مسلم کانفرنس کو تج کر علیحدہ ہونے والے راہنماؤں کے نام
(Mian Kareem Ullah Qureshi, )
زمانے کے تین اقسام ماضی، حال اور مستقبل
سے کون نا آشنا ہے۔ ہر انسان کو زمانے کی انہی تین حالتوں کے دائرے میں
رہنا پڑتا ہے۔ زمانے کی ان تین حالتوں سے فرار کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ زمانے کی یہ تینوں حالتیں ایک دوسری سے وابستہ و
پیوستہ ہیں اور ایک حالت دوسری کی اور دوسری تیسری کی تعبیر و تشریح کرتی
ہے۔ ماضی کے زمانے کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یاد ماضی کن لوگوں کے لئے عذاب اور کن کے لئے راحت اور سکون بخش ہے اس بات
کی تعبیر و تشریح زیر نظر مختصر مضمون میں کی جانا ممکن نہیں تا ہم اپنی کم
علمی اور محدود تجربے کی روشنی میں دل کے دل کی بات بلکہ جسے محاورۃً ’’خدا
لگتی بات‘‘ کہتے ہیں میں اس حقیقت کی مختصر ترین تعبیر و تشریح یہ ہو سکتی
ہے کہ جن لوگوں کو ماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل دونوں کم تر اور
تکلیف دہ دکھائی دیں ان کے لیئے یاد ماضی عذاب ہے۔ یعنی جب کوئی ماضی میں
عروج کی معراج کو پہنچا ہو اور اس کا حال زوال بن چکا ہو اور مستقبل زوال
ترین درجے کی غمازی کرنے لگے تو اس کے لئے یاد ماضی نہ صرف عذاب بلکہ
بدترین عذاب ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی صورت حال اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور
فضل کی ناشکری کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ اﷲ کی نعمتوں اور مہربانیوں پر اس کا
شکر انسان پر فرض ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا حق نہیں سمجھنا
چاہیے بلکہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی سمجھنا چاہیے۔
اور پھر اﷲ رب العزب کی طرف سے عنائت کردہ اعلیٰ حیثیت اور پوزیشن پر
اترانہ بھی انتہائی گناہ اور ناشکری ہے۔ اپنی حیثیت پر اترانے والوں سے اﷲ
وہ حیثیت چھین لیتا ہے اور معاشرے میں نفاق پیدا کر کے رب کی طرف سے واپس
لے لی گئی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنا اس سے بھی زیادہ گناہ ہے۔ ہمارے
ان معزز رہنماؤں نے نہ صرف اپنے بلکہ اپنے اسلاف کے عقائد اور قربانیوں کی
پرواہ کئے بغیر عمر بھر کی پونجی کو آگ میں جھونک دیا۔ انھوں نے ایسا کیوں
اور کس لئے کیا یہ منطق وہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن سبھی یہی کہتے ہیں کہ
بہت گھاٹے کا سودا کیا جس کا ان کو بیشک احساس نہ ہو لیکن مجھ جیسے ہزاروں
لوگوں کو انتہائی دکھ ہے۔ حالانکہ ان کے وتیرے سے مسلم کانفرنس کی فضا جو
بہت زیادہ مکدّر ہو چکی تھی اب ان کی علیحدگی سے بہت ہی صاف اور دلکش بن
چکی ہے اور مسلم کانفرنس کا ہر رکن ایک پروانے کی مانند اس شمع پر مر مٹنے
کو تیار ہے۔ میرے یہ معزز رہنماء جانتے ہیں کہ چند برسوں، چند مہینوں، چند
دنوں بلکہ اس قدر عزت و منزلت اور خوش اسلوبی سے گزرے ہوئے چند گھنٹوں کا
ساتھ توڑتے وقت بھی ہزار بار سوچنا پڑتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ان
رہنماؤں نے نہ صرف اپنے اور اپنے بزرگوں کے عمر بھر کے صحیح عقیدے کو یکسر
باطل قرار دے دیا بلکہ عمر بھر کی حسین یادوں کا حامل ساتھ بھی برادری ازم
کی بھینٹ چڑھا دیا۔
راقم الحروف کے پاس ان حضرات کی مسلم کانفرنس کو تج کر ’’ن لیگ‘‘ بنانے کی
منطق کے بیان کے لئے الفاظ نہیں ہیں لیکن اب یہ مورخ کی ضروت بن گئی ہے کہ
وہ اس منطق کی وضاحت کیے لیئے لغات کا مطالعہ کرے۔ راقم الحروف نے اپریل
1986 میں پہلی مرتبہ سنٹر پلیٹ مظفرآباد میں محکمہ جنگلات کے دفتر کے احاطے
میں ہوئے ایک جلسے میں جب راقم الحروف کے برادر اصغر محمد نور اﷲ قریشی
ایڈووکیٹ نے مسلم کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اس وقت کے وزیراعظم
جناب سردار سکندر حیات خان سے ’’مجاہد اول‘‘ کا نام سنا تھا۔ اس جلسے میں
انھوں نے مجاہد اول کو اپنا عظیم قائد اور ہر اعتبار سے قابل تقلید اور
ریاست جموں وکشمیر کا بے مثال رہنما قرار دیا تھا اور اس کے بعد برسوں اکثر
بڑے بڑے جلسوں میں ان کی زبان سے یہ الفاظ بھی سنتا رہا ہوں کہ ’’تفصیل سے
تو مجاہد اول نے بات کرنی ہے میں مختصراً یہ کہنا چاہتا ہوں‘‘ اور پھر ق، س
کا وہ دور بھی مجھے یاد ہے جب مجاہد اول نے اول الذکر شخصیت کی طرف سے ان
کی شان میں نامناسب اور نازیبا الفاظ کا بھی عزت و احترام سے جواب دیا اور
اپنے چاہنے والوں کو بھی ان کی شان میں گستاخی پر نہ صرف زبردست سرزنش کرتے
رہے بلکہ کسی کو ان کی عزت کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ رد
عمل کے طور وہ (مجاہد اول) بھی کچھ نہ کچھ کہنے کا حق رکھتے تھے لیکن انھوں
نے کبھی ایسا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنی خداد صلاحیت، فہم و فراست اور تحمل
و برداشت سے کام لیا اور اپنے چاہنے والوں کو بھی زبان بندی پر قائم رکھا۔
حضرت میاں محمد بخش فرماتے ہی۔
دانشمندو سنو تمامی عرض فقیر کریندا
آپوں چنگا جے کوئی ہووے ہر نوں بھلا تکنیدا
تک تک عیب نہ کردے واندے چنگے لوک کدائیں
نکتہ چینی فتنہ دوزی بھلیاں داکم ناہیں
مجاہد اول نے اسی نظرئیے پر عمر گزاری اور کبھی کسی کے عیب نہیں اچھالے۔
اور دوسری بات یہ کہ انھوں نے کبھی اختلاف رائے کو نہ تو انا کا مسئلہ
بنایا اور نہ ہی دشمنی میں بدلا بلکہ جیسا کہ راقم الحروف اکثر اس بات کا
ذکر کرتا رہتا ہے کہ مجاہد اول کی لغت میں ’دشمن‘ اور ’دشمنی‘ جیسے الفاظ
سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ اس کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس عظیم قائد
اور شجر تناور کی چھاؤں اور پرورش میں پل کر جوان ہونے والے اور ایک کارکن
سے وزارتوں اور وزارت عظمیٰ کے زینوں تک پہنچنے والے مسلم کانفرنس سے
علیحدہ ہونے والے یہ رہنما اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے دُشمنی کا
ریکارڈ قائم کرنے میں مصروف ہیں اور جو دل میں آتا ہے کہے جا رہے ہیں۔
مسلم کانفرنس کی رکنیت اختیار کرنے سے لے کر اس سے علیحدگی تک ان حضرات نے
صدارتوں، وزارتوں نیز اسمبلی ممبران کے عہدوں کے حلف اٹھائے، مسلم کانفرنس
کے عقائد و نظریات کی پاسداری کے وعدے کئے اور عوام کو بھی ان عقائد کی
پابندی کی تلقین کرتے رہے لیکن آخر اتباعِ نفس میں معمولی سے دنیاوی نفع کے
لیئے جس کے ملنے کی امید بھی دُور دُور تک نظر نہیں آتی یہ جانتے ہوئے کہ
وعدہ شکنی گناہِ عظیم ہے بیسوں مرتبہ کئے ہوئے عہد کے ایفا کی بھی کوئی
اہمیت نہ جانی اور معاشرے میں عہد توڑنے کی ایک انوکھی طرح ڈال دی۔ سورۃ
بنی اسرائیل کی آیۃ نمبر34 میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’تم اپنے وعدوں کو پورا
کرو کیوں کہ وعدہ کے بارے میں قیامت کے دن تم سے باز پرس ہو گی‘‘ ترمذی
شریف میں منقول ایک حدیث میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’شریف النفس جب بھی
وعدہ کرتا ہے اس کو ضرور پورا کرتا ہے‘‘۔ ملک کے موجودہ سیاسی، انتظامی اور
اقتصادی بحران نے آزاد جموں وکشمیر کے ہر مرد و زن پر اس صورت حال کو آشکار
کر دیا ہے کہ ایسے میں مسلم کانفرنس کو تبح کر اس سے علیحدہ ہو جانے والے
رہنماؤں کو کرائے کے شیش محل میں بسیرا اختیار کرنے کا اپنا فیصلہ محل کو
ہچکولے کھاتے دیکھ کر پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی مانند لگ رہا ہے اور اسی لیے
اب ان کے لیے ’’سُر‘‘ اور ’’تال‘‘ کا انتخاب مشکل ہو رہا ہے۔ یہ سمجھ چکے
ہیں کہ ان کے کرائے کے گھر کو ہچکولے کھاتے دیکھ کر ان کو کون ووٹ دے گا۔
تا ہم جیسے کہ اوپر گزارش کی گئی کہ مجاہد اول کو ان رہنماؤں کی عمر بھر کی
پونجی لٹ جانے کا بہت افسوس ہوا تھا جس کا وہ اکثر اظہار بھی کرتے رہتے
تھے۔ فرمایا کرتے تھے مجھے وہ حضرات اسی طرح عزیز ہیں جس طرح پہلے تھے۔
لیکن انھوں نے مسلم کانفرنس، نظریہ الحاق پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کو
جو نقصان پہنچایا اس کی انھیں کوئی قیمت نہ مل سکی بلکہ الٹا تاریخ لکھنے
والوں کے لئے ایسا مواد فراہم کر گئے جو ان کے اس کردار کو شاید نہ صرف یہ
کہ اچھے الفاظ میں نہ لکھیں بلکہ ممکن ہے کہ اس کے لیئے کئی نئی اصطلاحیں
وضع کریں۔ (باقی آئندہ) |
|