برطانوی عوام نے معمولی اکثریت سے یورپ سے الگ ہونے کا
فیصلہ کر لیا۔ رائے شماری میں علٰٰحیدگی کے حق میں نصف سے زیادہ ملک نے ووٹ
دیا۔ تا ہم یورپ سے مکمل طور پر الگ ہونے میں ابھی دو سال کا وقت لگے گا۔
مگر اس رائے شماری کے فوری اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ پاؤنڈ کی قدر میں کمی
ہو رہی ہے۔ یورو کی قدر بھی کم ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس پر
منفی اثرات پڑے ہیں۔ شروع میں پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں 100پوائینٹ کی کمی
ہوئی۔ تا ہم پاکستانی مارکیٹ اب سنبھل رہا ہے۔ اس میں مزید بہتری آنے کے
امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
یورپ سے برطانیہ کے الگ ہونے کے فیصلے نے پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں مندی
کا رحجان پیدا کیا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں پاؤنڈ اور یورو
نا پید ہیں۔ کیوں کہ دونوں کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ جن کے پاس یہ کرنسیاں
ہیں ، وہ انہیں نقصان پر فروخت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔اس لئے انھوں نے
ذخیرہ کر لیا ہے۔نیز برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کے حق میں ووٹ سے تیل کی
قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں۔ پاکستان کے بازار حصص میں بیرونی سرمایہ کاری بھی
اس کے زد میں آئی۔ تا ہم یہ اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔تا ہم اگر غیر ملکی
سرمایہ کاروں نے سٹاک مارکیٹ سے اپنا پیسہ نکال لیا تو پریشانی ہو گی۔ کیوں
کہ بیرونی سرمایہ کار ڈالر کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستا ن کے مارکیٹ سے ڈالر
خریدنے کی وجہ سے روپے کی قدر متاثر ہوئی تو فارن کرنسی ذخائر کم ہو جائیں
گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس صورتحال میں بازار میں مداخلت کرنا چاہیئے۔
ہمارے سٹیٹ بینک کے گورنر وتھرا صاحب ہیں ۔ جو ایک کمرشل بینک سے یہاں آئے
ہیں۔ جبکہ سٹیٹ بینک کا گورنر کمرشل بینک کا تجربہ کار نہیں بلکہ کوئی پی
ایچ ڈی اکانومسٹ یا ماہر ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے میرٹ کا ستیاناس کر رکھا ہے۔
برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ کشمیری تارکین وطن موجود ہیں۔ وہ چھٹیاں
گزارنے ہر سال کشمیر آتے ہیں۔ اس یقینی صورتحال سے وہ بھی تذبذب میں مبتلا
ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر میں ان کا بھی نمایاں کردار ہے۔
انہیں اب یورپ تک بے روک ٹوک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ اس لئے ان کے کاروبار
متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
برطانیہ کے یورو زون سے باہر رہنے کی صورت میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ
اس کے ساتھ یورپ کوئی امتیازی سلوک نہیں کرے گا۔ مگر وزیراعظم ڈیورڈ کیمرون
کا معاہدہ ان کے مستعفی ہونے کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ یورپ کا ایک وسیع
مارکیٹ ہے۔ دنیا یورپی مارکیٹ تک رسائی کے لئے لندن کی راہدری استعمال کرتی
تھی۔ ایشیا خاص طور پر اس کا محتاج تھا۔ اب برطانیہ خود یورپ سے نکل رہا ہے
تو اس پر انحصار کرنے والے کہاں جائیں گے۔ وہ پیرس یا فرینکفرٹ کو ہی اپنی
منزل بنانے پر غور کریں گے۔ دو سال کی معیاد کو مختصر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے
بعد اس میں توسیع بھی تب ہو سکتی ہے جب تمام 27ممالک اتفاق رائے سے یہ
فیصلہ کریں گے۔ جب کہ کئی ممالک ریفرنڈم کے نتائج پر برہم ہیں۔ وہ اس
علٰحیدگی کے ردعمل میں انتقامی کارروائی چاہتے ہیں۔ اس لئے دو سال کی معیاد
میں توسیع کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ اب یہ مسائل حل طلب ہوں گے کہ
جائیداد اور بجٹ کا کیا ہو گا۔ برطانوی باشندوں نے یورپی ممالک میں اور
یورپین نے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔ ایک دوسرے
کے ساتھ تجارت کرنے والی کمپنیاں کیسے سنبھلیں گی۔ نئے ایم او یو تک یہ
تجارت کسے فروغ پائے گی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی آزاد مارکیٹ تھی۔ اب برطانیہ
اس سے نکل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ برطانوی شہری اب یورپ کے ساتھ
آزادانی کاروبار نہ کر سکے گا۔ اسے آزادانہ رسائی نہ ملے گی۔ یورپ کے دیگر
ممالک سے اہم معاہدات ہیں۔ برطانیہ ان سے بھی الگ ہو جائے گا۔ وہ اب دنیا
سے تعلقات کیلئے از سر نو کام کرے گا۔ اس طرح وہ اہم مراعات سے یکسر محروم
ہو جائے گا۔ برطانیہ ہر سال یورپ کے لئے تقریباً 13 ارب ڈالر کی رقم دیتا
تھا۔ یہ اسے بچت ہو گی۔ لیکن اس کے عوض اسے ملنے والی اس رقم سے کئی گنا
زیادہ مالیت کی مراعات سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ خاص طور پر برطانوی کسان
یورپی امداد سے محروم ہو اجائیں گے۔ برطانیہ کو دیگر فنڈز بھی نہیں مل سکیں
گے۔
پاکستان کے لئے ایک خوشخبری یہ ہو گی کہ برطانیہ میں موجود 20لاکھ سے زیادہ
یورپی ہنر مندوں کے نکلنے کی صورت میں یہاں کے ہنر مندوں کی کھپت کا امکان
پیدا ہو گا۔ تا ہم یہ ہنر مند اعلیٰ درجے کے نہ ہوئے تو یہ کمی بھارت اور
چین پوری کریں گے۔
برطانیہ میں اب امیگریشن قوانین بھی مزید سخت ہوں گے۔ جس کا اثر پاکستانیوں
پر بھی پڑے گا۔ برطانوں لوگ اب ویزہ پر ہی یورپ جا سکیں گے۔ ان کا یورپ میں
مستقل قیام مشکل ہو جائے گا۔ برطانیہ کے یورپ سے باہر کئی ممالک سے یہ
معاہدہ ہے کہ برطانوی باشندہ ویزہ کے بغیر تین ماہ تک وہاں قیام کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ اب یورپی ممالک سے کرنا ہو گا۔ برطانوی پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس،
ہیلتھ انشورنس کارڈ بھی اب نئے ڈیزائن کرنا ہوں گے، کیوں کہ ان پر یورپی
یونین کا پرچم اور لوگو بھی ہوتا ہے۔ جبکہ کور صفحہ پر یورپی یونین بھی
لکھا ہوتا ہے۔
ریفرنڈم نے برطانیہ اور یورپ کی چالیس سالہ رفاقت ختم کر دی ہے۔ تا ہم اس
ریفرنڈم نے دنیا بھر میں ریفرنڈم کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ کشمیری
بھی ریفرنڈم کے نام سے شناسا ہیں۔ بھارت نے اس کا وعدہ یا ہوا ہے۔ لیکن وہ
اس وعدہ پر عمل کرنے سے ڈرتا ہے۔ سلامتی کونسل نے کشمیر میں ریفرنڈم کرانے
کے لئے قراردادیں منظور کی ہوئی ہیں۔ جن پر عمل کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔
عوام سے ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے پوچھی جانی چاہیئے۔ بھارت
نے بندوق کی نوک پر ایک قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ اگربرطانیہ سے سبق
سیکھ لے ،تو کشمیر میں ریفرنڈم کرانے میں مزید دیر نہ لگائے گا۔ برطانیہ کا
یورپ سے باہر نکلنا جیسا بھی ہو،اتفاق رائے سے نہیں بلکہ عوام کی اکثریت نے
اس کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ دنیا کی مہذب قومیں عوام کی رائے کا احترام کرتی
ہیں۔ ایسا ہی یورپ کر رہا ہے۔ یہ امید کی اج رہی ہے ہے یورپ برطانیہ کے
عوام کی رائے کا احترام کرے گا اور یہاں کے عوام کو کسی انتقام کا شکار
بنانے کے بجائے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے جائیں گے۔ |