ہم جس عہد سے گزر رہے ہیں‘ وہ انگریز اور اس کی زبان
انگریزی کا ہے۔ انگریز کے‘ چیلوں چمٹوں اور گماشتوں نے‘ یہ تاثر عام کر
رکھا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر‘ تر قی کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ
کار بچے کی دنیا میں آنے کی غلطی کے ساتھ ہی‘ انگریزی کی گرفت میں آ جاتے
ہیں اور انگریزی کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔ اس طرح وہ انگریزی کی
تعلیم حاصل کرنے‘ میں زندگی گزار دیتا ہے لیکن دیگر مضامین میں‘ واجبی سا
بھی نہیں رہ پاتا۔
تقریبا ١٧٥٤ سے‘ برصغیر انگریزی گزیدہ ہے اور یہاں کے باسی‘ جو بڑے زبردست
یودھا‘ جفاکش‘ محنتی اور ہنرمند ہیں اپنوں کے بنائے گئے اس قلعلے کو‘ سر
نہیں کر سکے۔ اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے‘ کہ جوں ہی بچہ پیدا ہو‘ اسے
امریکہ کے کسی نرسری ہاؤس میں بجھوا دیا جائے‘ تا کہ وہ وہاں ناصرف انگریزی
سیکھ سکے‘ بلکہ اس کلچر سے بھی‘ آگہی حاصل کر سکے۔
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے‘ لگتا ہے‘ آتے برسوں میں
١۔ بھوک کے سبب بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے گا۔
٢۔ لوگ بھوک پیاس‘ اندھیرے‘ ریاستی جبر وغیرہ سے تنگ آ کر‘ خودکشی کرنے پر
مجبور ہو جائیں گے۔
٣۔ گریب اور کمزور کے بچے‘ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنا بند کر دیں گے۔
٤۔ چوری‘ ڈاکے‘ مار دھاڑ اور ہیرا پھیری سے وابستہ لوگ‘ دن دوگنی رات چوگنی
ترقی کر سکیں گے۔
عملی سطع پر‘ دیکھ لیں دس سال پڑھنے اور سارے مضامین میں کامیابی حاصل کرنے
کے باوجود‘ انگریزی میں فیل ہو جانے کے سبب‘ طالب علم صفر پر آ جاتا ہے۔
نقل پر گرفت کی صورت میں‘ بچہ ان پڑھ رہ جاتا ہے۔ انگریزی کے پرچے کے دن‘
امتحانی سنٹر جمعہ بازار کا سا سماع پیش کرتے ہیں۔ آگے پیچھے یہ تناسب‘ دس
فیصد سے زیادہ نہیں رہ پاتا۔ پانی کے ہزار بوکے نکال لینے سے‘ پانی پاک
نہیں ہو جاتا‘ جب تک کھوہ سے کتا نکال باہر نہیں کیا جاتا۔ انگریز چلا گیا‘
ہم سمجھ بیٹھے کہ ہم آزاد ہو گیے ہیں‘ جب کہ حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔
فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ انگریز نہیں رہا‘ اب اس کے گماشتے روپ اور نعرے بدل
بدل کر‘ عوام کا جینا حرام کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انگریزی پڑھنے میں‘ عمر کا اچھا خاصا وقت برباد
کر دیتے ہیں‘ انھیں انگریزی آ جاتی ہے؟! سارا کام تو گائیڈوں کے سہارے چل
رہا ہے۔ ایسے میں‘ انگریزی کیسے آئے گی۔
سدا بادشاہی الله کی‘ برصغر میں بھانت بھانت کے لوگ آئے۔ ان کی زبان کے
متعلق بھی‘ اسی قسم کی باتیں کی جاتی تھیں‘ ترقی تو نہیں ہوئی۔ یہاں کا شخص
جہاں تھا‘ وہیں کھڑا ہے۔ گولے اور گماشتے عین سے عیش کر رہے ہیں۔ ان کے
کردار پر انگلی رکھنے والے‘ پولے کھاتے ہیں۔ پھر بھی اپنی زبان کو لگام
نہیں دیتے‘ تو جان سے جاتے ہیں۔
زبان کا انسانی ترقی سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہیں‘ ترقی انسانی ذہانت پر
انحصار کرتی ہے۔ ذہانت زبان کو‘ ترقی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بیجھے میں کچھ ہو
گا تو ہی‘ بولا یا لکھا جائے گا۔
انگریزی جسے یہاں کی ماسی بنا رکھا ہے‘ اس کی محض دو ایک بنیادی خامیوں کا
تذکرہ کرتا ہوں
١۔ ابتدائی آوازیں اظہار کے حوالہ سے ناکافی ہیں۔
٢۔ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں موجود نہیں ہیں۔
٣۔ مرکب آوازوں کا نظام کمزور دہرا ناقصں اور پچیدہ ہے۔
اب ضمن نمبر٣ کے حوالہ سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
ش کے لیے‘ دس یا دس سے زیادہ مرکب استعمال ہوتے ہیں‘ جب کہ دوسری جگہ ان کی
آواز کچھ اور ہوتی ہے۔ جیسے
ti
ایکشن action
منشن mention
اسنشیل essential
اڈمیشن admition
وغیرہ
si
ایشیا asia
ملیشیا malaysia
ٹنشن tesion
پنشن pension
وغیرہ
sh
شفٹ shift
شیٹ sheet
شرٹ shirt
شپ ship
وغیرہ
ci
سوشل social
اسپیشل special
ce
کروشے croce
ch
نٹشے فٹشے Fitche
یہ جرمن لفظ ہیں لیکن انگریزی میں مستعمل ہیں۔
ssi
مشن mission
پرمشن permission
اڈمشن admission
ssu
ایشو issue
اشور assure
پریشر pressure
su
شوگر suger
شؤر sure
انشورنس insurance
sch
schizophrenia شیزفرنا
tu چ chay/chu)
picture (pikchar) پیکچر
nature (naichar) نیچر
mixture (mixchar) مکسچر
actual (akchal) ایکچل
punctual (punkchual) پنکچل
habitual (habichual) ہبچل
torture (torcher) ٹورچر
attitude (aitichud) ایٹیچود
culture (kachar) کلچر
vertual (virchual) ورچول
fortunate (forchunate) فورچونیٹ
future (fuchar) فیوچرہر
ہر جگہ اس مرکب آواز کی یہ صورت برقرار نہیں رہتی۔
ch
کو چ کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ مثلا
chest چسٹ cheat چیٹ chit چٹ
ch
کو خ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
میونخ munich
یہ جرمن لفظ ہے لیکن انگریزی میں مستعمل ہے۔
اس مرکب سے ش کی آواز کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ مثلا
cliche nietzoche, Fitche, charade
کو ک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ch
chemical کیمیکل
schoolسکول
chemist کیمسٹ
باور رہنا چاہیے‘ کہ اسی طرح مفرد آوزوں کے لیے‘ مرکب لیٹرز سے کام چلایا
جاتا ہے۔ یہ بھی کہ یہ مرکبات‘ کسی ایک آواز کے لیے مخصوص نہیں ہیں‘ مختلف
جگہوں پر‘ مختلف آوازیں دیتے ہیں۔ اس سے‘ پچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی
نہیں اظہاری عمل میں بھی‘ روکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مفاہیم اور تلفظ میں ابہام
کی صورتیں بڑھتی ہیں۔ غرض کہ انگریزی کا ساؤنڈ سسٹم بنیادی طور پر انتہائی
ناقص ہے۔ ایسی زبان‘ جس کا ساؤنڈ سسٹم ناکارہ یا خرابیوں کا شکار ہو‘ اسے
دنیا کی بہترین زبان قرار دینا اور ترقی کا ذریعہ قرار دینا‘ دماغی خلل اور
حد سے بڑی ٹی سی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ |