محمد فاضل مغل ناروے
ریاست جموں و کشمیر جو 84570 مربع میل پر محیط اوردو کروڑ انسانوں کا ملک
ہے۔یہ تقریباً پانچ ہزار سال سے تاریخ کے اوراق پر موجود ہے۔یہ ریاست جموں
وکشمیر برصغیر کی ایک مصدقہ آزاد خود مختارمملکت کے طور پر چلی آ رہی ہے۔بد
قسمتی سے اپنوں کے ہاتھوں سے غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلی گئی۔مغلوں کے
بعد انگریز آئے اور یہ ریاست انہوں نے پچھتر لاکھ کے عوض ڈوگرہ گلاب سنگھ
کے ہاتھ فروخت کر دی۔جس کے اوپر فرزندعلامہ اقبال نے کہا کہ
قوم فروختندچے ارزاں فروختند
ڈوگرہ راج میں ریاست جموں کشمیر ایک سوسال آزاد و خود مختار رہی۔انگریز
تقسیم ہند پر ایک ایسا معمہ چھوڑ گئے جو آج تک حل نہ ہو سکا۔تقسیم بر صغیر
پر بابائے قوم حضرت محمد علی جناح نے متعدد بار بیانات دیے کہ ریاستوں کا
معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑا جائے۔وہ اگر ہندوستان سے الحاق کرتے ہیں یا
پاکستان سے یا پھر خود مختار بھی رہ سکتے ہیں۔مگر چودہ اگست انیس سو
سنتالیس کو دو ملک آزاد ہو گئے مہاراجہ نے دونوں ملکوں سے معاہدہ کی
درخواست کی۔بھارت نے کوئی جواب نہ دیا لیکن مملکت پاکستان نے معاہدہ جوں کا
توں کر کے تسلی دی۔ادھر بائیس اکتوبر کو کشمیر کے فاتح بننے کے شوق میں
پاکستانی وزیر داخلہ عبدالقیوم نے قبائلی لشکر کشمیر میں داخل کر دیے۔جنہوں
نے ریاست میں داخل ہو کر خوب لوٹ مار کی خواتین کی آبرو ریزی کی۔ریاست جموں
کشمیر میں جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست میں لوٹ مار اور آبرو ریزی
دیکھی اپنی ریاست بچانے کی خاطر بھارت سے مدد طلب کی۔
چنانچہ ستائیس اکتوبر انیس سو سنتالیس کو بھارتی افواج کشمیر میں داخل
ہوئیں اور دونوں ممالک کی افوج پٹھان کوٹ پر متصادم ہوئیں۔اس کے بعد بھارتی
وزیر اعظم جواہر لال نہرو اس معاملے کو اقوام متحدہ لے گئے۔جہاں دونوں
ممالک کے مابین ایک معاہدہ ہوا کہ ریاست جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر
نگرانی رائے شماری کرائی جائے گی۔اور قوم کا رائے شماری کے بعد فیصلہ کر
دیا جائے گا۔لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ رائے شماری کے بعد دونوں ممالک اس کے
مالک بن گئے۔اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں تین جنگیں ہوئیں۔کشمیری
قوم غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی چلی گئی۔ان دونوں ممالک ی افواج کا
کشمیری نشانہ بنے مگر رائے شماری نہ ہو سکی۔جس کے نتیجے میں دونوں ممالک
اسلحہ کے انبار لگاتے چلے گئے اور آج دونوں عالمی طاقت بن چکے ہیں۔جو پوری
دنیا کے لیے انتہائی خطرناک صوررتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔بنیادی وجہ
کشمیر کا حصول ہے کہ وہاں کے وسائل پہ قبضہ ہو جائے۔اب دونوں مملک کو پانی
درکار ہے اور یہ کہ وہاں کے وسائل پہ قبضہ ہو جائے۔جبکہ وہاں کے انسانوں سے
کوئی مطلب نہیں کشمیر کے جنگلات جو کہ وہاں کا قدرتی حسن تھے برباد کر دیے
گئے ہیں۔جس کی وجہ سے ماحول خطرناک حد تک گرم ہو گیا ہے۔دنیا کے سب سے بڑے
گلیشئیر پگھلنے شروع ہو گئے ہیں۔
یہ پانی کی جنگ عالمی خطرہ کی علامت بن رہی ہے۔مگر دنیا کے ممالک اس خطرہ
سے بے خوف ہیں۔اگر دو بم چل گئے تو کرہ ارض پر کوئی ذی روح نہ رہ سکے
گی۔دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں گے اور یوں قیامت برپا ہو جائے گی۔دنیا کے
امن کی خاطر اور اپنی ترقی کے لیے اگر یہ دونوں ممالک ماس مسئلہ کو باہمی
مفاہمت حاصل کر لیں تو ترقی کی دوڑ میں یورپ سے بھی آگے نکل جائیں۔
مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ دونوں ممالک کشمیر سے اپنی افواج نکال لیں۔اور
اقوام متحدہ کے زیر نگرانی آزاد رائے شماری کرائی جائے۔تاکہ دنیا کا امن
قائم رہ سکے اور اور ماحولیاتی آلودگی کے خطرے سے محفوظ رہا جا سکے۔
|