کی صحیح تعدادکابھی اندازہ نہیں لگایا جا
سکتا۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اتوارکوحلب پر٧٥سے زائدفضائی حملے کئے گئے،ان
میں سے بیس حملے حلب کے ان راستوں پرکئے گئے جسے اپوزیشن گروہ رسدکی تسلسل
برقراررکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔حلب کے شمال، جنوب،مشرق ومغرب کے علاوہ
وسطی شہرمیں روسی اوربشارفضائیہ نے کلسٹر بم بھی پھینکے،اس دوران راکٹ
اوربارودی بیرلزبھی داغے گئے، اسٹیریو کیمسٹری بارودی سرنگیں بھی پھینکی
گئیں۔اس دوران کسی بھی طیارے سے محاذجنگ پرموجودافرادپرکوئی بمباری نہیں کی
گئی۔
شہرحلب میں رمضان المبارک کے آغازسے ایک روزقبل ہی ایک بڑے انسانی المیے
کاسبب روسی طیاروں کی وہ بمباری تھی جوانہوں نے رمضان المبارک سے پہلے
اوررمضان کے پہلے ہی روزکی۔نشانہ حلب کے عام شہری علاقے تھے جن کابظاہرکسی
جنگی ماحول میں گھرے یامتحارب گروہ کے علاقے سے کوئی علاقہ نہ تھا۔یقینا یہ
خواتین اورکمسن بچے اپنے گھروں اورآنگنوں میں ہی اس روسی بمباری کاہدف بنے
لیکن ان کی جانوں کابڑی تعداد میں اتلاف کسی انسانی حقوق کے بڑے ادارے
یابڑی اورچھوٹی طاقت کیلئے ان بنیادوں پرکوئی اہمیت نہیں رکھتاکہ یہ وہ
بدقسمت اہل شام کے مسلمان تھے جن کی زندگی پچھلے کئی برسوں سے ان کے اپنے
قصاب صفت بشارالاسدسمیت بہت سوں نے ارزاں کررکھی ہے۔ادھراحرارعلوی نے
بشارالاسدکی اہلیہ کے ذاتی محافظ ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
بشارالاسددنیاکے ان چندحکمرانوں میں سے ہیں جواپنے اقتدارکے جائزوناجائز
ہونے کی بحث میں پڑنے والے نہیں بلکہ ان کا عقیدہ اقتدارکے ساتھ ہرقیمت پر
چمٹ کررہنا ہے ۔ان کی ہوس اقتدارکی بھاری قیمت ان کے عوام پچھلی نصف دہائی
سے اداکر رہے ہیں ۔اپنے عوام کی جانوں اورخون کی بنیادپراپنے اقتدار کو
دوام بخشنے کیلئے روس ہی نہیں،ایران بھی ان کاہمنواہے۔ایرانی حمائت یافتہ
لبنانی حزب اللہ بھی اس انسان کشی کی بین المملکتی خونی کھیل میں کئی برسوں
سے بھرپور اندازمیں شریک ہے۔ ایران جوآج کل یہی خدمات عراق میں بھی پیش کئے
ہوئے ہے جہاں اس کے پاسداران انقلاب پرمشتمل فوجی دستے جنرل قائم سلیمانی
کی زیرقیادت عملاًایران اورعراق میں سرحدی تفاوت کوختم کئے ہوئے ہے۔یہی
معاملہ شام کے حوالے سے ایران کاہے۔ایران اپنے انقلاب کیلئے آس پاس کے
ملکوں کی زمین ہموارکرنے اوراردگردنظریاتی پاکٹوں کووسعت وتقویت بخش رہاہے
جواس کے نظریاتی توسیع پسندی کاخاصہ ہے۔
دوسری جانب روس بھی اپنے نظریاتی اتحادی حافظ الاسدکے بیٹے کی بھرپور
سرپرستی سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی اورمفادات کے حق میں ضروری
سمجھتاہے۔اس مقصدکیلئے بشارالاسد،ایران اورروس ایک ہی صفحے پرہیں جبکہ حزب
اللہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنالوہامنوانے اورمستقبل کے عزائم کیلئے ہی نہیں
ایران کے حمائت یافتہ ہونے کے ناطے اورشام میں ایک عملی ٹھکانے کیلئے اپنے
جوانوں کی جانیں دے بھی رہی ہے اوراہل شام کی جانیں بھی لے رہی ہے۔خطے میں
سعودی عرب کے مقابل اپنے مسلکی اختلاف کی بنیادپر اپنے لیے جگہ
بنانااورجہاں جہاں پہلے سے امکانات موجودہیں انہیں مزیداجاگر کرناایران اور
لبنان کی شیعہ ملیشیا دونوں کیلئے اہم ترہے۔
ایک اورپہلواہل شام کی تباہی کاامریکااوراس کے اتحادیوں کی اپنے عالمی
ایجنڈے کے حوالے سے ہے۔یہ امریکی اتحادی بشار الاسدکے ساتھ نظریاتی عدم
قربت سے زیادہ اس خطے میں اپنے براہِ راست اوربالواسطہ مفادات کواہمیت دیتے
ہیں۔اس لئے ان ممالک کے جنگی طیارے نہ صرف یہ کہ روسی طیاروں کی طرح بمباری
کرتے ہیں بلکہ بشارمخالف بعض عسکری گروپوں کواسلحے سمیت مالی اورسیاسی
حمایت دیتے ہیں۔اس ناطے سعودی عرب اوربعض دوسرے ملک بھی اس عالمی
اتحادکاحصہ ہیں۔ اگلاجوطبقہ اس جنگ میں اپنے آپ کواس میں شامل کیے ہوئے ہے
وہ القاعدہ اورالنصرہ فرنٹ نامی مقامی گروپوں کے علاوہ داعش کے عسکریت
پسندبھی ہیں،سعودی عرب اورپوری عرب لیگ بشارالاسدکے مخالف کیمپ میں کھڑی
ہے۔اس ناطے وہ شامی آزاد فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔اسرائیل،اس سارے منظرنامے میں
براہِ راست بھی اور بالواسطہ طورپربھی سب سے زیادہ فائدہ میں ہے۔مشرق وسطیٰ
میں عرب دنیا ایک جانب باہم دست وگریبان ہے اوردوسری جانب ایران اورعرب
دنیاکے درمیان اس معاملے پربھی ایک خلیج ہی نہیں بلکہ جنگی ماحول پایا جا
تاہے ۔اسرائیل ان میں سے کسی کودرپردہ مدددیتاہے یانہیں، یہ واضح نہیں کہ
اس کافائدہ سب سے زیادہ جاری ہے کہ اس عرب تقسیم اوراگلے مرحلے پرعرب ایران
اختلاف کی وجہ سے فلسطین کامعاملہ عملاًبیک برنرپرہے۔امریکااوراس کے یورپی
اتحادیوں کی اکثریت بھی اسرائیل کوہونے والے فائدے پرخوش ہیں کہ اسرائیل کے
حق میں کچھ کہے سنے بغیر ہی اسرائیلی مفادات کوتقویت مل رہی ہے۔
اس پس منظرمیں شام کاتاریخی اہمیت کاحامل شہرحلب سب سے زیادہ آتش وآہن کی
زدمیں رہاہے۔روسی جنگی طیاروں کی تازہ وحشیانہ بمباری اسی شہر پرہوئی
ہے۔۔اب تک کی اطلاعات ہیں کہ روسی جنگی طیاروں کولیکربشارالاسدکی وفادار
فوج ایک اوراہم شہررقہ کی طرف حملے کیلئے کوچ کرچکی ہیں، گویا حلب
کولہولہان کرنے کے بعداگلی منزل کوخون سے غسل دینے کی تیاری جاری ہے۔بہرحال
حلب شہرکی اہمیت کی پیش نظربشار کی وفادارفوجیں بھی اسی شہر پرقابض رہنے کی
کوشش کرتی ہیں اوراس کوشش کے نتیجے میں حلب شہراوراس کے ارد گردجنگ جاری
رہتی ہے۔شہرکے کچھ حصے پر بشارالاسد کی حامی فوج کاقبضہ بھی ہے،کچھ حصے
پرآزادشامی فوج کاکنٹرول ہے۔کچھ علاقوں پرالنصرہ فرنٹ اورداعش وغیرہ کاقبضہ
ہے اوران کے قدم مضبوط ہیں۔ایک چھوٹے سے حصے پر کردباغیوں نے بھی قبضہ کر
رکھا ہے لیکن کوئی گروپ یافوج یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اسے موجودہ پوزیشن
سے پسپائی نہیں اختیار کرنی پڑی ہے،بس فرق یہ ہے کہ کبھی ایک آگے ہوتاہے
تودوسراپیچھے اور کبھی دوسراآگے تو پہلاعسکری گروپ پسپائی کی راہ پر ہوتا
ہے۔بعض اوقات ایک گروہ کی پوزیشن کمزورکرنے کیلئے ایک گروہ دوسرے کی درپردہ
یا خاموش مددلازمی سمجھتاہے۔
حلب پرتازہ روسی وحشیانہ بمباری میں بھی یہی پیٹرن نظرآتاہے کہ روس کے خونی
حملے کی کسی جانب سے ایسی مذمت نہیں کی جاسکی جوآئندہ کیلئے روس کوایسی
بمباری سے روکنے والی ہو۔اس چشم پوشی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اگر روس
نے اس بارماہِ جون میں حلب پربمباری کی ہے تو دوسرے گروپ بھی یہی کرتے رہیں
گے اوراگلے دنوں میں بھی اس کھیل کوسبھی گروپ اورافواج اپنی اپنی
ضرورت،مفاداورحکمت عملی کے تحت جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔شام اوراس کے
ہمسائے میں عراق کاڈسٹرب رہنااوربدامنی کاشکار رہناعالمی اورخطے کی بعض
طاقتوں کیلئے بھی مفیدہوسکتا ہے،اس لئے کوئی ایک ملک رمضان المبارک کاتقدس
پامال کرتے ہوئے حلب کونشانہ بنائے یا شہری آبادیوں کوٹارگٹ کرے،سب کویہی
مفید محسوس ہوتا ہے،اس تناظرمیں یہ کہاجاسکتاہے کہ عالمی طاقتیں شام میں
موت کے اس خونی کھیل کوطوالت دینے کوایک حکمت عملی کے طورپرجاری رکھے ہوئے
ہیں ۔ شام کے بارے دیگر ایشوزپرباہم اختلاف اور ضدہو سکتی ہے لیکن اس
امرپرایک طرح سے اتفاق رائے ہے کہ یہ جنگ طویل ترہوتی رہے تاکہ مشرقِ وسطیٰ
کوکبھی ایک کان سے اورکبھی دوسرے کان کوپکڑناممکن رہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی دولت کسی مثبت کام میں نہ لگ سکے اوریہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں
بدامنی رہے گی توعالمی طاقتوں عالمی کسادبازاری کے باوجوداسلحہ فروخت ہونے
کاامکان رہ سکتاہے۔نیزعالمی طاقتوں کی اسلحہ انڈسٹری چلتی رہے گی اورمشرقِ
وسطیٰ کاتیل اوردولت باآسانی بڑی طاقتوں کی دست وبردمیں رہیں گے۔ مشرقِ
وسطیٰ جتناباہم الجھے گااسرائیل کیلئے اتنا ہی مفیدہوگا اورعالمی طاقتوں
کااسرائیل کیلئے مزیدکچھ ایساکرنے کی ضرورت نہ رہے گی جسے دنیا کے بعض
ملکوں میں بے اصولی پرمبنی اور دوہرے معیار کاحامل سمجھاجاتاہے لیکن تازہ
ترین وجہ وہ بوکھلاہٹ بھی بنی ہے جس کابشارالاسداوراس کے سرپرستوں کوحلب
میں باربارناکامی کاسامناہے۔باربارکی ناکامی نے بشارالاسد اوراس کے
سرپرستوں اور جنگی اتحادیوں اورحواریوں کوبوکھلاہٹ کاشکار کر دیاہے۔اس لیے
انہوں نے حلب میں اب کی بارکمسن بچوں اورخواتین کو بھی بڑی تعدادمیں بمباری
کی زدمیں لانا ضروری سمجھا،حلب جسے پچھلے برسوں سے جنگ نے گھیررکھاہے جس کے
شہریوں کی بڑی تعدادیاتوشہرسے نقل مکانی کر چکی ہے یالقمہ اجل بن چکی ہے
اورجوبچی ہے وہ جنگی جنون میں مبتلا ملکوں اورگروہوں کے نرغے میں ہے۔یہ
شہرایک طرح سے محصورہے، کبھی ایک اورکبھی دوسرا جنگی جنون میں مبتلاگروہ
حملہ آورہوتاہے۔
حلب میں برسوں مئی اورجون کے مہینے اسی طرح لوگ وحشیانہ بمباریوں کا نوالہ
بنتے رہیں ہیں۔مئی اورجون میں حلب کاموسم عام طورپر معتدل ہوتاہے لیکن مئی
اورجون پرموقوف نہیں،جولائی،اگست اوراکتوبرنومبرمیں بھی ایسے حملے ہوتے
رہتے ہیں۔ اب تازہ حملے کے باوجودبشارکی فوج اوراس کے سب سے بڑے عالمی
سرپرست روس کواپنارخ تبدیل کرناپڑاہے گویاحلب میں ابھی بھی بشارکسی بڑے
حربی مقابلے سے خوفزدہ ہے۔اس لیے اب رقہ ان کی بارودی بارش کامرکزہوسکتاہے
لیکن یہ بھی ممکن ہویہ محض ایک جنگی چال ہو۔بشار فوج روسی جنگی طیاروں کے
جلومیں ایک مرتبہ پھرحلب کے لوگوں پرحملہ آورہونے کی تیاریوں میں مصروف
ہے۔ایک اطلاع یہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادی اب حلب میں اپنے مخالفین یعنی
القاعدہ اورداعش وغیرہ کانشانہ بنانے کی تیاری کررہے ہیں لیکن کیاضمانت ہے
کہ امریکی صرف عسکریت پسندوں کوہی نشانہ بنائیں گے یاماضی کی طرح پھرعام
شہریوں کاجانی نقصان زیادہ ہوگا۔
روسی جنگی طیاروں کارخ کدھرہوتاہے یاان کی منزل کہاں قرارپاتی ہے ،یہ طے ہے
کہ عالمی اداروں کوماضی میں امریکایا کسی اورکی جھولی میں گرے رہ کراپناشام
کے بارے کردارنہیں نبھانا چاہئے بلکہ اس انسانی المیے کوبارباردہرائے جانے
کوروکنے کیلئے اپناحصہ ڈالناہوگا۔اقوام متحدہ اوردوسرے فورمز کواب اپنی
سنجیدگی بھی ظاہرکرنی ہوگی اورصلاحیت کااظہار بھی کرناہوگا۔ تبھی ممکن ہے
حلب اوررقہ جیسے دوسرے اہل شام کی بدقسمتی کے دن کم ہو سکیں۔یہ کسی بھی
صورت پسندیدہ نہیں ہوسکتاہے کہ عالمی ادارے بھی موجود ہوں اور عالمی طاقتیں
بھی شام کے بارے میں اپنی حکمت عملی کامیاب بنانے کیلئے سازشوں کے جال بنتے
رہیں۔عالمی اداروں کوسمجھناہوگاکہ بڑی طاقتوں کومشرقِ وسطیٰ میں آگ بھڑکائے
رکھنے کی چھوٹ دیناعالمی اداروں کے شایان شان ہرگزنہیں ہوسکتاوگرنہ انہیں
یہ بات ذہن نشین کرناہوگی کہ اپنی انہی پالیسیوں کی بناءپروہ ایسی منتقم
نوجوان نسل تیارکررہے ہیں جوبالآخران کے اپنے گھروں کوبھی غیرمحفوظ کردے گی
اورانہیں پھردنیامیں امان کی کوئی جگہ نہ مل سکے گی!
خونِ ناحق بہت پی چکی یہ زمین
اب کوئی دن میں یہ خون اگلنے والی ہے |