رمضان کی رحمتیں، برکتیں، قندیلیں اور مفتا مفتی

رمضان کی نعمتوں اور برکتوں سے عام آدمی کو مالا مال کرنے کے لئے ہمارے سارے ٹی وی چینل دن رات بے پناہ محنت کر رہے ہیں۔ہر چینل پر کئی کئی قندیلیں روشن ہیں جن کے جمال اور کمال سے عام آدمی تو کیا ہمارے مولوی اور مفتی بھی پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں۔ قندیلوں اور مفتیوں کی ان مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں نوجوان نسل تو عالم وجد میں ہے ہی، بڑے بوڑھے مرد و خواتین بھی بہت کچھ سمیٹ رہے ہیں۔سمیٹنے کی یہ ریس بڑی شاندار ہے۔کہ کچھ پانے کے لئے میں نے اچھے بھلے معزز اور معقول لوگوں کو وہ وہ حرکتیں کرتے دیکھا ہے جو عام حالات میں عقل سے عاری لوگ بھی شاید کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں مگر رمضان کی برکتوں اور نعمتوں کو انعام کی شکل میں حاصل کر نے کے لئے ایسا تو کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی رب العزت کا انعام تو جانے کب ملے ۔ سامنے نظر آتا مفتا مفتی مل جانے والا انعام نظر انداز کرنا تو حماقت بھی ہے اور کفران نعمت بھی۔

کہتے ہیں ایک مفتی صاحب کو دیکھنے کے لئے ایک جذباتی سی فلم مفتا مفتی مل گئی۔ موصوف بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نوجوان آگیااور مزید انہماک سے مفتی صاحب کی جذباتی کیفیت کا جائزہ لینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد مفتی صاحب کی اتفاقاً نوجوان پر نظر پڑی تو گھبرا کر بولے ، یہ کیا۔ نوجوان نے فلم کی سکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہی تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیا۔ مفتی صاحب سنبھل کربولے کمبخت میری آنکھوں میں دیکھو، کس قدر نفرت کی نگاہ سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں اسلئے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے برائی کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔سچی بات ہے مذہبی پروگراموں میں ہماری نظر بھی مفتیوں پر کم اور قندیلوں پر زیادہ ہوتی ہے اسلئے ہم اپنے ان مفتیوں کی نظروں کے پیام کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔

ویسے پتہ نہیں کیوں ہم ہمیشہ الزام اپنے ان نیک لوگوں ہی پر کیوں لگاتے ہیں۔ قصور کسی قندیل کا بھی ہو سکتا ہے۔ ایک لڑکی ایک مفتی صاحب کے پاس آئی اور بتایا کہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو کو پسند کرتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مفتی صاحب برہم ہو گئے کہ جہنم کا سامان کر رہی ہو۔ لڑکی نے پھر عرض کی ، حضور میرا ایک چچازاد ہے وہ بھی مجھے پسند ہے ۔ اس سے شادی کیا ٹھیک رہے گی۔ مفتی صاحب جلال میں آ گئے کہ دوبارہ دوزخ سمیٹ رہی ہو یہ سب سوچنا تمھارا کام ہی نہیں۔ لڑکی نے تھوڑی دیر سوچا پھر پوچھا اگر میں آپ سے شادی کر لوں، مفتی صاحب مسکرائے، پھر ہنس کر بولے، سیدھا جنت میں جانا چاہتی ہو۔ اس تناظر میں اگر غور کریں تو سمجھ آتا ہے کہ ضرور جنت کے ٹکٹ کے حصول کے لئے در حقیقت قندیلیں ہی ساری صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔

مولوی اور مفتی مسلمانوں میں ایک بلند مرتبت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افعال، کردار، مزاج اور رہن سہن ان کے دل و دماغ سے زیادہ ان کی روح سے ہوتا ہے۔انہیں دنیا کی آلائشوں سے مبرا ہونا چائیے ، لوگ کم از کم یہی توقع کرتے ہیں۔ان کے افعال سے اطاعت الہی کی جھلک نظر آنی چائیے۔ ان کے کردار سے محبت الہی چھلکنی چاہیے۔مزید یہ کہ یہ رمضان کا مہینہ مسلمان سے تقوہ کا تقاضا کرتا ہے ۔ دنیا کی کل سات ارب سے زیادہ آبادی کا 22 فیصد یعنی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے زائد مسلمانوں کی آبادی اس مہینے روزے رکھتی ہے اور تقوے کی حالت میں ہوتی ہے۔ روزے کا مقصد اور تقوے کا مفہوم صرف کھانے اور پینے سے پرہیز نہیں بلکہ ہر اس چیز سے پرہیز ہے جو ا ﷲ کو پسند نہیں۔آپ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ریا کاری نہیں کر سکتے۔کسی کو فریب نہیں دے سکتے۔ فضول گفتگو نہیں کر سکتے۔ غیر ضروری جھگڑ نہیں سکتے۔مگر رمضان کے دنوں میں ٹی وی چینلز پربہت سے پروگرام ایسے نظر آتے ہیں کہ جن میں گفتگو انتہائی فضول اور غیر ضروری نظر آتی ہے۔بہت سے پروگرام ایسے نظر آتے ہیں کہ جن میں رمضان تو کیا اسلامی روح بھی نظر نہیں آتی۔علما کے نام پر جو لوگ آتے ہیں ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کے ذہن میں علما کے بارے جو تاثرہوتا ہے اسے وہ اپنی بے سروپا گفتگو اور بے معنی حرکتوں سے مسخ کر جاتے ہیں۔

اصل میں کچھ یوں ہے کہ ہمارے پسماندہ علاقوں کے وہ لوگ جو اپنے معاشی حالات کی وجہ سے اپنے بچوں کو صحیح تعلیم دلانے سے قاصر ہوتے ہیں،بچوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ مجبوری میں اپنے بچوں کو مدرسوں کے سپرد کر جاتے ہیں۔ بلا شبہ مدرسوں کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ان مستحق طلبا کو روزگار کے قابل اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھا دیتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی تعلیم کے بہت سارے مدارج ہوتے ہیں۔ طلبا کا اپنا بھی ایک IQ لیول ہوتا ہے۔چنانچہ زیادہ تروہ مدرسے ایک خاص طرح کا پروفیشنل تیار کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہبی تعلیم پر ہوتی ہے۔ ان میں کچھ تو اس علم کو دل سے قبول کرکے اپنی اندر بسا لیتے ہیں یہی لوگ درحقیقت مولوی اور مفتی ہیں مگر زیادہ تر وہاں تعلیم پانے والوں کو مقصد روزگار کا حصول ہوتا ہے۔تعلیم میں ان کی دلچسپی بھی اسی حد تک ہوتی ہے۔ ان کی روح اسلام کے حقیقی فکر سے خالی ہوتی ہے۔ وہ بس اچھا کھاتے، اچھا پیتے، اچھا بولتے اور اچھی باتیں بناتے ہیں۔ وہ داڑھی اور لباس سے تو بظاہر عالم نظر آتے ہیں مگر ان کا ہر عمل روحانی جذب سے خالی خالی رہتا ہے۔ان کا نام مولوی ہو یا مفتی، عملی طور پر وہ ایک پروفیشنل کے سوا کچھ نہیں۔ان کے افعال اور کردار سے اصلاح کم اور گمراہی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔وہ لوگ جو صحیح معنوں میں مولوی یا مفتی ہیں گو وہ تعداد میں بہت کم ہیں مگر ان کے سامنے تو ہزاروں قندیلیں بے رنگ اور بے نور نظر آتی ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500600 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More