مسلم کانفرنس کو تج کر علیحدہ ہونے والے رہنماوں کے نام:(قسط دوم )
(Mian Kareem Ullah Qureshi, )
گزشتہ پانچ برسوں سے آزاد کشمیر کے مختلف
مقامات پر میاں نواز شریف صاحب کے جلسوں کی رودادیں تماشبین اور مسلم
کانفرنس کے کارکنوں نے دیکھ اور پڑھ لی ہوں گی اس پر زیادہ کچھ کہنے کی
ضرورت نہیں لیکن یہ سب نے جان لیا ہے کہ میاں صاحب موصوف نے مسئلہ کشمیر کے
اس نازک موڑ پر کشمیریوں میں نفاق ڈال کر تاریخ میں اپنے لئے اچھے الفاظ کے
اندراج کے امکانات ختم کر دیئے ہیں۔ باقی اگر وہ دو مرتبہ اپنی وزارت عظمیٰ
کے دوران ایل او سی کو نہیں کھول سکے تو اب کہاں کھول سکتے ہیں ۔ وہ جی بھر
کر فوجی جرنیلوں کے بارے میں سخت سُست کہتے رہے ہیں لیکن انھیں معلوم ہونا
چاہیے کہ جو ں جوں وہ فوج کے خلاف زبان کھولتے رہے ہیں عوام کے دلوں میں ان
کے لیے نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ صرف لاہور شہر
کے لیڈر ہو کر رہ گئے ہیں ۔ آزاد کشمیر میں ـ’’ن لیگ‘‘ کے نام پر انتخاب
لڑنے کے فیصلے کی ان کی بے بصیرتی کے باعث انھیں پہلے تو واضح شکست کا منہ
دیکھنا پڑاتھا لیکن اس بار جو شکست ہو گی وہ پاکستان میں ان کی رہی سہی
ساکھ کو بھی ختم کر دے گی اور یہ بات خود ان کو بھی اور آزاد کشمیر میں ان
کے نام نہاد خیر خواہ رہنماؤں کو بھی اچھی طرح دکھائی دے رہی ہے۔ باقی
اُنھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہم اُن کی
معلومات میں اضافہ کر دیں کہ ملک میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہو یا سیدھی نواز
شریف صاحب اس میں شریک رہے ہیں اور برابر کے ذمہ دار ہیں۔ مجاہد اول کے
بارے میں ان کے ریمارکس کہ وہ ’’ن لیگ‘‘ کو غیر ریاستی جماعت کہتے ہیں میاں
صاحب کے ظرف کی عکاسی کرتے ہیں پھر بھی مجاہد اول ان کا نام عزت سے لیتے
تھے۔ البتہ اگر وہ ماضی کے جھرو کے میں جھانک کر دیکھیں تو ان کو معلوم ہو
جائے گہ کہ انھیں پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچانے میں مجاہد اول کا کس
قدر ہاتھ رہا ہے۔ نواز شریف صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کس شخصیت کے
بارئے میں کیا ریمارکس پاس کر رہے ہیں۔ باقی پانچ برس پہلے کے اُن کے یہ
ریمارکس کہ کارگل کی جنگ نے کشمیر کی آزادی کو دور کر دیا اس بات کا فیصلہ
تاریخ کرے گی اور پھر یہ کہ کرکل کی جنگ کا راز ابھی کھلا ہی نہیں ۔ ہاں
اتنی بات سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف صاحب نے اپنی قابلیت اور مجاہد اول سے
مشاورت کے بعد’’ مظفرآباد سرینگر ‘‘بس چلانے اور جنگ بندی لائن کے چار دیگر
مقامات سے ہر سات روز کے بعد کشمیریوں کے آر پار آنے جانے کا آغاز کر کے وہ
کارنامہ انجا م دیا جو پاکستان میں مسند اقتدار پربیٹھنے والا کوئی دوسرا
حکمران نہیں انجام نہیں دے سکا۔ لیکن افسوس کہ وہ جنرل مشرف کا غصہ فوج کے
پورے ادارے پر نکالتے رہے۔ نواز شریف صاحب نے بہت زور لگایا لیکن عوام کو
فوج پر بدضن نہ کر سکے۔ فوج کی دوہری حیثیت ہے ایک تو پورے پاکستان میں
دوسری آزاد کشمیر میں جو پاکستان کا دفاعی علاقہ ہے اﷲ نہ کرے اگر اس علاقے
میں فوج کے خلاف کسی قسم کی بے چینی پیدا ہو جائے تو کیا فوج کے بغیر عوام
اکیلے پاکستان کی دفاع کا فریضہ انجام دے سکیں گے۔ اس بارئے میں میاں صاحب
کے پاس متبادل کیا تجویز ہے۔ میاں صاحب جوں جوں پاکستان کی محافظ (فوج) کے
خلاف زبان کھولتے جار ہے تھے ان کا گراف پورے ملک میں گرتا جا رہا تھا اور
ملک کے موجودہ سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ ان کا گراف بالکل گر گیا ہے۔
جہاں تک ہمارے بڑے رہنما (سردار سکندر حیات) کا ایک مرتبہ مجاہد اول کے
بارے میں یہ کہنا ہے کہ کیا سردار قیوم اﷲ تعالیٰ کے پاس گئے ہیں کہ انھیں
بتایا گیا کہ نواز شریف پر اﷲ کی ناراضگی ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی پاس جانے کی
بات نہیں تھی بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجاہد اول کو دی گئی بے مثال سیاسی
اور روحانی بصیرت کی بات تھی۔ جسے صاحب موصوف کئی بار خود بھی آزما اور
دیکھ چکے ہیں۔ بقول غالب’ؔ’ دل کے بہلانے کو غالبؔ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق
موصوف محترم اپنے ناقابل تلافی نقصان سے اپنی توجہ ہٹانے اور دل کو جھوٹی
تسلی دینے کے لیے جو مرضی ہے ارشاد فرمائیں لیکن وہ عمر کے اس حصے میں
زندگی بھر کی پونجی اپنے ہی ہاتھوں کسی کے بہکاؤے میں آ کر لٹا دینے پر
اندر ہی اندر سے جس کرب اور پریشانی میں مبتلا ہیں اس کا ان کے دوستوں اور
مخالفوں سبھی کو دکھ ہے۔ وہ بھی کب تک اس لغرش کو سینے میں چھپا کر رکھیں
گے۔ ایک نہ ایک دن اپنی لغرش کا ضرور اعتراف کرنا پڑے گا۔ جس طرح شیخ محمد
عبد اﷲ نے بستر مرگ پر ان کی عیادت کو گئے ہوئے اپنے ایک دوست سوپور کے
’’صوفی محمد اکبر‘‘ صاحب سے کہا تھا کہ میں نے ’’مسلم کانفرنس ‘‘ سے اور
بعد ازاں ’’محاذ آزادی ‘‘ سے علیحدگی اختیار کر کے بے حد غلطی کی ہے۔ آپ
مجھ سے بہت بہتر اور عوام دوست ہیں کہ آپ نے استقامت سے کام لیا۔میرے حق
میں دعا کرنا کہ اﷲ مجھے معاف کرے‘‘ یہ وہ باتیں ہیں جو اس وقت پر یس میں
آچکی ہیں اور اگر صاحب موصوف کو یاد ہو تو شیخ صاحب کے پوتے عمر عبد اﷲ
صاحب نے پاکستان کے دورے کے دوران اپنے دادا کے نظریہ تبدیل کرنے پر معذرت
بھی کی تھی۔ یہ بات برسبیل تذکرہ چل پڑی لیکن ضروری بھی تھی۔ وہ اس لئے کہ
قائد ملت چوہدری غلام عباس صاحب اورشیخ محمد عبد اﷲ صاحب کا ساتھ تقریباً
ایک عشرے پر محیط تھا جب کہ صاحب موصوف اور مجاہد اول کا ساتھ تقریباًپانچ
عشروں پر میحط تھا اور اس وقت وہ صورت حال بھی نہ تھی جو شیخ محمد عبداﷲ کو
درپیش تھی۔اگر کسی کے دل پر یہ بات گراں گزرے تو نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیخ محمد عبد اﷲ کو نہرو خا ندان اور کانگریس نے شیشے
میں اتاراتھا جب کہ یہاں وہی کردار نواز شریف صاحب اور ’’ن لیگ‘‘ نے ادا
کیا ۔ اول الذکر کا مقصد بھی کشمیریوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کر کے اپنا
الو سیدھا کرنا تھا اور موخر الذکر کا مقصد بھی ہمیں اس کے سوا کچھ نہیں
دکھائی دیتا۔ لہذا جس طرح شیخ محمد عبد اﷲ نے اعتراف لغزش کیا تھا اس طرح
ہمارے ان محترم و مہربان رہنماؤں کو بھی کرنا پڑے گا لیکن اب وقت بہت آگے
نکل گیا ہے۔ کیوں کہ وقت نہ تو کسی کا انتظار کرتا ہے اور نہ کسی کے لیے
واپس پیچھے آتا ہے۔ وقت کی اپنی رفتار ہے وقت کے ساتھ چلنے کے لئے سب سے
پہلے اﷲ رب العزت کی توفیق و مہربانی اور پھر سیاسی اور روحانی بصیرت کی
ضرورت ہوتی ہے۔ جو جناب مجاہد اول کا ملکہ رہی ہے۔ اور ان سے اس نعمت کا
حصہ سردار عتیق احمد خان صاحب کو مل چکا ہے جسے وہ اﷲ کی توفیق سے بروئے
کار لاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہاں ایک حدیث شریف بیان کرتا ہوں کہ فرمایا
رسولﷺ نے کہ ’’لوگوں میں بدترین شخص وہ ہے جو دوسرں کی دینا سنوارنے کے لئے
اپنی آخرت برباد کر دیتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف جلد ۳ صفحہ۱۱۹) صحابہ کرامؓ نے
عرض کیا یا رسولﷺ وہ کون لوگ ہیں؟ جناب رسولﷺ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں جو
اپنے اہل و عیال اور اقارب کے لئے دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں، عہد شکنی
کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں‘‘۔ ہمیں ان محترم اور قابل احترام رہنماؤں کی
یہ منطق ہر گز سمجھ نہیں آئی کہ آخر انھوں نے کن لوگوں کے لئے مذکورہ بالا
حدیث مبارکہ کی خلاف ورزی کی۔ خیر ممکن ہے ان کے پاس اس ضمن میں کوئی مروج
فتویٰ موجود ہو۔ تاہم:
راقم اپنی بات ختم کرنے سے پہلے یہ گزارش کر دے کہ ان شااﷲ ہمارے یہ مہربان
رہنما جو مسلم کانفرنس کو تج کر علیحدہ ہوئے ہیں وہ بھی اور ان کے خیر خواہ
بھی سنیں گئے کہ الیکشن کے بعد آزاد کشمیر بھر اور پاکستان میں بھی حضرت
میاں محمد بخشؒ کا یہ شعر زبان زدِ عام ہو گا۔
گہگی بیٹھی رہی اوتھائیں چنگی بھلی نروئی
مارن والے موئے محمدؔ قدرت رب دی ہوئی |
|