گجرات قتل عام ہندوستان کی سیکولر روایات
اور جمہوری اقدار پر ایسی کاری ضرب ہے جسے شاید ہی کوئی بھول پائے ۔اس ملک
کی گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی اسے ایک بے نظیراور منفرد درجے پر فائز
کرتی ہے،جس کی بیشمارمثالیں پورے ملک میں بکھری پڑی ہیں۔ جسے صرف ملک میں
ہی نہیں بیرون ملک بھی رشک و قدر کی نگاہ سےدیکھا جاتا ہے ۔یہ کوئی سادہ
بات نہیں ۔بلکہ یہ ایک ایسا امتیازی وصف ہے، جسے اس ملک میںبسنے والے
ہندو،مسلمان اور سکھ عیسائیوں نے اپنی بے پناہ قربانیوں اور بلیدانوںکے
ذریعے مستحکم و توانا کیا ہے ۔ گجرات قتل عام ہندوستان کے ماتھے پر ایسا
بدنما داغ بن کر ابھرا ہے ،جس کی مذمت اس وقت دنیا کے تمام امن پسند ممالک
نے کی تھی ۔اس وقت وہاں کے روح فرسا حالات کی چشم دید رپورٹ مختلف زبانوں
کے صحافیوںاور این جی اوز کے ذریعے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہیں ،
بعد میں کچھ کتابیں بھی تحریر کی گئیں، جن میں سبھاش گتادے کی کتاب
’گوڈسیز،چلڈرن : ہندتو ٹیرر ان انڈیا ، ویبھوتی نارائن کی سمپردائیک دنگے
اور بھارتیہ پولس ،اور ویبھوتی نارائن کی ہی ’ کرفیو ان دی سٹی اور ایس ایم
مشرف کی’ کرکرے کا قاتل کون ؟ ‘جیسی کتابیں قابل ذکر ہیں ۔
حال ہی میں مشہور خاتون صحافی رعنا ایوب نے گجرات ۲۰۰۲ ءمیں ہوئے فرقہ
وارانہ فسادات کی اپنے طور پر اس طرح منفرد انداز میں رپورٹنگ کی کہ وہ
حقائق جن پر سرکارپردہ ڈال رہی تھی انہیں بھی بے نقاب کردیا ۔رعنا ایوب نے
اپنی ان تلخ ترین یادوں کو ’ گجرات فائلس ‘ کے عنوان سے انگریزی میں تحریر
کیا ہے ۔اس خاتون صحافی کی جرأت و بیباکی کا یہ عالم تھا کہ حالات کی
سنگینی اور فرقہ ورانہ شدید منافرت کے ماحول میں جب انہوں نے یہ محسوس
کیاکہ اس صورت میں ان کے لئے ایک صحافی یا رپورٹر وہ بھی مسلم خاتون کی
حیثیت سے اصل حقائق کی تلاش و تحقیق ممکن نہیں ہے ، تب انہوں نے ایک امریکی
نژاد فلمساز میتھلی تیاگی بن کر ریاست گجرات کے اہم ترین سرکاری ، غیر
سرکاری اور سیاسی افراد کا انٹرویو لیا ،جن میں مایا کوڈنانی ، جی ایل
سنگھل وغیرہ شامل تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اشوک نارائن سے بھی جو فسادات
کے دوران ریاست گجرات کی وزارت داخلہ میں سکریٹری تھے، ملاقات کی۔ پھر
انہوں نے اپنی کتاب ’گجرات فائلس ‘ میں ان تمام حقائق کی تفصیلات جمع کردیں
جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی تھیں جسے پڑھنے کےبعد گجرات سرکار کی
باگ ڈور سنبھالنے والے سیاسی لیڈران اور سفاک نوکر شاہوں کی سازشوں کے ایسے
ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور کلیجہ منھ
کو آجائے ۔
گذشتہ ہفتے’ گجرات فائلس کے کچھ ترجمے اور اقتباسات مختلف اخبارات میں شائع
ہوئے ، اس ضمن میں اردواخبارات میں سب سے پہلے ممبئی سے شائع ہونے والے
اردو روزنامہ ’’ ممبئی اردو نیوز ‘‘ نے پیش رفت دکھائی اور کئی صفحات پر
مشتمل ترجمے اور اقتباسات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ شائع کی جسے قارئین نےبے
حد پسند کیا اور اردو نیو ز کے دفتر میں دن بھر شکریئے کے فون بھی آتے رہے
۔انہی صفحات میں اتواریہ کے کالم میں رعنا ایوب کی جرأ ت و بیباکی کو سلام
کرتے ہوئے یہ اپیل بھی کی گئی تھی کہ اردو کے ثروت مندافراد آگے بڑھیں اور
اس کتاب کا اردو ترجمہ کروائیں تاکہ ان حقائق سے کم از کم اردو کے قارئین
بھی کما حقہ باخبر ہو جائیں ۔ اس پیش کش اور گذارش پر لبیک کہتے ہوئے گذشتہ
دنوں مشہور گجراتی فلم ساز ابوالکلام جالنوی ( بابو )بڑی فراخ دلی اور خلوص
سے ’ اردو نیوز ‘ کے دفتر تشریف لائے اور اس چشم کشا رپورٹ کی اشاعت پر
مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جو اصحاب بھی اس ضمن میں آگے بڑھیں گے میر ا
مکمل تعاون انہیں حاصل ہوگا تاکہ جلد از جلد یہ کتاب شائع ہوسکے ۔ اس تعلق
سےوہ ان نمبروں پر مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔
( 9324164382-9969488882) گجراتی زبان میں بابو، اب تک تین فلمیں بناچکے
ہیں ۔ان کی ایک فلم ’ ماں وینا سنوسنسار ‘ ( ماں کے بغیر دنیا سونی ہے ) کو
گجرات سرکار نے۸۲۔۱۹۸۱ءمیں بیسٹ فلم کے طور پر منتخب کرکے دس ہزار (
10000/-)روپئےکا چیک بھی دیا تھا، لیکن انہوں نے وہ چیک احتجاجا ً واپس
کردیا ۔ اس تعلق سے انہوں نے بتایا کہ جب تخلیق کار وں کی ایک بڑی تعداد نے
ملک میںبڑھتی نراجیت، بے چینی اور شدید بے یقینی کے حالات کے خلاف احتجاجاً
ایوارڈ و انعامات حکومت کو لوٹانے شروع کئے تو میںنے بھی ایوارڈ کی سند، دس
ہزار روپئے کے چیک ساتھ صدر جمہوریہ ہند کو واپس کردی ، فلم ساز ابوالکلام
جالنوی ( بابو ) کی کمپنی کا نام ’ یونائٹیڈ فلم میکرس ‘ ہے جس کے بینر تلے
اب تک تین فلمیں ریلیز کی جاچکی ہیں ،جس کی ڈائرکشن مشہور ہدایت کار میہول
کمار ( محمد بلوچ ) نے کی ۔ بابو کہتے ہیں کہ فی الوقت گجرات میں ہم جیسے
لوگوں کیلئے کام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، کیونکہ تنگ نظری اور فرقہ پرستی
کسی عفریت کی طرح بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے
جب ایوارڈ ملا تھا ، اس وقت مجھے ’گربا ‘ کے پروگراموں میں بطور مہمان
خصوصی بلایا جاتا تھا ، لیکن اب تو ایسی پارٹیوں میں مسلمانوں کا داخلہ ہی
ممنوع ہوگیا ہے ۔ حالانکہ وہ آج بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے
والی فلمیں بنانے کیلئے تیار ہیں ۔
رعنا ایوب کے تعلق سے وہ کہتے ہیںکہ میں ان کے اس تحقیقی کارنامے سے بے حد
متاثرہوں۔’ گجرات فائلس ‘ ایک انتہائی اہم کتاب ہے اور وہ اس لئے نہیں کہ
یہ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی کے صدر امیت شاہ،گجرات فسادات اور فرضی
مڈبھیڑوں کا راز فاش کرتی ہے بلکہ اس لئے کہ یہ کتاب ایک ایسے وقت میں منظر
عام پر آئی ہے جب زبانوں پر تالے لگائے جارہے ہیں اور قلم والے ہاتھ قلم
کئے جارہے ہیں ۔جب صحافیوں ا ور دانشووںنے اپنی سچائیوں کی نیلامی بولیاں
خود لگا نی شروع کردی ہیں ، ایسے میں رعنا ایوب نے جس جرأ ت و بے باکی کا
مظاہرہ کیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ، ہم ان کی ہمت اور بے
خوفی کو سلام کرتے ہیں ۔میری یہ بھی خواہش ہے کہ کتاب کے ترجمے اور اشاعت
کا کام جلد از جلد ہو جائے تاکہ وہ مسلمان جو ہزاروں خانوں میں بٹے ہوئے
ہیں ، ان میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہو۔آخر ہم لوگ کب تک منتشررہ
کرظلم وستم سہتے رہیں گے ۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا
او ر ثروت مند طبقہ آگے بڑھے اور اس کے اندر عوامی سطح پر کچھ کرنے کا
جذبہ پروان چڑھے اور ہم ایک رعنا ایوب پر منحصر نہ ہوں بلکہ قوم کا ہرشخص
رعنا ایوب بن جائے ۔ ابوالکلام جالنوی کی خواہش ہے کہ اس کتاب کی اردو زبان
میں منتقلی کیلئے انگریزی اور اردو زبانوں پر عبور رکھنے والے ماہرین ان سے
رابطہ قائم کریں تاکہ اس کتاب کا روشن و بامحاورہ ترجمہ کیا جاسکے اور
قارئین کو ایک ایسی کتاب پیش کی جائے جسے پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی دشواری
نہ ہو۔ |