آزاد کشمیر میں 21جولائی کو ہونے والے
الیکشن کے لئے سیاسی جماعتوں کے امیدواران کا اعلان ہو چکا ہے، سیاسی اتحاد
بن رہے ہیں اور سات سو سے زائد امیدوار 41اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے
ہیں ۔ظاہری طور پر مسلم لیگ(ن) آئندہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر آ تی
ہے تاہم واضح صورتحال عید کے بعد ہی سامنے آسکے گی۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے
ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے دوسری جماعتوں میں شمولیت کا عمل بھی جاری ہے ۔مسلم
لیگ(ن ) نے جموں و کشمیر پیپلز پارٹی(خالد ابراہیم) اور جماعت اسلامی کے
ساتھ اتحاد کیا ہے جبکہ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے درمیان بھی اتحاد
قائم ہوا ہے۔یہ آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ الیکشن کے بعدپیپلز پارٹی حکومت
بنانے کے لئے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔مسلم لیگ(ن) کو وزیر
اعظم نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت کی حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف تحریک
انصاف اور مسلم کانفرنس کے اتحاد کے لئے مقتدر حلقوں کی حمایت کی اطلاعات
بھی گردش میں ہیں۔
الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد چیف سیکرٹری نے آزاد کشمیر کا سرکاری نظام
سنبھال لیا ہے ۔چندہفتے قبل ہی چیف سیکرٹری کے حکم سے، الیکشن انتظامات کے
نام پر متعدد سرکاری افسران سے گاڑیاں لی گئی ہیں۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ
متعلقہ محکموں کے سربراہان کے ذریعے سرکاری افسران سے گاڑیاں لینے کے بجائے
ہر ضلع میں ڈی سی کی طرف سے پولیس بھیج کر سرکاری افسران سے گاڑیاں چھینی
گئیں۔الیکشن سے اتنا پہلے ہی الیکشن انتظامات کے نام پر بڑی تعداد میں
گاڑیاں اکھٹی کرنے پر یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ یہ سرکاری گاڑیاں اس وقت
کہاں اور کس کے لئے استعمال ہو رہی ہیں؟آزاد کشمیر میں پاکستان اور گلگت
بلتستان کی طرح اسمبلی الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا طریقہ کار
نہیں ہے ،چناچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن سے پہلے
آزاد کشمیر کا نظام وفاقی حکومت نے سنبھالا ہوا ہے۔یوں یہ الیکشن براہ راست
وفاقی حکومت کی نگرانی میں کرائے جانے کا عمل جاری ہے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے لئے میر پور ضلع میں4،ضلع بھمبر میں3،ضلع کوٹلی
میں5،ضلع باغ میں 3،ضلع حویلی/کہوٹہ1،ضلع راولاکوٹ4،سدھنوتی2،ضلع نیلم1،
ضلع مظفرآباد(ہٹیاں/چکار اور لیپہ کی ایک ایک سیٹ سمیت)6 اسمبلی سیٹیں(
کل29) ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان مقیم مہاجرین جموں و کشمیر کی12(6وادی
کشمیر،6جموں)سیٹیں ہیں۔یوں آزاد کشمیر اسمبلی کی41 سیٹیوں پر براہ راست
الیکشن ہوں گے اور منتخب 41ارکان 8خصوصی سیٹیوں پر ارکان کا انتخاب کریں گے
،جس کے بعد49رکنی آزاد کشمیر اسمبلی میں نئی حکومت کا انتخاب عمل میں آئے
گا۔یوں آزاد کشمیرکے میر پور ڈویژن میں12،پونچھ ڈویژن میں10 اور مظفر آباد
ڈویژن میں7سیٹیں ہیں۔آزادکشمیر میں عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ
مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کی وجہ سے آزاد کشمیر کا حق انتخاب متاثر
ہوتا ہے،یعنی آزاد کشمیر کے عوام کسی اور رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن
مہاجرین مقیم پاکستان کی 12سیٹوں کے نتائج آزاد کشمیر کی رائے سے مختلف
ہوتی ہے اور اس سے عوام کی رائے کے برعکس آزاد کشمیر میں حکومت تشکیل پاتی
ہے۔ جبکہ حقائق کا جائزہ لینے سے یہ تاثر سراسر غلط ثابت ہوتا ہے۔گزشتہ
الیکشن میں آزاد کشمیر کی29سیٹوں میں پیپلز پارٹی نے تقریبا16سیٹیں حاصل
کیں ،آزاد کشمیر سے کامیاب چند آزاد امیدواران کی شمولیت سے پیپلز پارٹی کی
اس تعداد میں اور بھی اضافہ ہوا۔مہاجرین حلقوں سے بھی چند کامیاب آزاد
امیدوار پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔2006ء کے الیکشن میں بھی تقریبا اسی طرح
کی صورتحال تھی ۔اب خود فیصلہ کر لیں کہ آزاد کشمیر کے 29حلقوں کا حق
انتخاب کس حد تک متاثر ہوتا ہے اور اس ’’شکایت ‘‘ سے کتنی حقیقت اور کتنا
تعصب ظاہر ہوتا ہے !
رمضان کے مہینے کی وجہ سے انتخابی مہم متاثر ہوئی ہے اور ووٹروں کی افطار
پارٹیوں کے علاوہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں
کی انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے ریاست کشمیر کے
باشندے بھی آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی سرگرمیوں میں شامل ہیں ۔ایک
طرف جہاں برطانیہ میں کشمیرکاز کے لئے مختلف تنظیمیں ،ادارے اورشخصیات
متحرک ہیں وہاں دوسری طرف آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں اپنی اپنی
برادریوں کے نمائندوں کی مالی معاونت بھی جاری ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ
آزاد کشمیر کے الیکشن میں برطانیہ کی دولت کافی بڑی مقدار میں استعمال ہوتی
ہے۔برطانیہ میں برادری ازم میں مقید آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کی
اکثریت کو شاید اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے حالیہ
الیکشن سے آزاد کشمیر کی’’آدھا تیتر،آدھا بٹیر‘‘ اور بدعنوانیوں کے شاہکار
کی حیثیت میں کوئی بہتری آتی ہے یا نہیں ،لیکن ان کی برادری کے نمائندوں کو
مخالفین پر سیاسی فتح حاصل ہونی چاہئے۔حیران کن طور پرآزاد کشمیر اسمبلی کے
موجودہ الیکشن میں تحریک آزادی کشمیر،مسئلہ کشمیر،کشمیر کاز کا کسی بھی طرح
کاکوئی تذکرہ نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کا انتخابی نعرہ یہ ہے کہ انہوں نے پانچ
سال بہت اچھی حکومت کی ہے اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ الیکشن جیتنے کے
لئے پر امید ہیں۔مسلم لیگ(ن) یہ الیکشن آزاد کشمیر میں کرپشن کے
خاتمے،تعمیر و ترقی،بڑے ترقیاتی منصبوں اور ’’گڈ گوریننس ‘‘ کے عزم سے لڑ
رہی ہے جبکہ’پی ٹی آئی‘ کا انتخابی منشور غیر سنجیدگی کی ایک مثال کے طور
پر دیکھا جا سکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی تو ایک طرف ،آزاد
کشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ عزم یا نعرہ بھی نظر نہیں آتا کہ
’’آزاد کشمیر میں بااختیار اور باوقار حکومت قائم ہو‘‘۔دوسرے الفاظ میں
آزاد کشمیر حکومت کی بنیادی حیثیت اور کردار کی بحالی کی آزاد کشمیر میں
سوچ بھی نظر نہیں آتی۔
مختصر طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں اس وقت سرکاری اور سیاسی
حوالے سے صورتحال بدترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور اس سے کشمیر کاز کو کوئی
فائدہ تو دور ،خود آزاد خطے اور اس کے عوام کی مشکلات و مصائب میں
اصلاح،بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔آزاد کشمیر کی اس صورتحال کو
پاکستان کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے بھی دیکھا جاتا ہے کہ جب آزاد کشمیر
میں اصلاح ہو گی،اسی وقت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی کشمیریوں کی امنگوں
اور خواہشات پر مبنی پاکستان کی کشمیر پالیسی کی توقع کی جا سکے گی۔فی
الحال تو ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ آزاد کشمیر حکومت کی حیثیت اور
کردار کے حوالے سے کوئی بہتری ہو سکتی ہے!چلواب دیکھتے ہیں کہ یہ دعوی درست
ثابت ہوتا ہے یا نہیں کہ ’’ آزاد کشمیر میں اچھے لوگوں کی حکومت قائم ہونے
سے سب اچھا ہو جائے گا‘‘۔ |