کیا مایاوتی اترپردیش کے مانگوں میں اجالا کر پائیں گی؟

سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے کہ دہلی کا راستہ اتر پردیش سے ہو کر گزرتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام پارٹیاں اترپردیش کو ترجیح دیتے ہوئے اپنا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں 2014 ء کے عام انتخابا ت میں برسراقتدار پارٹی کو زبردست جیت اس لئے ملی کہ اتر پردیش کے نوجوان کو اقتصادی ترقی اور فیصلہ کن حکو مت کے وعدوں میں امید کی نئی کرن نظر آئی تھی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اترپردیش کی سوچ ہمیشہ سے منفرد رہی ہے یہی وجہ ہے کہ صوبہ اترپردیش نے وطن عزیز کو سب سے زیادہ وزرائے اعظم سے نوازا ہے۔ اتر پردیش جس طرح سوچتا ہے ملک کے باقی صوبے اس طرح سوچنے سے قاصر ہیں۔ ہم حالیہ انتخابات کی بات کریں تو ایک بار پھر اترپردیش اسمبلی انتخابات کے لئے سرگرمیاں ان دنوں تیز ہو رہی ہیں سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے، پارٹی لیڈروں کے ساتھ گٹھ جور اور تعلقات تلاش کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

۷۱۰۲ کے انتخابات کے تعلق سے اترپردیش میں ابھی تک صوبہ بہار کی طرح مہاگٹھ جوڑ بننے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے ایسے میں سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو اور اکھیلیش یادو کے لئے امتحان کی گھڑی ہوگی کہ وہ اس انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہونگے یا شکست سے دو چار؟،کیونکہ تمام بڑی پارٹیاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپنے میں لگی ہوئی ہے۔ بہار چناؤ کے بعد اب آسام، تمل ناڈو، کیرل، مغربی بنگال، پنڈوچیری اسمبلی چناؤ نتائج سامنے آنے پر سیاسی حالات اور نظریات دونوں میں تبدیلی آئی ہے۔ برسراقتدار سماج وادی پارٹی اور اس کے لیڈر ملائم سنگھ پر نریندر مودی اور امت شاہ کے تئیں نرم دلی کا الزام ہے۔ عام لوگوں میں چناوی وعدے پورا نہ کر نے کا احساس ہے، حالانکہ سرکاری اشتہاروں کے اندر اترپردیش میں ترقیات کی لمبی فہرست ہے، وزیر اعلیٰ اکھیلیش نے چھٹی بار کابینہ کی توسیع مین ذات برادری، فرقہ اور دبنگ امیج کے لوگوں کو موقع دیا ہے، لیکن اتر پردیش میں زور آوری اور فرقہ وارانہ کشیدگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دلتوں اور مسلمانوں کو جان و مال اور تحفظ کا خطرہ لاحق ہے۔

اتر پردیش اسمبلی چناؤ جیتنے کے لئے بی جے پی نے آر ایس ایس کے ساتھ پوری پلاننگ دو سال پہلے سے ہی کر رہی ہے، پارٹی کے قومی صدر امت شاہ لوک سبھا چناؤ میں بھی اتر پردیش کے صدر تھے اور صوبہ کی اسی ۰۸ سیٹوں میں سے ۳۷ سیٹوں پر جیت درج کرانے کی وجہ کر شاہ کا ستارہ بلند ہوا تھا، پر اب یو پی ہی ان کے لئے ایک بڑا چیلینج ہے۔ دہلی اور بہار کو چھوڑ کر امت شاہ کی پالیسی کو ہر جگہ کامیابی ملی ہے بتایا جاتا ہے کہ امیت شاہ اتر پردیش میں بھی آسام کی انتخابی پالیسی پر کام کر رہے ہیں اس کے لیے ان کی کوشش ہے کہ سیکولر پارٹیاں جس قدر زیادہ ہو منتشر ہوکر میدان میں اترے، تا کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ براہ راست اسے پہنچ جائے، دوسری طرف ان کی کوشش ہوگی کہ انتخاب سے قبل چاہیے چھوٹا ہی سہی ایک دو فسادات ہوجائے تاکہ ہندو ووٹوں کو مذہبی رنگ میں رنگ کر متحد کیا جاسکے،

اب اترپردیش کی عام جنتا کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا طاقتور مانا جانے والا صوبہ دوسری پس ماندہ ریاستوں سے بھی پیچھے ہو گیا ہے، بہت شدت سے اتر پردیش کی عوام کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اب اترپردیش کے اسمبلی چناؤ ں کے موقع پر صحیح سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے صوبہ کی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جائے، اسے کسی نتیش کی تلاش ہے جو اس کے صوبہ کو بچھڑے پن کے گڈھے سے نکال کر ترقی کے راستے پر لا کر کھڑا کرے۔ پانچ سال میں اکھلیش تو نتیش نہیں بن سکے اور نہ ہی اپنی کارکردگی سے ریاست کے عوام کو مطمئن کیا، کیا مایاوتی اترپردیش کی مانگوں میں کوئی نیا رنگ بھر سکتی ہیں، اس لیے انہیں اویسی، عامر رشادی، جیسے مسلم پلیٹ فارم کے رہنماؤں سے ہاتھ ملانا ہوگا اور آسام میں کانگریس جیسی ہٹ دھرمی سے گریز کرنا ہوگا اور دلت مسلم اتحاد کے فارمولے پر عمل کر کے ایک دوسرے پر اعتماد کو بحال کرنا ہو گا، ورنہ ووٹوں کے بندر بانٹ سے سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔

NAUSHAD USMANI
About the Author: NAUSHAD USMANI Read More Articles by NAUSHAD USMANI: 2 Articles with 1128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.