آغاز کہاں سے کریں؟

 پاکستان میں اس وقت ا حتساب کے متعلق دو قسم کے نظریات پر بحث چل رہی ہے ۔ایک قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہیے یعنی سب سے پہلے وزیر اعظم ، صدر گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ، وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے اشخاص کا ‘ اس کے بعد احتساب کا یہ عمل آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آجائے تو اس طرح معاشرے سے کرپشن ختم ہوسکتی ہے اور معاشرہ ٹھیک ہوسکتا ہے ‘ اس سوچ کے حامل لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرہ ایسے ہی ٹھیک ہوگا ، حکمران جب تک جوابدہ نہ ہو‘اس وقت تک عام آدمی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے نظریے کے ماننے والے اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ ان کے خیال میں معاشرے سے کرپشن لوٹ کھسوٹ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک عام آدمی ٹھیک نہیں ہوتا‘عام آدمی ہی نیچے سے اوپر جاتا ہے جو کرپشن یا لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوجاتا ہے یا جب تک عام آدمی ٹھیک نہیں ہوتا اس وقت تک حکمران بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے یعنی جیسا دیس ویسا بھیس۔ حکمران اسلئے کرپٹ ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ عام لوگ بھی کرپٹ یا ظالم ہے ‘اسلئے وہ بھی ٹھیک ہے‘جو ان کے جی میں آتاہے وہ کرتے ہیں۔میں یہاں پر یہ عرض کروں کہ جب لوگ صحیح ہوں ، ان میں اخلاقی ، سماجی ، مذہبی،سیاسی شعور ہو تو اس معاشرے پر کسی حکمران کو کیوں مسلط کیا جائے گا؟یا اس معاشرے کے لئے قانون کیوں بنایا جائے گا ؟ اسلام میں یا اسلام سے پہلے کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو تمام پیغمبروں کا آنا اسلئے ہوا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کریں تاکہ لوگ صحیح ہوجائیں غلط کام چھوڑ دے اور ایک اﷲ کومانیں جن پر لوگ ایمان لاتے ہیں‘ ان کے فالورز بن جاتے ہیں ، ان کی تائید کرتے ہیں جو نافرمان بن جاتے ہے اور پیغمبر کے تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، وہ لو گ تباہ ہو جاتے ہیں اوراس طرح پورا معاشرہ غرق و تباہ ہوجاتا ہے۔
لیکن سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرے میں پہلے سے بگاڑ ہووہ اپنے حکمران کی بات پر بھی عمل نہ کریں تو اس کا الزام ان کو نہیں دیا جاتا بلکہ اس معاشرے کودیا جائیگالیکن اگر سربراہ خود ہی ٹھیک نہ ہوتو وہ اس معاشرے کیلئے کیا مثال بنیں گے یا لوگ ان کی باتوں پر عمل کیوں کریں گے ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ معاشرے کو درست کرنے کیلئے عام لوگوں اور سربراہ مملکت کو ٹھیک ہونا ہوگا تو پھر معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے لیکن یہاں تو یہ مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ آپؐ جس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے وہاں تو بچیوں کوزندہ درگو ر کیا جاتا تھا لوگوں میں ظلم وزیادتی عام تھی‘ غریبوں کی کوئی زندگی نہ تھی یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قصہ تھا۔آپؐ نے اپنے اخلاق اور عمل سے معاشرے کو ظلم وزیادتی سے پاک کیا ، انہوں نے ثابت کیا کہ ایمانداری سے بہتر کوئی شے نہیں ، مسلمانوں کے علاوہ ان کے مخالف یا نہ ماننے والے بھی ان کی ایمانداری کے قائل تھے اسلئے ان کے پاس امانت رکھا کرتے تھے کہ آپؐ امانت میں خیانت نہ کرتے تھے ۔آپ نے اپنے عمل سے لوگوں کو اپناگرویدہ بنایاجس سے سبق ملتا ہے کہ اگر حکمران ایماندار ہو تو عام لوگوں کی زندگی پران کا اثرہوتاہے اور ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ معاشرے میں امن ، ظلم وزیادتی کو ختم کرنے اور پرامن معاشرہ بنانے کیلئے جہاں احتساب کا عمل اوپر سے نیچے یانیچے سے اوپر ضروری ہے وہاں سب سے پہلے سزا وجزا کاقانون ہونا چاہیے، معاشرے اسلئے تباہ نہیں ہوتے کہ وہاں احتساب کا عمل اوپر سے نہیں ہوتا یعنی سربراہ مملکت جواہدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی معاشرہ اسلئے تباہ ہوتا ہے کہ نیچے کے لوگ ایماندار نہیں ہوتے وہ خود کرپٹ اور نااہل ہوتے ہیں اس لئے ان پر حکمران بھی ویسے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں معاشرہ تباہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب قانون سب کے لئے برابر نہ ہو،امیر کیلئے ایک قانون اورغریب کے لئے دوسرا قانون ہو تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے‘ ظلم وجبر عام ہوجاناہے ۔ اس لئے اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ احتساب کا آغاز کہاں سے کریں بلکہ جو بھی قانون کو توڑے ان کے خلاف کارروائی ہو۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں احتساب اوپر سے اسلئے ہونا چاہیے کہ نیچے کے لوگ تو حکومت کے سامنے بے بس ہوتے ہیں ، عام لوگ ہر وقت قانون کو جوابدہ ہوتے ہیں لیکن حکمران قانون سے بچ جاتے ہیں ۔ اگر گھر کا سربراہ اعلان کرے کہ میں کرپشن لوٹ مار نہیں کروں گا ، مجھے وزارت، سرکاری ٹھیکوں سے پیسے نہیں چاہیے تو یقینی طور پر ان کے وزرا بھی کرپشن اور لوٹ مار سے پرہیز کریں گے یا کم کریں گے اور جب ان کو یہ معلوم ہوکہ مجھ سے سوال وجواب بھی ہوں گے ، میں اپنے سربراہ کو جوابدہ ہوں گا تو وہ انتہائی کوشش کرے گا کہ کرپشن اور لوٹ مار سے بچوں ۔جب ملک کا وزیراعظم خود کرپٹ ہو، سیاست اور حکمرانی سے پہلے ان کاایک کارخانہ اور سیاست اور حکمرانی کے بعد ان کے 28کارخانے بن جائیں‘ جو اداروں کے سربراہوں کو اپنے پسند اور ناپسند کے مطابق تعیناتی کرتے ہو ‘ وزراتوں اورٹکٹ دینے کے پیسے لیتے ہو جس کا خود کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں نام ہو، جو خود احتساب سے ڈرتا ہو وہ دوسروں کا احتساب کیا کرے گا؟ دوسرے کرپٹ افراد ان سے کیوں ڈریں گے یا وہ کیوں جواب دیں گے؟ آج کے جمہوری دور میں احتساب اوپر سے ہواور حکمران پہلے قانون کے سامنے جوابدہ ہو تو عام لوگ بھی قانون کو کراس نہیں کرسکتے ۔ قانون اور احتساب سب کے لئے برابر ہو تو پھر معاشرہ تباہ نہیں ہوتا بلکہ یورپ اور امریکا کی طرح تر قی یافتہ بن جاتا ہے ۔بے گناہ افراد اورسچاانسان کبھی قانون یا احتساب سے نہیں ڈرتابلکہ گنہگار اور قصور وار شخص ہی قانون سے ڈرتا ہے‘ ہمیں اپنے معاشرے کو کرپشن اور لوٹ مار سے بچانے کیلئے قانون سب کیلئے برابر کرنا ہوگااور کہی نہ کہی سے احتساب کا آغاز کرنا ہوگا۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226096 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More