(متوفی ۸ جنوری ۱۹۷۲)
کس قدر تلخ تھی رودادِ حیات ۔ یاد آتے ہی بھلا دی ہم نے
کسی بھی فن کار کے فن پر تبصرہ سے قبل اس کے زمانے کے سیاسی، سماجی اور
معاشرتی حالات کا جائزہ لینا از حد ضروری ہوتا ہے۔مزید برآں اس کی ذاتی
زندگی کے متعلق موجود مواد سے بھی ہمیں اس کے نظریۂ فن کو سمجھنے میں آسانی
ہوتی ہے۔باقی صدیقی کے درج بالا شعر کے تناظر میں اگرہم اس کی زندگی کا
جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باقی صدیقی نے ایک مشکل زندگی بسر کی ۔وہ
تمام عمر مجرد(غیر شادی شدہ) رہے اور زندگی کا بیشتر حصّہ اپنی چھوٹی بہن
اصغری خانم کی رفاقت میں بسر کیا۔اصغری بیگم کی شادی ان کے خالہ زاد سے
ہوئی تھی مگر نباہ نہ ہو سکا اور بات طلاق پر ختم ہوئی۔باقی صدیقی نے شاید
اس کے بعد ہی ہمیشہ کے لئے مجرد رہنے کا فیصلہ کیا۔باقی صدیقی کا اصل نام
محمد افضل تھا۔ آپ ۲۰ ، دسمبر ۱۹۰۸ء کو سہام راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ
کے والد کا نام احمد جی تھا۔محمد افضل(باقی صدیقی) نے راول پنڈی کے ڈینیز
ہائی سکول سے میٹرک کیاجہاں آپ کے خالو قاضی عبدالمجید مدرس تھے۔اس سے قبل
باقی صدیقی کے نانا قاضی فضل احمد بھی اس سکول میں پڑھاتے رہے۔باقی صدیقی
نے میٹرک کے بعد اپنے ماموں چراغ دین کے ایما پرنارمل سکول گوجر خان سے جے
وی کی پیشہ وارانہ ڈگری حاصل کی اور اس کے بعدآپ نے بطورمعلم عملی زندگی کا
آغاز کیا۔عملی زندگی شروع ہوتے ہی آپ کی ادبی زندگی کا آغاز بھی ہوگیا تاہم
آپ کے ماموں آپ کے اس ادبی مشغلے سے ناخوش تھے۔ آپ نے قیامِ پاکستان سے قبل
چند انڈین فلموں میں ادا کاری بھی کی۔فلم ’’توپ کا بچہ‘‘میں کوتوال کا
کردار اداکیااور فلم ’’مرد کا بچہ ‘‘ کے لئے گیت اور مکالمے
لکھے۔بعدازاں’’امپیریئل فلم کمپنی‘‘بمبئی میں نوکری بھی کرتے رہے تاہم
۱۹۴۰ءمیں آپ نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔دوسری جنگ عظیم کے
دوران فوج میں حوالدار کلرک بھرتی ہوئے ۔۱۹۴۳ء میں آرڈینس ڈپو میں ملازمت
کی۔بعد ازاں آپ نے ملٹری انجینئرنگ سروسز(MES) میں(۱۹۴۵ء تا ۱۹۴۹ء )بھی
خدمات سرانجام دیں۔باقی صدیقی نے شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۸ء میں پنجابی بیتوں
سے کیااورغلام نبی کامل کی شاگردی اختیار کی۔بعدازاں تلاشِ روز گارکے لئے
پشاور کا رُخ کیا جہاں ان کی ملاقات محسن احسان،شوکت واسطی،احمد فرازاور
رضا ہمدانی جیسے اہلِ علم سے ہوئی تو اُردو زبان میں بھی اشعار کہنا شروع
کردیئے۔لاہور میں آپ اپنے پھوپھی زاد حاجی منصب دار سے کبھی کبھار ملنے
جاتے تو احسان دانش اور عبدالحمید عدم سے بھی ملتے۔عدم سے کبھی کبھار اصلاح
بھی لے لیتے لیکن بعدازاں عدم صاحب سے کسی رنجش کی بنا پر قطعِ تعلق کر
لیا۔باقی صدیقی کا پہلا شعری مجموعہ ’’جام ِجم‘‘ (نظمیں اور قطعات۔مکتبہ
دانش،لاہور۔۱۹۴۴ء)کے نام سے احسان دانش نے لاہور سے شائع کیا جس میں عدم
صاحب کا رنگ بہت نمایاں تھا۔
دوسرامجموعہ’’دارورسن‘‘ (نظمیں،غزلیں،قطعات۔قومی کتب خانہ،راول
پنڈی۔۱۹۵۱ء) حکیم عبدالغنی نے شائع کیا۔اس مجموعے میں باقی صدیقی کی مشہور
نظم ’’غلامی سے آزادی تک‘‘بھی شامل ہے۔اس مجموعے میں باقی صدیقی نے ۱۹۴۷ء
سے ۱۹۵۱ء تک کہی گئی نظموں اور غزلوں کو شامل کیا ہے ۔’’زخمِ بہار‘‘ (غزلیات۔مکتبہ
کارواں،لاہور۔۱۹۶۱ء)کے نام سے آپ کا تیسرا مجموعہ چوہدری عبدالحمید نے
شائع کیا۔اس مجموعے میں۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۹ء کے دوران کہا گیا کلام شامل ہے۔آپ
کی زندگی میں شائع ہونے والا آپ کا چوتھا مجموعہ’’ کچے گھڑے‘‘ (پنجابی/پوٹھواری
نظمیں۔مجلس شاہ حسین،لاہور۔۱۹۶۷ء)تھا۔باقی صدیقی کی وفات کے بعدان کے
دوستوں نے ادبی تحریک کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جس نے باقی صدیقی کے غیر
مطبوعہ کلام کو شائع کرانے کا ذمہ لیا۔آپ کی وفات کے بعد شائع ہونے والا
پانچواں مجموعہ ’’کتنی دیر چراغ جلا‘‘اسی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے۱۹۷۷ء میں
شائع ہوا۔چھٹا مجموعہ’’ زادِ سفر‘‘ (نعتیں۔پنڈی ادبی سوسائٹی،راول پنڈی۔
۱۹۸۴ء)کے نام سے شائع ہوا۔باقی صدیقی نے ۱۷ سال تک ریڈیو پر ملازمت کی اور
دورانِ ملازمت ریڈیو کے لئے پوٹھواری اور اردو زبان میں ڈرامے لکھے۔آپ نے
پوٹھواری زبان میں گیت بھی لکھے۔آپ کے حلقۂ احباب میں عبدالعزیز فطرت،ایوب
محسن،یوسف ظفر،رشید نثار،افضل پرویز،جمیل ملک،محبوب اختر،صادق نسیم اور
شاید نصیر شامل تھے۔۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۳ء تک آپ نے ادبی مجلے’’راہِ منزل‘‘ کی
ادارت بھی کی۔باقی صدیقی نے۸،جنوری ۱۹۷۲ء کو ہفتے کے روزراولپنڈی میں وفات
پائی اور آپ کی تدفین مسجد الغفار سے متّصل آبائی قبرستان قریشاں سہام
راولپنڈی میں ہوئی۔آپ کی قبر کے کتبے پر یہ اشعار کندہ ہیں:۔
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
باقی ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا
باقی صدیقی کبھی بھی کسی ادبی گروہ کا حصّہ نہ بنے۔آپ کسی ادبی تنظیم یا
حلقے کے باقاعدہ ممبر نہ تھے۔آپ نے گروہ بندیوں سے الگ تھلگ رہ کر ہمیشہ
ادب کی خدمت کی اور ساری زندگی ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے کام کیا ۔باقی
صدیقی کا ایک اپنا نظریۂ شعر تھا اور وہ نظریہ
محبت ،خلوص اور رواداری پر مشتمل تھا۔
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پاکر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
باقی صدیقی نے خودداری سے زندگی بسر کی۔زندگی بھر مجرّد رہے اور اپنے
خاندان کی اچھے طریقے سے کفالت کی۔اپنی بہن اصغری خانم کی خوب خدمت کی۔کبھی
کلرکی کی،کبھی ٹائیپسٹ کی نوکری،کبھی ریڈیو کی ملازمت اور کبھی ڈرامہ نگاری
لیکن عمر بھر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا۔
شعر گوئی میں بھی باقی صدیقی نے اپنے اس رکھ رکھاؤ کو ملحوظِ خاطر رکھا۔بڑے
ادبی مراکز سے دور اور کسی خاص ادبی گروہ سے وابستہ ہوئے بغیر باقی صدیقی
نے اپنی شاعری کو ہر خاص و عام تک پہنچایا۔باقی صدیقی نے غزل کی توانا
روایت سے نہ تو انحراف برتا اور نہ ہی اس میں
بے تکے تجربات اور اضافے کرنے کی کوشش کی۔یہی وہ فکری رویہ ہے جو باقی
صدیقی کی پہچان ہے۔
ہجومِ رنج و غم میں کھو گئے ہم ۔ زمانے کے مقابل ہو گئے ہم
شبِ تاریک کی زد سے نکل کر ۔ سحر کی ظلمتوں میں کھو گئے ہم
اسی غفلت نے باقی مار ڈالا ۔ کہ جب تقدیر جاگی سو گئے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت نحیف سہی موجِ زندگی پھر بھی ۔ مچل گئی تو کناروں کو ساتھ لائے گی
تو آنے والے زمانے کا غم نہ کر باقی ۔ کہ رات اپنے ستاروں کو ساتھ لائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم جاناں اور غم دوراں ہماری اردو شاعری کا محبوب ترین موضوع رہا ہے۔باقی
صدیقی کے ہاں بھی یہ دونوں غم ایک دوسرے میں بہم ملتے ہیں۔باقی صدیقی نے غم
جاناں کو بھی اس لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اس سے حظ
اُٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔باقی صدیقی کا
یہ اندازِ بیاں بھی ملاحظہ ہو۔
دل کے لئے حیات کا پیغام بن گئیں ۔ بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
کچھ لغزشوں سے کام جہاں کے سنور گئے ۔ کچھ جرآتیں حیات پہ الزام بن گئیں
باقیؔ جہاں کرے گا مری مئے کشی پہ رشک۔ان کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں
باقی صدیقی کی شاعری کو اگر زمانی ترتیب سے پرکھا اور جان جائے تو اس سے ان
کے عہد کی مکمل تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔باقی صدیقی کے عہد اور موجودہ دور
کے حالات میں مماثلت کی بنا پر بعض اشعار سے تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ
ہمارے موجودہ سیاسی،سماجی اور
معاشرتی تناظر میں تخلیق ہوئے۔درج ذیل اشعار کیا موجودہ دور کا منظر نامہ
پیش نہیں کر رہے۔
جب کیا وقت نے مجبور ، تو صیّادوں نے
ایسے انداز سے دروازے قفس کے کھولے
بڑھ کے احباب نے احباب کی راہیں روکیں
اُٹھ کے ہمسایوں نے ہمسایوں پہ خنجر تولے
باغ تقسیم ہوا پھولوں نے تختے بدلے
خون پانی کی طرح بہنے لگا راہوں میں
شعلے بن بن کے ضمیروں کی سیاہی لپکی
چھپ کے ہنسنے لگے صیاد کمیں گاہوں میں
احمد ندیم قاسمی نے باقی صدیقی کے مجموعۂ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا
کہ ’’ باقی صدیقی کی غزل گوئی محتاجِ تعارف نہیں‘‘ ۔یہ بات اگرچہ بہت عرصہ
قبل کہی گئی تھی مگر آج بھی صد فی صد درست ہے۔ باقی صدیقی کا شعر خود بخود
بولتا ہے۔مختصر بحروں میں کہے گئے اشعار تو باقی صدیقی کا خاصہ ہے۔مختصر
بحر میں اپنی بات بیان کرنا اگرچہ نہایت مشکل کام ہے مگر باقی صدیقی کے ہاں
مختصر بحر میں کہے گئے اشعار
نہایت عمدہ ہیں۔باقی صدیقی کو ہم سے بچھڑے چار دہائیاں بیت گئیں مگر ان کا
شعری اثاثہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔
ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقیؔ
کتنی دیر چراغ جلا معلوم نہیں |