اسلامی جمہوریہ پاکستان کس کا ہے
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر۔۔۔محمد فیاض قادری
میں شام کے وقت کیفے پر چائے پینے کے لیے گیا۔کیفے میں کافی لوگ چائے پینے
کے لیے آئے ہوئے تھے۔اور مختلف قسم کی باتیں کر رہے تھے۔کوئی سیاست پر بات
کررہا تھا۔تو کوئی اپنے اپنے محلے کے بارے باتیں کررہے تھے۔ان میں سے ایک
ایسا شخص بھی بیٹھا تھا۔جس نے بڑے فخر سے کہا ۔یہ ملک پاکستان اپنے ماں باپ
کی طرح ہے۔جس نے مجھ کو سب کچھ دیا۔مجھ کو آزادی کی زندگی دی ۔مجھ کو اپنا
گھر دیا۔اور بہت عزت دی ،مجھ کو روزگار دیا۔میں نے آج تک اس کو کیا
دیاہے۔کبھی میں نے اتنی سی بات سوچی ہے۔جس ملک نے ہم کو سب کچھ دیا۔جس طرح
تم کو اپنے ماں باپ پیار کرتے ہیں۔اس طرح اس ملک پاکستان نے تم کو پیار
دیا۔اس کے بدلے میں تم نے اپنے ملک پاکستان کو کیا دیا ہے۔کوئی ایک بتا
دیں۔جس سے پاکستان کی بھلائی ہوئی ہو۔اس میں رہنے والے انسانوں کی بھلائی
ہوئی ہو۔کوئی ایسی بات کوئی تو کام بتاؤ کوئی عمل بتا دے۔جس سے اس ملک
پاکستان کو کوئی فائدہ ہوا ۔جس میں تمھاری کوئی اپنی لالچ نہ ہو۔حتی کہ
کھاتے۔بھی اس ملک کا ہو،آزادی بھی اسی ملک کی ہے۔کیوں اس ملک کی وجہ سے
تمھاری پہچان ہے ۔کیا تمھارا ضمیر اتنا مردہ ہوچکا ہے۔اپنے ماں کا اور باپ
کا احساس نہیں کرسکتے ہو۔اتنے بے ضمیر سیاستدان تم کبھی اپنے ملک کا خیال
نہیں کر سکتے ہو۔جس کا ہم کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں۔اور مسلمان ہوئے اس اﷲ پاک
کو آپ مانتے ہیں۔جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔اس بات کا یقین ہے۔تو پھر یہ
بات مجھ سے ہضم نہیں ہوتی۔پاکستان کا مطلب کیا ہے۔جب اس بات کا پتہ چل جاتا
ہے۔جوالفاظ پڑھ کر ہم لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔وہی مطالب میرے ملک پاکستان کا
ہے۔میں پھر بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔آخر کیوں کیا تم کو اس کے معانی
نہیں آتے یا جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے ہو۔اگر اس کا معانی سمجھ
آگئی۔تو باعمل ہونا پڑے یا مکمل طور پر ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔یا سننے اور
سمجھنے کی طاقت بھی ختم ہوگئی۔ایک بہت بڑی زندہ مثال ہے۔ایک ایسا افیسر
تھا۔جو سکڑئیٹ میں ایک ماہ میں تقریبا پانچ یا چھ لاکھ روپے کماتا تھا۔ایک
دن اپنے ملازم کو لیکر لونگ ڈرائیونگ پر لے کر گیا۔اور راستے میں اپنے
ملازم کو کہتا ہے ۔کہ یار دعا کرو مجھ کو موت آجائے۔اس کا ملازم کہتا ہے۔سر
یہ آپ کیا کہا رہے ہیں۔آپ تو بہت اچھے آفیسر ہیں۔ہم جیسے غریبوں کے ساتھ تو
اچھا سلوک کرتے ہیں۔آپ کی اولاد ہے۔اس وقت افیسر غصہ میں آگیا۔اور کہتا جس
کی اولاد اپنے ماں باپ کے لیے یہ دعا کرتی ہو کہ اس کا باپ مر جائے۔اس کے
باپ کے جینے کاکوئی حق ہے۔کہ وہ زندہ رہے۔میں نے اپنی اولاد کے لیے ہر خوشی
تلاش کی اور ان کودی۔چاہیئے مجھ کو اپنی قبر گناہ سے بھر پڑی ہے۔یہ میرے
لیے کیا دعا کرتے ہیں۔میں سر ایک بات کیوں آپ بورا تونہیں مانیں گے۔نہیں
یار کہو تم بھی کچھ کہا دو۔اگر اولاد نے اتنی بڑی بات کردی ہے۔اگر تم
کردوگے توکون سی نئی بات ہے۔اب زندگی سے کوئی پیار نہیں ہے۔میں سر میں کوئی
ایسی بات نہیں کہنا چاہتا میں تویہ کہنا چاہتا ہوں۔کہ حرام کی کمائی ہوئی
دولت اپنے گھر نہ لیکر جایا کرو۔بلکہ یہ کام آپ چھوڑ دیں۔کوئی اچھے کام
شروع کردیں۔کوئی ایسا کام جس سے اﷲ پاک راضی ہو جائیں۔اس کی انسانیات بنائی
ہوئی خوش ہو جائے۔وہ بات اس افیسر کے دل ودماغ میں ایسے داخل ہوگئی ۔حرام
کی دولت انسان کو بے ضمیر اپنے ماں باپ کادشمن بنادیتی ہے۔اب میں اپنے
سیاست دانوں سے اور معاشرے کے باشعور لوگوں سے سوال کرتا ہوں۔کیا ہم نے اس
ملک پاکستان سے کوئی اچھا کیا ۔اگر پاکستان سے اچھا نہیں کیا تواپنے ماں
باپ کے لیے غداری کی اور اس کی سزا موت ہونی چاہیے۔جو اپنے ماں باپ کا نہیں
وہ میرے پاکستان کا کیسے ہو سکتا ہے۔جب یہ لوگ غریب عوام سے جھوٹ بول کوووٹ
لیکر اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں۔اورپھر اسمبلی حال میں کھٹرے ہوکر حلف
اٹھاتے ہیں۔کہ میں ملک پاکستان کا وفادار رہوں گا۔اپنی عوام جن سے ووٹ لیکر
یہاں تک پہنچا ہوں۔ان کا مسیحا بنوں گا۔لیکن جب حلف اٹھا لیتے ہیں۔وہ سب
کچھ بھول جاتے ہے۔جو اسمبلی حال میں حلف دیا تھا۔اور عوام سے وعدے کیے
تھے۔وہی بادشاہت وہی تکبرانہ سوچ چھوٹ کی کہانی ۔جمہوریت کے دعوے کرتے
رہنا،اور اپنے ساتھ کرپشن کروانی اور کی جاتی ہے۔کروڑوں روپے اپنیاکاونٹ
میں جمع کروائے جاتے ہیں۔یہ جمہوریت پاکستان کے وفادارہیں۔اور ان پاکستان
کے وفادار جمہوریت کے ٹھکیداروں کے ہمدارد جو ان سے مل کر مختلف ٹھکیداروں
سے پیار کرنے والے کو گلیوں اور سڑکیں فٹ پاتھ بنواتے ہیں۔اور صبح شام ان
کے دربار پر جا کر حاضری سلامی کرتے ہیں۔اور لاکھوں روپے کی کرپشن کرتے
ہیں۔میں حیران ہو اپنے خادم اعلی پنجاب سے وہ جب بھی کہتے ہیں۔میرئے پنجاب
میں کرپشن کوئی بھی نہیں کرتا۔اور میں آپ کو دیکھا دوں۔کہ صرف ایک محکمہ ٹی
ایم اے کے افس کا چکر لگا لیں ۔میں آپ کو ایسے چہروں سے نقاب اٹھاوں۔آپ
پریشان ہوجائیں گے۔میں صرف اس ایک جھنگ ٹی ایم اے افس میں شیخ عدنان ہیں۔اس
نے ٹی ایم اے میں کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ دے ہیں۔اس نے نقشہ برانچ میں
بہت زیادہ کرپشن کر کے تمام ریکارڈ توڑ دہیے ہیں۔عجیب بات تو یہ ہے کہ جب
کوئی اس کے خلاف آواز اٹھنے لگتا ہے۔تو یہ ان کو کسی نہ کسی طریقہ سے خاموش
کروا دیتے ہیں۔اس ٹی ایم اے میں کوئی ایک افسر دیکھا دیں جو اﷲ پاک سے ڈرتا
ہو۔ان کی سوچ ہے شام پڑھیں سارے گناہ ختم ہو جائیں گئے۔صبح جاکر اس طریقے
کار کے مطابق عوام کوذلیل کریں گے۔اور کرنا ہے۔کیا ان کو مرنا یاد نہیں
ہے۔اگر انسانیت سے اچھائی بھلائی نہ کی تو ناراض کون ہوگا۔یہ کسی کو پتا
نہیں یہ جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے ۔عدنان کی کرپشن کا کسی نے پتہ کیا
ٹی ایم او کو نہیں پتہ اس کے اوپر جو افیسر بیٹھتے ہیں۔ان کو نہیں پتا یا
ہوسکتا ہے یہ بات میرے وزیراعلی پنجاب کو بھی نہیں پتا ہوگی۔کہ یہ لوگ
کرپشن کرنے کے بہت بڑے گرگس ہیں۔اس طرح کے اوپر بھی بہت گرگس ہیں۔جنھوں نے
کرپشن کرنی ہے۔اس ملک پاکستان کے ہر اس آئین توڑواور کوئی ہم کو قانون شکن
نہ کہے۔کس طرح لوٹ مار کرنی ہے۔تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔کرپشن بھی
ہم نے کرنی ہے اور اور انصاف بھی ہم نے کرنا ہے۔جب ہماری کرپشن پکڑی جائے
گی تو مزاکرت آجائیں گے۔وہ اس لیے کہ کسی کو جرم تو نظر ہی نہیں آتا۔ہمارے
ملک کے بڑے بڑے سیاست دان کہتے ہیں۔اگر کسی نے بھی ہمارے بارے میں کرپشن
عیاں کی تو یا خرید لو اگر وہ نہ خریدا جا سکیں تو پھر مروا دو۔یہ میرے
پاکستان کا قانون ۔حتی کہ سب کو نظر آتا ہے۔لیکن پھر کہتے ہیں ۔کہ میں نہیں
مانتا میں نہیں مانتا میری آنکھیں بند ہیں۔کیا ضلع جھنگ کے بڑے سیاست دانوں
کے لیے قبر نہیں ہونی کیا۔انھوں نے مرنا نہیں ہے۔کیا ساری زندگی اس دنیا
میں رہنا ہے۔کیا آخرت کی دنیا نہیں دیکھنی ہے۔میں تو اتنا کہوں گا۔کچھ کر
جا کہ دنیا یاد کرئے ۔اچھے الفاظ سے انسان کے بارے کیا خوب کہا۔
اگر انسان زندہ ہے تو جینیں نہیں دیتے
اگر مر جائے توکہتے ہیں کہ وہ بہت اچھا تھا
آج میں آپ سب سے پوچھتا ہوں۔کہ یہ پاکستان کس کا ہے۔یہ فیصلہ عوام پر
چھوڑتا ہوں۔یہ پاکستان ان لٹیروں کا ہے۔یا اس عوام کا جن کے ساتھ ان سیاست
دانوں نے چھوٹ بولا اور ان سے وعدے وعیدکرنے والوں کا ہے۔جنھوں نے کبھی سچ
نہیں بولا ۔جس دن یہ لوگ عوام سچ بولیں ۔اس دن ان لوگوں کی طبیت خراب
ہوجاتی ہے۔کوئی انسان آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول
سکتا۔یہ لوگ کبھی اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولا انھوں نے تو قسم اٹھا رکھی
ہے۔کہ ہم نے کبھی بھی اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولنا۔صرف عوام سے ہردفعہ جھوٹ
بولنا ہے۔ہم کو معلوم ہے کہ اس عوام کو جیتنا بھی ذلیل کرلو۔انھوں نے ووٹ
ہم کو دینا ہے۔وہ اس لیے ان میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ یہ ہمارے بارے
میں کوئی منفی سوچ رکھ سکیں۔ہم نے ان کے اندر سے بہت قیمتی طاقت نکل لی
ہے۔جس کو ہم احساس کہتے ہے۔اگر انسان کے اندر احساس نہیں ہے تو اس کی سوچنے
کی ساری قوت ختم ہوجاتی ہے۔وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچے گا اور وہ کسی
کے بارے نہیں سوچے چاہیے گا۔یہ لوگ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حکومت
کررہے ہیں۔اسے ہی جھنگ کی عوام کا حشر ہے۔کہ کچھ انسانیت کے دشمنوں کے اس
ملک سے احساس ختم کیا۔اس جھنگ کی عوام سے ختم کیا ہے۔اﷲ پاک ان کو ہدایت دے
یا پھر ان کو اس دنیا سے اٹھا لیے۔
تھا یقین مجھ کو یہ آزاد ہوگا پاکستان میرا
آزاد تو ہواتھا لیکن برباد ان کے ہاتھوں ہوا۔ |
|