تاریخ ایک مکالمہ ہے ماضی اور حال کے
درمیان جس سے مستقبل روشن کیا جاسکتا ہے ۔آزادی کے بعد بھی مسلم اُمہ
اسلامی جمہوریہ میں آزادانہ زندگی بسر کرنے کی خواہش جولے کے آئی تھی وہ
ویسی کی ویسی رہی ۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں جوحالت دیکھنے کوملتی ہے
ماتم کرنے کوجی چاہتا ہے ۔ہمارہ اسلام اور اسلامی جمہورہمیں محبت کا درس
دیتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمیں بچپن سے نفرت آمیز ماحول دیا جاتا ہے۔
مافیاسسٹم ہمارے اردگرداحاطہ کیئے ہوے ہے ۔احمدندیم قاسمی صاحب نے کیا خوب
فرمایا ؔ ۔۔
سوچنا!حدِنظر سے آگے سوچنا بھی جرم ہے ۔
واقعی ہمیں ایک محدود علاقہ متعین کردیا گیا ہے جس میں رہ کے اتنا سوچنا ہے
جس کی اجازت امام ِ اجارہ دار عطافرمائیں گے ۔میں ایک متوسط گھر کا دیہاتی
فرد ہوں جب اپنے اردگرد کے دائرے کوپرکھنے کی غرض سے دیکھتا ہوں توگھٹن
محسوس کرتا ہوں۔فیض صاحب نے فرمایا تھا۔۔
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تونہیں
واقعی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ سحر نہیں ۔یہ وہ اسلام کے جمہور کی خواہش
نہیں یہ ملک ان جذبوں کا عکاس نہیں جنہوں نے ایک نعرے کی مخالفت میں ـــ(قومیں
رنگ ،نسل،لباس اور ایک زبان سے وجودپذیر ہوتی ہیں )ایک نعرہ ِ حقیقی کہ جس
کی بنیاد خالصاََ لاالاالہ اﷲ تھی یہ نعرہ ذہنی حقیقت کا عکاس تھا اس آواز
میں سچائی تھی جذبہ ِ ایماں تھا ۔یہ لفظ وہ لفظ تھا جس کوبابائے اردو مستقل
لفظ کہتے ہیں یہ بات وہ بات تھی جسے حکیم الامت
دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
کے انداز میں بیان کرتے ہیں ۔یہ بات دل سے نکلی تھی اس میں جدت ِ پرواز تھی
اور اس کی سچائی میں ایک آزاداسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آگیا مگر خدا
جانے اس سچائی اور حقیقت کے ساتھ کون سی بیرونی فورس آکے ٹکرائی جو اس کی
جدت اس کی طاقت میں ماند پڑنی شروع ہوگئی ۔حقیقت میں وہ ماسٹر مائنڈ جذبہ ء
ایمانی سے مشرف لوگ اس جہان ِ فانی سے رخصت ہو گئے ۔
ہم بچپن میں جب جالب صاحب کی انقلابی نظمیں اُردو میں اور سرائیکی میں
محترم سرورکربلائی ،جہانگیرمخلص ،شاکرشجاع آبادی صاحب کی ریاست پہ جاہل
مافیاکی حکمرانی کے خلاف اعلیٰ فلسفیانہ ادب پڑھتے تھے تومیں اکثر اپنے
والدِ محترم سے ایک سوال پوچھتا تھا کہ باباجان کیا ہماری ریاست کے آئین
میں ہے کہ چند لوگ باربار اس ریاست پہ حکومت کریں گے اور دوقومی نظریہ
جوحقیقت میں مسلمانوں اور دوسری اقوام میں تفریق کرتا تھا اب وہ صرف مسلم
اقوام میں فرق پیدا کرے گا ؟برائی کا صدباب جڑسے کرنا چاہیئے اگر آج ہم
رمدانی ،برمانی اور لغاری ایک دوسرے کے مخالف ہیں تو صرف ان چند لوگوں کی
سوچ کارفرما ہے جو اس تفریق میں ڈال کر سیاست کرتے ہیں کہ ہر زندہ قوم اپنے
حقوق کی جنگ اکیلی لڑتی ہے ۔دراصل وہ لوگ یاوہ قوم کون ہوتے ہیں ؟وہ ہمارے
اپنے ہوتے ہیں وہ ہماری ثقافت کے رکھوالے ہوتے ہیں ہماری خوشیوں میں اضافہ
کرنے والے چراغ اور ہمارے دکھ میں آسرا بننے والے ہوتے ہیں ۔ابوہم سیاست کی
بھینٹ میں ان اپنوں سے کیوں غائر کی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں
۔توباباجان ہمیشہ مجھے اس دکھ کو مزید کھول کے بتاتے تھے کہ بیٹا اگرہم
غریب سکون کی نیند سوگئے توامیرِ شہر کی نیندیں حرام ہوجائیں گی ۔اگرہم
اپنے عزیزوں سے محبت کرنے لگ گئے تو جابروقت کے عزیزخفا ہوجائیں گے ۔میری
گزشتہ عمر میں ہمیشہ ہماری دوقومیں رمدانی اور برمانی قوم ایک دوسرے کی
مخالف رہی ہے مگر میرے والدِمحترم فداحسین نے گز شتہ بلدیاتی الیکشن میں اس
تفریق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا اور دونو قومیں ایک پلیٹ فارم پہ جمع
ہوئی مگر مافیا سسٹم جو ایک طویل عزصے سے اس پہ قابض تھا اس نے اپنی پوری
کوشش کی مگر حق ہمیشہ روزِروشن کی طرح عیاں ہوتا ہے اس لئے ان کوبہت بری
طرح سے شکست ہوئی۔وہ دعا جو ہمیشہ ابوجان اﷲ پاک کی بارگاہ میں کیا کرتے
تھے کہ اے کریم ہمارے اندر کی اس نفرت کو محبت میں تبدیل فرما جب وہ پوری
ہوئی تو ذات ِ کریمہ کا وعدہ پورہ ہوا اور ابو جان 6-02-2016 کواس جہان ِ
فانی سے رخصت ہو کر مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔ان کے نماز جنازہ میں شریک ہونے
والے ہر انسان کی زبان پہ تھا ’’ہائے وہ میرِ کارواں گُل ہو گیا‘‘
باباجان اپنی زندگی کا مقصد حسین وجمیل اور احسن طریقے سے سرانجام دے گئے
مگر ہمارے لئے ایک خلاء پیدا کر گئے کبھی نہ پورہونے والا خلاء ۔ |