جعلی ڈگریاں

اس نئے سیاسی افق ایک نئی پیش رفت ہوئی جو قوم کے سامنے رفتہ رفتہ کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ مسئلہ تعلیم کا نہیں مسئلہ ذہنیت کا ہے۔ یہ ذہنیت اس ملک کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ ابتدا میں صرف ایک کیس سامنے آیا جس پر بہت لے دے ہوئی چیلینج ہوئے اور پھر تو سلسلہ چل نکلا۔

جناب اس ممبر کی سوچ دیکھیں جو فارم پر کر رہا ہے اور حلفیہ اقرار بھی کرتا ہے کہ درست معلومات ہیں۔ چونکہ وہ ایک علاقہ کے لوگوں کی نمائندگی کرنے جا رہا ہے۔ وہ جعلی ثابت ہوتی ہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے بہتری کی توقعات کا سارا اسٹرکچر ہی زمین بوس ہو جاتا ہے یہ چھوٹا واقعہ نہیں اس بات کو درگزر کرنا انصاف کا خون ہوگا اس دانستہ غلط بیانی کرنے والوں کو سزا کے طور پر کیوں نہ پابند سلاسل کر دیا جائے اور ان کو ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ یہ تو ہوئیں ملکی اسناد کی بات اب ایسے ممبران جو غیر ملکی اسناد رکھ کر اسمبلیوں میں تشریف فرماں ہیں ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔

ان کو بھی اسی چھلنی سے گزارہ جائے۔ لیکن کیا ارباب اختیار اتنی زحمت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اگر نہیں تو انکو بھی اسمبلی میں رہنے کا اختیار نہیں۔ وہ کس طرح عوام کے حقوق کا تحفظ کریں گے کہ خود ان کے ساتھیوں میں مجرمانہ ذہنیت والے موجود ہیں تو عوام کی کیا خدمت کریں گے ان کا مقصد صرف بہت خوبصورتی سے عوام کا خون کرنا ہوتا ہے۔

یہ مجرمانہ زہنیت کی عکاسی ہے اور اس مجرمانہ زہنیت کے اثرات ملک کے ہر گوشے میں جا بجا نظر آ رہے ہیں۔ اب تو کوئی ادارہ اس سے مبرا نہیں رہا۔ اب کیوں کہ سزا کا خوف نہیں تو ہر کام کھلے عام بڑی ڈھٹائی سے ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے کہ کر لو جو کر سکتے ہو۔

انصاف کا خون ہوتا ہے غریب جس کی پہنچ اوپر تک نہیں ہوتی روزگار اور بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتا ہے اس لئے جو لوگ کچھ نہیں کر سکتے ان میں خودکشیاں کرنے کے رجحانات فروغ پاتے ہیں۔ اور جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں سسٹم سے نفرت کرنے کے باعث ان میں چھین کر حقوق لینے کے جذبات فروغ پاتے ہیں جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ کر چوری چکاری ڈکیتیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جو انہیں تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔

چونکہ ان جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے سیاست دان اور بیوروکریٹ کرتے ہیں اسلیے ان پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ معاشرہ میں بدمعاشی اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ شرفاء میں شامل ہو کر عوام کو طرح طرح نعروں اور سبز باغ دکھا کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ووٹ لینے کے لئے تعصبات اور مذہبی منافرت کے رجحانات کو فروغ بھی دے کر ملکی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بھی ہوتے ہیں۔

اخلاقی تقاضہ یہ ہے کہ ایسے تمام ممبران از خود مستعفی ہو جائیں اور سیٹیں خالی کر دیں۔ اسمبلی کےاسپیکر ایک بل پاس کریں ایک مدت کے اندر جعلی ڈگریوں والے استعفیٰ جمع کروائیں دوسری صورت میں ان کی انکوائری کروا کر تمام مراعات واپس لیں انکی اسمبلی کی رکنیت ختم کر کے جتنے اخراجات ان پر حکومت کے ہوئے ہیں واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروائیں انکو جیل میں ڈال کر ایک مدت تک سزا دے کر اسمبلی کے الیکشن کے لئے مکمل پابندی عائد کر دیں۔ تب تو انصاف کی بات ہوگی۔

اسمبلی میں پڑھے لکھے لوگ ہی آنے چاہیے ہیں۔ پہلے ملک میں جہالت تھی اس لیے جاہلوں کو اسمبلیوں میں آنے کا موقع ملا اب اس ملک کی غالب آبادی پڑھی لکھی ہے ورنہ چور ڈاکو اور لٹیرے کوئی بہتر قانون سازی نہیں ہونے دیں گے۔ صرف عوام کو بیوقوف بنانے میں ملک کو شدید نقصان سے دوچار کر دیں گے۔ اور نواب کالا باغ کی طرح مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتے رہیں گے کہ میری ایک مونچھ لا اور دوسری مونچھ آڈر ہے۔ حکمران بدمعاش یا رسہ گیراور چور نہیں بلکہ عوام کے خادم ہونے چاہئیں۔ جو ہر وقت احتساب کے لئے خود کو تیار رکھیں۔ جب دامن صاف ہوگا تو آنیں بھی چار کرنے کی ہمت ہوتی ہے ورنہ مکر و فریب۔ جعلی ڈگری رکھنے والوں کو دوبارہ ٹکٹ دے کر اسمبلی میں لانا حکمرانوں کی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82173 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More