افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے30 جون 2016ء
کے بعد دوبارہ مزید توسیع کا امکان ہے، لیکن اب اصولی ، اخلاقی اور قانونی
طور پر پاکستان کی بقا کیلئے توسیع کرنے کا فیصلہ پاکستان کی سا لمیت اور
بقا کے لئے انتہائی خطرناک ہوگا۔ ڈیڈ لائن قریب آنے کے باوجود صوبائی
حکومتوں اور وفاق کی جانب سے منظم حکمت عملی کے فقدان سے اس تاثر کو تقویت
مل رہی تھی کہ مہاجرین کی وطن واپسی کے عمل میں مقرر اداروں کی جانب سے جوش
و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کی کسی
مربوط پالیسی کا نہ آنا حیرت انگیز عمل ہے ۔پاکستان حکومت کی جانب سے گذشتہ
سال محض ایک پریس کانفرنس اور ایک اخباری اشتہار کے ذریعے کیمپوں کی
تفصیلات تاریخ کیساتھ فراہم کیں گئیں تھیں۔ اس قسم کے اعلانات سے ماضی میں
بھی کبھی فائدہ نہیں ہوا تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ مقررہ وقت تک افغان
مہاجرین رضا کارانہ واپسی کے لئے ازخود تیار ہوجاتے۔ صرف خیبر پختونخوا کے
29کیمپوں میں چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں جبکہ باقاعدہ
رجسٹریشن کرانے والے صرف دو لاکھ 65ہزار ہیں ، اقوام متحدہ کے مطابق 15لاکھ
افغان مہاجرین جبکہ غیرقانونی 25لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق صوبے میں غیررجسٹرڈ ادفغان مہاجرین کی تعداد پانچ لاکھ
کے قریب ہے ۔افغان مہاجرین کی تعداد صرف خیبر پختونخوا میں ہی مقیم نہیں ہے
بلکہ ان کی زیادہ تعداد سندھ اور بلوچستان میں بھی آباد ہے اور رجسٹرڈ
مہاجروں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔خیبر پختونخوا کی عوام اپنے صوبے سے
لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں کیونکہ
ان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے جہاں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے ہیں
تودوسری جانب معاشی مشکلات نے بھی صوبے کی عوام پر دباؤ بڑھایا دیا
ہے۔روزگار اور کاروبار کے متعدد وسائل پر افغان مہاجرین نے سرکاری اداروں
کی ملی بھگت کے بعدمقامی افراد کیلئے روزگار کے مواقع کم کردئیے ہیں ۔صوبے
کی عوام دہشتگردی اور شدت پسندی سے سخت نالاں نظر آتی ہے اور برسہا برس سے
جاری افغان خانہ جنگیوں کے ہاتھوں لاکھوں افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے
اپنے وطن واپس بھیجنے کی خوائش مند ہے ۔پاکستانی عوام نے دہشتگردی کی وجہ
سے افغانستان سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں ۔ جبکہ جنگ کا شکار افغانستان مالی
طور پر کسی کا مقروض نہیں ہے اس کی عوام کو مختلف ممالک میں مراعات حاصل
ہیں ۔ پاکستان میں رہتے ہوئے سرکاری دستاویزات کے بعد مقامی افراد کے حقوق
بھی حاصل کر لئے ہیں اور افغانستان میں جاری صورتحال کے بعد افغان مہاجرین
دونوں ممالک میں اربوں روپوں کا کاروبار بھی کررہے ہیں جس سے پاکستان کو
ٹیکس کی مد میں کوئی آمدنی نہیں ہوتی ، طویل ترین بارڈر اور مناسب نگرانی
کی صورتحال نہ ہونے کے سبب اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کا کاروبار اپنے
عروج پر ہے ۔ افغانستان اپنی غذائی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے ان
ہی افغان مہاجرین کو استعمال کرتا ہے جو عرصہ درارز پاکستان میں رہنے کی
وجہ سے جہاں پاکستان کے محل و وقوع سے واقف ہوچکے ہیں بلکہ افغانستان میں
انھیں کسی شناختی دستاویز کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔نادرا میں ہزاروں روپے
رشوت دیکر غیر قانونی طریقے سے با آسانی شناختی کارڈ حاصل کر لئے جاتے ہیں
۔ مقامی سیاسی جماعتوں کے مقرر ایجنٹوں کی ملی بھگت کے ساتھ روزانہ
افغانیوں کو نادرا کے شناختی کارڈ فراہم کئے جا رہے ہیں اور بعض سیاسی
جماعتوں کے مقرر کردہ کارکنان افغانیوں کو جعلی ، ڈومی سائل ،پی آر سی
،شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی فراہمی میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے صرف
کراچی میں کروڑوں روپے کرپشن کے ذریعے حاصل کرکے افغانی ،برمی اور بنگالیوں
کو غیر قانونی طریقے سے قانونی دستاویزات جاری کرکے مقامی افراد کے وسائل
پر سوچی سمجھی سازش کے تحت قبضہ کرایا جارہا ہے۔یہی صورتحال خیبر پختوخوا
کے شہر پشاور ، ہزارہ ،مانسہرہ کے علاقوں میں ہے جہاں لاکھوں افغانیوں نے
جعلی دستاویزات پر پاکستانی شہریت حاصل کرلی ہے اور ووٹر لسٹ میں بھی اپنا
اندراج کرا رکھا ہے جس کی وجہ سے جو سیاسی جماعتیں انھیں غیر قانونی تحفظ
فراہم کرتی ہیں تو ان سے الیکشن میں اپنے لئے ووٹ بھی حاصل کرتی ہیں ۔پاک
افغان سفارتی سطح پر تعلقات کی بہتری خطے میں امن کے لئے ایک اہم پیش رفت
ہے خاص کر طالبان رہنماؤں کی پاکستانی جیلوں سے رہائی کے بعد اس بات کی
توقع کی جاتی رہی ہے کہ مستقبل میں مزید افغان طالبان رہنماؤں کی آزادی سے
دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم رابطے کا پل تیار ہوچکا ہوگا ۔ سفارت کاری
کے دروازے سے امن کے سفیروں کی آمد ورفت بڑی اہم اور وقت کی ضرورت ہے جسکا
یقینی طور پرخیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن تمام سفارتی عمل میں اس بات کو
یقینی بنایا جائے کہ مقرر کردہ ڈیڈ لائن میں مزیدکوئی نرمی اور اضافہ کرنے
کے بجائے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
پاکستان کو اپنی سرحدی حدود کی حفاظت کیلئے مناسب اقدامات کے لئے توجہ دینا
چاہیے۔پاکستان کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے امریکہ یا افغانستان کی جانب
سے پیش قدمی کے بجائے از خود یہ ذمے داری اٹھانا ہوگی جس کے بعد ہی ممکن ہے
کہ غیر قانونی طور پر غیرملکیوں کا راستہ روکا جاسکے۔کھلے میدانوں اور
راستوں کے باعث غیر ملکیوں کے لئے ایک سہل راستے کا دستیاب ہونا پاکستان کے
مستقبل کے لئے خطرناک ہے ۔ جعلی دستاویزات ، رشوت دیکر پاکستانی شہریت
رکھنے والے غیر ملکیوں کی مکمل چھان بین کرکے انھیں اہل خانہ کے ساتھ باعزت
واپس بھیجنے کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نشاندہی کرنا
ہوگی۔مہاجرین کی وجہ سے مقامی وسائل جہاں منقسم ہوچکے ہیں تو ایسے مہاجرین
کی وجہ سے ان کی حب الوطنی بھی اطمینان خیز نہیں ہوتی ، کیونکہ ان کے نزدیک
واپسی کا راستہ ان کیلئے نہایت آسان حل ہوتا ہے۔افغان مہاجر ، بہ حیثیت
پڑوسی ملک اور مسلم برداری پاکستانیوں کیلئے باعث احترام رہے ہیں لیکن
سالہا سال کی حکومتی بیڈ گورنس کی وجہ سے ، مقامی اور غیر مقامی پہچان ختم
ہوچکی ہے اور پاکستانی اداروں کے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ اب ایسے افراد کو
بخوشی اپنے اُس ملک واپس بھیج سکیں جہاں سے وہ اپنے ساتھ بے شمار پریشانیاں
بھی ساتھ لائے تھے ، پھر احسان فراموش کابل انتظامیہ کو پاکستان کی ہزہ
سرائی کرتے اور الزامات لگاتے ہوئے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ اُس پر
پاکستانی قوم کا وہ احسان ہے جو اُس کی سات پشتیں بھی نہیں اٹار سکتیں۔
کابل دوہری انتظامیہ کی بد گمانیوں کے باوجود پاکستانی قوم کے صبر اور ان
پر دہشت گردی کے عذاب مسلط ہونے کے باوجود پاکستان میں افغان مہاجرین کے
خلاف کوئی تحریک نہیں اٹھی۔کابل انتظامیہ کو اپنے لب و لہجے کو قابو میں
رکھ کر بیانات دیا کریں۔طور خم بارڈر پر جس قسم کی اشتعال انگیزی کی گئی ،
یہ اقدام کسی طور قابل برداشت نہیں تھا، لیکن پاکستان نے پھر بھی بڑے دل کا
مظاہرہ کیا اور کابل کی جانب سے اس قسم کی متعدد اشتعال انگیز کاروائیوں پر
برداشت کا مظاہرہ کیا۔ کابل دوہری انتظامیہ کو اپنے گریبان میں جھانکنا
چاہیے کہ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے40لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان
میں رکھا ، اپنے سرزمین میں کاروبار کرنے دیا ، دو نسلیں پیدا ہوئیں ۔بارڈر
پر سرحدی آمد و رفت پر برد باری کا مظاہرہ کیا ۔لیکن اس کا جواب جس طرح
کابل انتظامیہ نے دیا ، اس پر پاکستان قوم کے رویئے تبدیل ہو رہے ہیں ،
افغانستان ، بھارت ، ایران ، امریکہ کی گود میں بیٹھ کر چاہیے جو کھیل
کھیلے ، لیکن پاکستانی قوم کے متھے نہ لگے۔ |