’’قائد اعظم اور افواج پاکستان‘‘ صحافی و
ادیب جبار مرزا کی تازہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے قومی تاریخ کے ان واقعات
کا ذکر کیا ہے جو قائدؒ اور افواج کے گہرے رشتے کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسے
وقت میں جب ہماری نئی نسل اپنی تاریخ کے روشن دریچوں میں جھانکنے میں
بیزاری محسوس کرتی ہے اور اپنے بزرگوں اور اسلاف کی تعلیمات اور اطوار سے
منہ موڑتی جارہی ہے، جبار مرزا نے اس کتاب کے ذریعے ان کا ہاتھ قائد اعظمؒ
کی سحرانگیز شخصیت کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کی ہے۔ جس کے لمس کی حدت سے
یقینا ان میں بھی قائدؒ کی طرح کی اولولعزمی، عزم و استقلال، نظم و ضبط،
اصول پسندی ، حب الوطنی اور جذبہ ایثار بیدار ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ انہی اوصاف کی بدولت قائداعظم محمد علی جناحؒ میرکارواں کہلائے
جنہوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی عظیم نعمت سے ہمکنار
کیا۔ جناب جبار مرزا نے اپنی تحریوں کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ تمام عصری
چیلنجز کا مقابلہ قائد اعظم کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہوکرکیا جاسکتا ہے۔
خاص طور پر ہمارے نوجوان اگر ان کی شخصیت کو آئیڈیل بنا لیں تو وہ اپنی
انفرادی زندگیوں کو اصول پسندی اور نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں
جو یقینا پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان ہماری آزادی اور بقاء کی ضامن اور
ہمارے قومی وقار کی علامت ہیں۔ قوم اور افواج کے درمیان ایک مضبوط رشتہ
ہمارے استحکام اور بقاء کو دوام بخشتا ہے۔جس کی اہمیت اور ضرورت کو جناب
جبار مرزا نے انتہائی موثر اور مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ آج کے دور میں
جب ہماری آزادی کو بیشتر خطرات لاحق ہیں، اندرونی و بیرونی سازشوں کے جال
بنے جارہے ہیں، اس رشتے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جسے مزید استحکام
بخش کر ہم اپنے اندرونی مسائل اوربیرونی سازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ہماری مسلح افواج نے قیام پاکستان کے وقت نامساعد حالات میں اپنے سفر کا
آغاز کیا تھا۔ انہوں نے قائد اعظمؒ کے اصولوں کو ہمہ وقت تھامے رکھا اورآج
الحمدﷲ، ان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہادری اور
پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ایک منفردا ور ممتاز حیثیت رکھتی ہیں
بلکہ جدت اور ماڈرن ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی منزل حاصل کرچکی ہیں۔ آج
پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ۔ حتف میزائل سیریز، الضرار و الخالدٹینک، جے ایف
تھنڈر طیارے اور آگسٹا آبدوزیں ہماری ایسی نشانیاں ہیں جن کے تصورسے دشمنوں
کے دل دہک جاتے ہیں۔ مسلح افواج کو یہ مقام اور کامیابیاں یقینا اسی وجہ سے
ملیں کہ انہوں نے قائد ؒ کے دیئے اصول’’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘ پر کلی
طور پر عمل کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم دوسرے اداروں پر نظر ڈالتے ہیں
تو ہمیں زوال کی ایک لمبی داستان نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی
کے بعد ان اداروں نے بھی سروسامانی کے عالم میں اپنے سفر کا آغازکرتے ہوئے
نوزائیدہ مملکت کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا تھا۔ ملی جذبے اور حب
الوطنی سے سرشار ان کے کارکنوں میں بھی قائداعظم کی روح سمائی ہوئی تھی۔یہی
وجہ تھی کہ ان کی نگرانی اور کام کی بدولت مختلف شعبوں میں پاکستان نے بام
عروج حاصل کیا۔ مگر افسوس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارے قائداعظم کے
اصولوں سے ہٹتے گئے اور سیاسی اثرورسوخ، اقرباء پروری اور کرپشن کے ناسور
کی وجہ سے یہ ایسے زوال پذیر ہوئے کہ آج ملکی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے
ہیں۔جناب جبار مرزا نے اپنی تصنیف میں اسی فرق کو واضح کیا ہے۔ہر باب میں
انہوں نے نئی نسل کو پھر سے قائداعظم ؒ کی تعلیمات اور اصولوں پر عمل کرنے
کی تلقین کی ہے ۔ انہوں نے افواج پاکستان کے مختلف اداروں، ان میں ہونے
والی تبدیلیوں کو تاریخی پس منظر میں بیان کیا ہے جن میں قائد کی شخصیت کی
جھلک نمایاں ہے۔ کتاب میں افواج پاکستان کے تقریباََ ہر پہلو پر روشنی ڈالی
گئی ہے۔ ایک نمایاں باب قلم وقرطاس میں اپنا نام پیدا کرنے والے باروردی
صحافیوں کے بارے میں بھی ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں بھارتی فوج کا غاصبانہ
قبضہ ، سانحہ مشرقی پاکستان کا پس منظراور بھارتی سازشوں کو بھی بڑے جامع
اور مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ، آپریشن ضرب عضب،
جنگ ستمبر اور انتخابات میں فوج کے کردار کے بارے میں بھی ان کی آراء
اورتبصرے شامل ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے ہر پاکستانی کو ماضی کی
کامیابیوں اور ناکامیوں کے تناظر میں اپنا احتساب کرنے پر ابھارا ہے۔ آج جب
خودغرضی کے عالم میں اکثریت یہ سوچ رہی ہے کہ ہمیں اس وطن اور دیس نے کیا
دیا، جبار مرزاانہیں جواب دیتے ہیں کہ اس دھرتی نے انہیں آزادی، خودمختاری،
عزت و وقاردیا ہے۔اس کے مقابلے میں ’’ہم نے پاکستان کو کیا دیا‘‘ توجواب
میں یقینا ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ جبار مرزا کی ایک اور خوبی یہ
ہے کہ انہوں نے اپنی شخصیت کوکبھی نمایاں نہیں کیا بلکہ خود کو اپنے کام
اور تحریروں کے پیچھے چھپائے رکھا ۔اس کتاب میں بھی وہ خود کہیں نظر نہیں
آتے تاہم پس سرورق پر دوسطری خودنوشت میں لکھتے ہیں: ’’راولپنڈی شہر میں
پیدا ہوا، موجودہ اسلام آباد ہمارے دیہات تھے، یہیں پلا بڑھا، پڑھا، انہی
کچے پکے راستوں پر دوڑتے بھاگتے بڑا ہوا اور بوڑھا ہوگیا۔ ‘‘ جبار مرزانے
اپنی ذات کے بارے میں بے شک کسرنفسی سے کام لیا ہے۔ لیکن ان کا قلم عمر
بھرجس قومی مشن پر رواں رہا، اس نے ان کی ذات کو بڑا بنا دیا ہے۔ |