وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سے اپیل !!

ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ ڈیرہ غازی خان سے ایک متاثرہ خاندا ن نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میرے لئے یہ حیرانی کی بات نہیں تھی کہ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کس طرح رابطہ کرلیتے ہیں، لیکن بے بسی اس وقت شدت اختیار ہوجاتی ہے ، جب ان پر ہونے والے ظلم کو روک نہیں سکتا ۔ پنجاب میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف متحرک ہونے کی وجہ سے عام عوام میں ایک خاص پذئرائی رکھتے ہیں ۔ غریب ، بے بس ، لاچار اور انصاف نہ ملنے والوں کی امید ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح ارباب اختیار کے ایوانوں میں پہنچ جائیں ، لیکن ان کے لئے اپنے چھوٹے سے گاؤں ، شہر سے جانا ، اور اعلی سیاسی یا سرکاری افسران یا شخصیات سے ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس لئے انصاف نہ ملنے کے سبب کتنے گھرانے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ، اس کا کسی کو علم ہی نہیں ہو پاتا ، اور جب انصاف مہیا کرنے والے ادارے کے کرپٹ افسران یا اہلکار اس ظلم کے خود سر پرست ہوتے ہیں تو پھر کسی غریب کو انصاف ملنے کی امید بالکل نہیں ہوتی ۔بلکہ وہ انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بن کر مزید تباہی کے دہانے تک پہنچ جاتا ہے۔کچھ اسی قسم کے اور اس جیسے لاتعداد واقعات ہم اپنی زندگی میں رونما ہوتے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن کچھ نہیں کرپاتے ۔ میڈیا سے عوام کو کافی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور میڈیا کو سب سے طاقت ور ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کچھ میڈیا ہاؤس کی اپنی مجبوریوں بھی ہوتی ہیں ، اس لئے وہ کئی بھیانک جرائم کا پردہ چاک نہیں کر پاتا۔ باقی رہی سہی کسر زرد صحافت پورا کردیتی ہے۔بہرحال ، جنوبی پنجاب کے دوردراز علاقے سے جن متاثرین نے رابطہ کیا تو ان کی درخواست تھی کہ ہماری آواز وزیر اعلی شہاز شریف تک پہنچا دیں ۔میڈیا کے توسط سے اس متاثرہ خاندان اور سرکاری پولیس افسر کے کرتوت وزیر اعلی شہباز شریف تک میڈیا کے ذریعے ارسال ، اس امید کے ساتھ کر رہا ہوں کہ اس متاثرہ خاندان کی مدد ضرور کریں گے۔۔22جولائی2015کا واقعہ ہے کہ ایک تاوان سرکاری پولیس گروپ مافیا جن کے نام متحدہ بلوچ موومنٹ کے چیئرمین وڈیرہ رب نواز مری نے بتایا ، کہ پنجاب پولیس سے تعلق رکھنے والا ایک افسر صرف اپنے پرموشن اور عہدے کی خاطر غریب اور بے بس لوگوں پر جھوٹے مقدمات درج کرکے صاحب حیثیت لوگوں کی کا لیں ٹریس کرتا ہے اور پھر جعلی پولیس مقابلوں میں ان کاؤنٹر کرکے ان کا ماورائے عدالت قتل کرکے اپنے عہدے میں ایک اضافی پھول بھی لگا لیتا ہے۔وڈیرہ رب نواز مری کے مطابق SHOایس ایچ او سٹی خان پورشہنشاہ احمد چانڈیہ شہنشاہ احمد ،پولیس افسر دوست ایس ایچ او تھانہ بھونگ سب انسپکٹرسیف اﷲ ملہی، رانا محمد اسلم سب انسپکٹر تھانہ ماچھکہ ، جاوید مڑل اور فرید چانڈیہ ولد اﷲ بخش ساکنہ کوٹ طاہر تحصیل و ضلر رحیم یار خان اور خالد ولد غلام سرور قوم کھوسہ ساکنہ کوٹ سبزل ، تحصیل صادق آباد نامی پولیس اہلکار ڈیرہ غازی خان سے فرخ جاوید ، پرویزن اور جہانگیر چنڑ کو اغوا کرکے رحیم یار خان لے گئے .۔03اگست 2015کو عابد چانڈیو کے نمبر سے تاوان کیلئے کال آئی،(جو شہنشاہ چانٹیہ کا حقیقی ماموں ہے )جس کی کال ڈیڈ سب کے نمبروں کی لوکیشن ڈیرہ غازی خان سے رحیم یار خان تک میچ ہوئی ، یہ سارا ڈیٹا اکھٹا کرکے ہائی کورٹ ملتان میں رٹ دائر کی گئی ، جس کے جواب میں شہنشاہ احمد نے عدلیہ کو لکھ کر دے دیا کہ ’ بندے اس کے پاس نہیں ہیں ‘۔پولیس افسرنے SHOسیف اﷲ ملہی نے سب انسپکٹر شہنشاہ سے ملی بھگت کرکے جھوٹی ایف آئی آر درج کردی ، اور ریمانڈ پر لیکر ان بے گناہ مظلوموں کو جعلی مقابلے میں ماوارئے عدالت ہلاک کردیا۔تاکہ ان کے شرمناک راز فاش نہ ہوں۔ایس ایچ او سٹی خان پورشہنشاہ احمد چانڈیہ ،پولیس افسر ایس ایچ او تھانہ بھونگ سب انسپکٹرسیف اﷲ ملہی، رانا محمد اسلم سب انسپکٹر تھانہ ماچھکہ ، جاوید مڑل اور فرید چانڈیہ ولد اﷲ بخش ساکنہ کوٹ طاہر تحصیل و ضلر رحیم یار خان اور خالد ولد غلام سرور قوم کھوسہ ساکنہ کوٹ سبزل ، تحصیل صادق آباد نامی پولیس اہلکار کا یہ گینگ اغوا برائے تاوا ن کے ان گنت وار داتوں میں ملوث بتا یا جاتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب آپس میں رشتے دار ہیں ، پولیس محکمہ کی چھتری تلے اغوا برائے تاوان کی بھیانک وارداتوں میں ملوث ہیں با اثر خاندان ہے ، ہائی کورٹ کے آرڈر کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی درج نہیں ہو رہی۔ نا رشتے داروں کے گروپوں کی ملی بھگت سے غریب خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔ لیکن انھیں انصاف نہیں مل پایا۔ مقتول جاوید کا بھائی خوشی محمد ، خان پور تحصیل و ضلع ڈیرہ غازی خان کا رہائشی اور محنت کش ہے۔اس کے جواں سال بھائی فرخ جاوید ،پرویز ولد خدا بخش اور جہانگیر ولد قاسم کو بھی اغوا برائے تاوان کے لئے سٹی خان پور کے تھانے میں رکھا گیا تھا ۔اغوا برائے تاوان پر ان کی ڈیمانڈ پوری نہ ہونے پر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات کرانا اور جھوٹی گرفتاریوں میں قتل کرنا ، ان کے لئے معمول کی کاروائیاں ہیں۔فرخ جاویدصاحب ثروت اور مالی دار اسامی نہیں تھا کہ اسے اغوا کیا جاتا ، لیکن اپنے صاحب حیثیت دوستوں کے ساتھ ہونے کی پاداش میں اسے بھی ناکردہ جرم کی سزا مل گئی ، تین گھرانے اپنے نوجوانوں سے محروم ہوگئے۔ فرخ جاوید ، پرویزن اور جہانگیر چنڑ کو ماورائے عدالت قتل کردیا گیا ۔ فرخ جاوید کاایک بھائی پولیو سے معذور رکشہ چلاتا ہے ، والد طارق باجوہ مقامی ٹرانسپورٹ اڈے پر منشی ہے ۔ جس سے اس کی گذر اوقات نہایت مشکل سے ہوتی ہے۔انصاف سستا نہیں ، ملزمان با اثر ، پولیس محکمہ کی کالی بھیڑیں ، ان کا احتساب کون کرے گا ۔ غریب خاندان کو کون انصاف دلائے گا ، ان کے خلاف انکوائری میں کون ان کا ساتھ دے گا ۔ یہ وہ سوالات ہہیں جن کا جواب کسی کے پاس اس لئے نہیں ، کیونکہ پاکستان میں قانون غریبوں کے لئے بنا ہے اور با اثر افراد کے لئے قانون توڑنے کیلئے۔ مقتولین فرخ جاوید ولد طاروؤق باجوہ ، پرویز ولد خدا بخش اور جہانگیر ولد قاسم کو کون انصاف فراہم کرنے کیلئے انھیں نا جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔ پنجاب پولیس کا نظام اپنی مثال آپ ہے ، پنجاب پولیس کے بارے میں زیادہ تعارف کرانے کی بھی ضرورت نہیں ، کیونکہ پنجاب پولیس کا کلچر صرف امرا کی حفاظت اور غریب کے خلاف ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے ان متاثرین کو انصاف کیلئے میڈیا کے توسط سے عدالت عالیہ ، وزیر اعظم پاکستان اور خاص طور پر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سے کافی امیدیں وابستہ ہیں ، کافی درخواستیں بھی بھیجی ہیں ، لیکن وہ ان تک پہنچی بھی نہ ہونگی ۔ شائد میڈیا کے ذریعے ان خاندانوں پر ظلم ہونے والے روداد کی تفصیلات پہنچ جائیں ، رانا ثنا اﷲ شائد انھیں انصاف فراہم کریں ، ہوسکتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب انصاف فراہم کرنے ان کے گاؤں پہنچ جائیں ، کرپٹ فیملی پولیس افسران کے خلاف آئی جی سندھ پنجاب ایکشن لے لیں اور ان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر ہائی کورٹ کے حکم آنے کے باوجود کٹ سکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں ۔ کاش کہ ایسا ہوجائے ، مجھے ان ارباب اختیار سے امیدیں نہیں ہیں ، لیکن میں قتل ہونواوالے خاندانوں کیلئے صرف یہی کرسکتا ہوں کہ ان کے دکھ ، ان کی تکلیف ، ان پر ہونے والے ظلم اور اغوابرائے تاوان کے سرپرست گروہوں کے اُن کارناموں کو ارباب اختیار تک پہنچا سکوں ، جن سے یہ بخوبی واقف ہیں ۔میری ذاتی طور وزیر اعلی پنجاب ، خادم اعلی پنجاب شہباز شریف سے درخواست ہے ، ڈیرہ غازی خان کے ان متاثرین کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔یس ایچ او سٹی خان پورشہنشاہ احمد چانڈیہ ،پولیس افسر ایس ایچ او تھانہ بھونگ سب انسپکٹرسیف اﷲ ملہی، رانا محمد اسلم سب انسپکٹر تھانہ ماچھکہ ، جاوید مڑل اور فرید چانڈیہ ولد اﷲ بخش ساکنہ کوٹ طاہر تحصیل و ضلع رحیم یار خان اور خالد ولد غلام سرور قوم کھوسہ ساکنہ کوٹ سبزل ، تحصیل صادق آباد نامی پولیس اہلکار کے خلاف قانون کو حرکت میں لائیں اور سال بھر سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے ، اغوا برائے تاوان کی غرض سے لاقانونیت کا شکار مقتولین فرخ جاوید ولد طاروؤق باجوہ ، پرویز ولد خدا بخش اور جہانگیر ولد قاسم کو کو انصاف فراہم کردیں ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744784 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.